Narrated 'Ali: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: There are six courtesies due from a Muslim to another Muslim: To give Salam to him when he meets him, to accept his invitation when he invites him, to reply to him when he sneezes, to visit him when he is ill, to follow his funeral when he dies, and to love for him what he loves for himself.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حسن سلوک کے چھ عمومی حقوق ہیں، ( ۱ ) جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، ( ۲ ) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، ( ۳ ) جب اسے چھینک آئے ( اور وہ «الحمد لله» کہے ) تو «يرحمك الله» کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے، ( ۴ ) جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرے، ( ۵ ) جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ ( قبرستان ) جائے، ( ۶ ) اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ۳- بعض محدثین نے حارث اعور سے متعلق کلام کیا ہے، ۴- اور اس باب میں ابوہریرہ، ابوایوب، براء اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَالْبَرَاءِ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُهُمْ فِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ.
Narrated Abu Hurairah: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: There are six things due from the believer to another believer: Visiting him when he is ill, attending (his funeral) to him when he dies, accepting his invitation when he invites, giving him Salam when he meets him, replying to him when he sneezes, and wishing him well when he is absent and when he is present.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کے مومن پر چھ حقوق ہیں، ( ۱ ) جب بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کرے، ( ۲ ) جب مرے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، ( ۳ ) جب دعوت کرے تو قبول کرے، ( ۴ ) جب ملے تو اس سے سلام کرے، ( ۵ ) جب اسے چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب دے، ( ۶ ) اس کے سامنے موجود رہے یا نہ رہے اس کا خیرخواہ ہو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن موسیٰ مخزومی مدنی ثقہ ہیں ان سے عبدالعزیز ابن محمد اور ابن ابی فدیک نے روایت کی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ سِتُّ خِصَالٍ: يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَنْصَحُ لَهُ إِذَا غَابَ أَوْ شَهِدَ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ.
Narrated Hadrami, the freed slave of the family of Al-Jarud: from Nafi: A man sneezed beside Ibn 'Umar and said: 'Al-Hamdulillah Was-Salamu 'Ala Rasulillah. (All praise is due to Allah, and peace upon the Messenger of Allah)'. So Ibn 'Umar said: 'I too say Al-Hamdulillah Was-Salamu 'Ala Rasulillah, but this is not what the Messenger of Allah (ﷺ) taught us. He taught us to say: Al-Hamdulillah 'Ala Kulli Hal (All praise is due to Allah in every circumstance)
ابن عمر رضی الله عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: کہنے کو تو میں بھی «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» کہہ سکتا ہوں ۱؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم «الحمد لله على كل حال» ہر حال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، کہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف زیاد بن ربیع کی روایت سے جانتے ہیں۔
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا حَضْرَمِيٌّ مَوْلَى آلِ الْجَارُودِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا، أَنْ نَقُولَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ الرَّبِيعِ.
Narrated Abu Musa: The Jews used to sneeze in the presence of the Prophet (ﷺ) hoping that he would say: 'Yarhamukumullah (May Allah have mercy upon you).' So he said: 'Yahdikumullahu Wa Yuslihu Balakum (May Allah guide you and rectify your affairs).'
یہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے تو یہ امید لگا کر چھینکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے «يرحمكم الله» ”اللہ تم پر رحم کرے“ کہیں گے۔ مگر آپ ( اس موقع پر صرف ) «يهديكم الله ويصلح بالكم» ”اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کر دے“ فرماتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوایوب، سالم بن عبید، عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ دَيْلَمَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: كَانَ الْيَهُودُ يَتَعَاطَسُونَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَرْجُونَ أَنْ يَقُولَ لَهُمْ: يَرْحَمُكُمُ اللَّهُ، فَيَقُولُ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَسَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
Narrated Salim bin 'Ubaid: that he was with some people on a journey, and a man among the people sneezed and he said: As-Salamu Alaikum (peace be upon you). So he (Salim) said: 'Alaika Wa 'Ala Ummik (upon you and upon your mother). It seemed as if that bothered the man, so he said: Indeed I have not said except what the Prophet (ﷺ) said; a man sneezed in the presence of the Prophet (ﷺ) and said: 'As-Salamu 'Alaikum (peace be upon you)' so the Prophet (ﷺ) said: ''Alaika Wa 'Ala Ummik (upon you and upon your mother). When one of you sneezes let him say: Al-Hamdulillahi Rabbil-'Alamin (All praise is due to the Lord of all that exists) and let the one responding to him say: Yarhamukallah (May Allah have mercy upon you) and let him reply: Yaghfirullah Li Walakum (May Allah forgive me and you both).
وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا: «السلام عليكم» ( اس کے جواب میں ) سالم رضی الله عنہ نے کہا: «عليك وعلى وأمك» ( سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر ) ، یہ بات اس شخص کو ناگوار معلوم ہوئی تو سالم نے کہا: بھئی میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «السلام عليكم» تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: «عليك وعلى أمك»، ( تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو ) ۔ ( آپ نے آگے فرمایا ) جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے «الحمدللہ رب العالمین» کہنا چاہیئے۔ اور جواب دینے والا «یرحمک اللہ» اور ( چھینکنے والا ) «يغفر الله لي ولكم» کہے، ( نہ کہ «السلام عليك» کہے ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ ایک ایسی حدیث ہے جس میں منصور سے روایت کرنے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، لوگوں نے ہلال بن یساف اور سالم کے درمیان ایک اور راوی کو داخل کیا ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ فِي سَفَرٍ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ: عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، فَكَأَنَّ الرَّجُلَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْ إِلَّا مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِهِ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَقَدْ أَدْخَلُوا بَيْنَ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ وَسَالِمٍ رَجُلًا.
Narrated Abu Ayyub: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: When one of you sneezes let him say: 'Al-Hamdulillahi 'Ala Kulli Hal (All praise is due to Allah in every circumstance).' And let the one replying to him say: Yarhamukallah (May Allah have mercy upon you).' And let him say to him: 'Yahdikumullah Wa Yuslihu Balakum (May Allah guide you and rectify your affairs).'
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی کو چھینک آئے تو «الحمد لله على كل حال» ( تمام تعریفیں ہر حال میں اللہ کے لیے ہیں ) کہے۔ اور جو اس کا جواب دے وہ «يرحمك الله» کہے، اور اس کے جواب میں چھینکنے والا کہے «يهديكم الله ويصلح بالكم» ( اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست فرما دے ) ۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَلْيَقُلِ الَّذِي يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ هُوَ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ،
Narrated Anas bin Malik: that two men sneezed in the presence of the Prophet (ﷺ); he responded to one of them and did not respond to the other. The one who was not responded to said: O Messenger of Allah! You responded to this person and did not respond to me?' So the Messenger of Allah (ﷺ) said: He praised Allah while you did not praise Him.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی، آپ نے ایک کی چھینک پر «يرحمك الله» کہہ کر دعا دی اور دوسرے کی چھینک کا آپ نے جواب نہیں دیا، تو جس کی چھینک کا آپ نے جواب نہ دیا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی چھینک پر «یرحمک اللہ» کہہ کر دعا دی اور میری چھینک پر آپ نے مجھے یہ دعا نہیں دی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ( چھینک آئی تو ) اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور ( تجھے چھینک آئی تو ) تم نے اس کی حمد نہ کی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلَيْنِ عَطَسَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا، وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ ، فَقَالَ الَّذِي لَمْ يُشَمِّتْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَإِنَّكَ لَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
Narrated Iyas bin Salamah: from his father: A man sneezed in the presence of the Messenger of Allah (ﷺ) while I was present, so the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Yarhamukallah (May Allah have mercy upon you).' Then he sneezed a second and third time. So the Messenger of Allah (ﷺ) said: This man is suffering from a cold.'
میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «يرحمك الله» ( اللہ تم پر رحم فرمائے ) پھر اسے دوبارہ چھینک آئی تو آپ نے فرمایا: ”اسے تو زکام ہو گیا ہے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا شَاهِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ ثُمَّ عَطَسَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا رَجُلٌ مَزْكُومٌ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
Narrated 'Umar bin Ishaq bin Abi Talhah: from his mother, from her father, who said: The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Reply three times to the sneezing person. If he (sneezes) more, then if you wish reply and if you do not then do not.'
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھینکنے والے کی چھینک کا جواب تین بار دیا جائے گا، اور اگر تین بار سے زیادہ چھینکیں آئیں تو تمہیں اختیار ہے جی چاہے تو جواب دو اور جی چاہے تو نہ دو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند مجہول ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ الْكُوفِيُّ، عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي خَالِدٍ الدَّالانِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ إِسْحَاق بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أَبِيهَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ ثَلَاثًا، فَإِنْ زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُهُ مَجْهُولٌ.
Narrated Abu Hurairah: that when the Prophet (ﷺ) would sneeze, he would cover his face with his hand or with his garment, and muffle the sound with it.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے، اور اپنی آواز کو دھیمی کرتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَطَسَ غَطَّى وَجْهَهُ بِيَدِهِ أَوْ بِثَوْبِهِ وَغَضَّ بِهَا صَوْتَهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
Narrated Abu Hurairah: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: The sneeze is from Allah and the yawn is from Ash-Shaitan. So when one of you yawns let him cover his mouth with his hand. For when he says 'Ah, Ah' Ash-Shaitan laughs from inside his opening. [And indeed Allah loves the sneeze and He dislikes the Yawn, so when a man says Ah, Ah when yawning, indeed Ash-Shaitan laughs from inside his opening. ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھینکنا اللہ کی جانب سے ہے اور جمائی شیطان کی جانب سے ہے۔ جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیئے کہ جمائی آتے وقت اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے، اور جب جمائی لینے والا آہ، آہ کرتا ہے تو شیطان جمائی لینے والے کے پیٹ میں گھس کر ہنستا ہے۔ اور بیشک اللہ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی لینے کو ناپسند کرتا ہے۔ تو ( جان لو ) کہ آدمی جب جمائی کے وقت آہ آہ کی آواز نکالتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیٹ کے اندر گھس کر ہنستا ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْعُطَاسُ مِنَ اللَّهِ، وَالتَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَضَعْ يَدَهُ عَلَى فِيهِ، وَإِذَا قَالَ: آهْ آهْ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ مِنْ جَوْفِهِ، وَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ: آهْ آهْ إِذَا تَثَاءَبَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ فِي جَوْفِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
Narrated Abu Hurairah: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Indeed Allah loves sneezing and He dislikes the yawn. So when one of you sneezes and says 'Al-Hamdulillah (All praise is due to Allah),' then it is a right due from every one who hears him to say: 'Yarhamukallah (May Allah have mercy upon you)' As for yawning then when one of you yawns let him suppress it as much as possible and not say: Hah Hah' for that is only from Ash-Shaitan laughing at him.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ «الحمد للہ» کہے تو ہر مسلمان کے لیے جو اسے سنے «یرحمک اللہ» کہنا ضروری ہے۔ اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے، اسے چاہیئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان اس سے ہنستا ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اور یہ ابن عجلان کی ( اوپر مذکور ) روایت سے زیادہ صحیح ہے، ۳- ابن ابی ذئب: سعید مقبری کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے ( احفظ ) اور محمد بن عجلان سے زیادہ قوی ( اثبت ) ہیں، ۴- میں نے ابوبکر عطار بصریٰ سے سنا ہے وہ روایت کرتے ہیں: علی بن مدینی کے واسطہ سے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: محمد بن عجلان کہتے ہیں: سعید مقبری کی احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ سعید نے بعض حدیثیں ( بلاواسطہ ) ابوہریرہ سے روایت کی ہیں۔ اور بعض حدیثیں بواسطہ ایک شخص کے ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہیں۔ تو وہ سب میرے ذہن میں گڈمڈ ہو گئیں۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ بلاواسطہ کون تھیں اور بواسطہ کون؟ تو میں نے سبھی روایتوں کو سعید کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کر دی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَحَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ سَمِعَهُ أَنْ يَقُولَ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ وَلَا يَقُولَنَّ: هَاهْ هَاهْ فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَجْلَانَ، وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ أَحْفَظُ لِحَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَأَثْبَتُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ: أَحَادِيثُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ رَوَى بَعْضَهَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى بَعْضُهَا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَاخْتَلَطَتْ عَلَيَّ، فَجَعَلْتُهَا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
Narrated Abu Yaqzan: from 'Adi - and he is Ibn Thabit - from his father, from his grandfather - [from the Prophet (ﷺ)]: Sneezing, dozing and yawning during Salat, and menstruation, regurgitation and nosebleeds are from Ash-Shaitan.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں چھینک، اونگھ، جمائی، حیض، قے اور نکسیر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف شریک کی روایت جانتے ہیں جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس روایت «عن عدی بن ثابت عن ابیہ عن جدہ» کے تعلق سے پوچھا کہ عدی کے دادا کا کیا نام ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا، لیکن یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کا نام دینار ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، رَفَعَهُ قَالَ: الْعُطَاسُ وَالنُّعَاسُ وَالتَّثَاؤُبُ فِي الصَّلَاةِ، وَالْحَيْضُ وَالْقَيْءُ وَالرُّعَافُ مِنَ الشَّيْطَانِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قُلْتُ لَهُ: مَا اسْمُ جَدِّ عَدِيٍّ ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي، وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ قَالَ: اسْمُهُ دِينَارٌ.
Narrated Ibn 'Umar: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Let one of you not have his brother stand from his seat then sit in it.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھ جائے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يُقِمْ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
Narrated Ibn 'Umar: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Let one of you not have his brother stand from his seat then sit in it.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس جگہ نہ بیٹھ جائے“۔ راوی سالم کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما کے احترام میں آدمی ان کے آنے پر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو جاتا تھا لیکن وہ ( اس ممانعت کی وجہ سے ) اس کی جگہ نہیں بیٹھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ اور پھر واپس آئے تو وہ اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ مستحق ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُقِمْ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ ، قَالَ: وَكَانَ الرَّجُلُ يَقُومُ لِابْنِ عُمَرَ فَلَا يَجْلِسُ فِيهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
Narrated Wahb bin Hudaifah: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: A man has more right to his seat. If he leaves for some need of his, then he returns, then he has more right to his seat.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ کا زیادہ مستحق ہے، اگر وہ کسی ضرورت سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آئے تو وہی اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتا ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوبکرہ، ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ حُذَيْفَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الرَّجُلُ أَحَقُّ بِمَجْلِسِهِ، وَإِنْ خَرَجَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ عَادَ فَهُوَ أَحَقُّ بِمَجْلِسِهِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
Narrated 'Abdullah bin 'Amr: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: It is not lawful for a man to separate two people except with their permission.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تفریق پیدا کرے مگر ان کی اجازت سے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو عامر احول نے عمرو بن شعیب سے بھی روایت کی ہے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَامِرٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَيْضًا.
Narrated Abu Miljaz: that a man sat in the middle of a circle so Hudhaifah said: Cursed upon the tongue of Muhammad - or - Cursed, by Allah upon the tongue of Muhammad (ﷺ), is he who sits in the middle of a the circle.
ایک آدمی حلقہ کے بیچ میں بیٹھ گیا، تو حذیفہ نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ شخص ملعون ہے جو بیٹھے ہوئے لوگوں کے حلقہ ( دائرہ ) کے بیچ میں جا کر بیٹھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابومجلز کا نام لاحق بن حمید ہے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، أَنَّ رَجُلًا قَعَدَ وَسْطَ حَلْقَةٍ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: مَلْعُونٌ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ، أَوْ لَعَنَ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَعَدَ وَسْطَ الْحَلْقَةِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مِجْلَزٍ اسْمُهُ لَاحِقُ بْنُ حُمَيْدٍ.
Narrated Anas: There was no person more beloved to them than the Messenger of Allah (ﷺ). [He said:] And they would not stand when they saw him because they knew that he disliked that.
کوئی شخص انہیں یعنی ( صحابہ ) کو رسول اللہ سے زیادہ محبوب نہ تھا کہتے ہیں: ( لیکن ) وہ لوگ آپ کو دیکھ کر ( ادباً ) کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
Narrated Abu Miljaz: that Mu'awiyah came out and 'Abdullah bin Az-Zubair and Ibn Safwan stood for him when they saw him, so he said: Sit, I heard the Messenger of Allah (ﷺ) saying: 'Whoever wishes that he be received by men standing then, let him take his seat in the Fire.'
معاویہ رضی الله عنہ باہر نکلے، عبداللہ بن زبیر اور ابن صفوان انہیں دیکھ کر ( احتراماً ) کھڑے ہو گئے۔ تو معاویہ رضی الله عنہ نے کہا تم دونوں بیٹھ جاؤ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔ ہم سے بیان کیا ہناد نے وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا ابواسامہ نے اور ابواسامہ نے حبیب بن شہید سے حبیب بن شہید نے ابومجلز سے ابومجلز نے معاویہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ صَفْوَانَ حِينَ رَأَوْهُ، فَقَالَ: اجْلِسَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
Narrated Abu Hurairah: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Five are from the Fitrah: Cutting the pubic hair, circumcision, paring the mustache, plucking the under arm hair and trimming the fingernails.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ۱؎، ( ۱ ) شرمگاہ کے بال مونڈنا، ( ۲ ) ختنہ کرنا، ( ۳ ) مونچھیں کترنا، ( ۴ ) بغل کے بال اکھیڑنا، ( ۵ ) ناخن تراشنا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَلْوَانِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: الِاسْتِحْدَادُ، وَالْخِتَانُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
Narrated 'Aishah: that the Prophet (ﷺ) said: Ten are from the Fitrah: Paring the mustache, leaving the beard to grow, Siwak, cleaning the nose with water, paring the fingernails, washing the knuckles, plucking the underarm hair, shaving the pubic hairs, and Intiqas with water.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس ۱؎ چیزیں فطرت سے ہیں ( ۱ ) مونچھیں کترنا ( ۲ ) ڈاڑھی بڑھانا ( ۳ ) مسواک کرنا ( ۴ ) ناک میں پانی ڈالنا ( ۵ ) ناخن کاٹنا ( ۶ ) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت دھونا ( ۶ ) بغل کے بال اکھیڑنا ( ۸ ) ناف سے نیچے کے بال مونڈنا ( ۹ ) پانی سے استنجاء کرنا، زکریا ( راوی ) کہتے ہیں کہ مصعب نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کلی کرنا ہو“، «انتقاص الماء» سے مراد پانی سے استنجاء کرنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عمار بن یاسر، ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَالِاسْتِنْشَاقُ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ، قَالَ زَكَرِيَّا، قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ ، قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: انْتِقَاصُ الْمَاءِ: الِاسْتِنْجَاءُ بِالْمَاءِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
Narrated Anas: from the Prophet (ﷺ), that he (ﷺ) fixed the time as every forty nights for them to trimming the fingernails, taking from the mustache, and shaving the pubic hairs.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لیے مدت متعین فرما دی ہے کہ ہر چالیس دن کے اندر ناخن کاٹ لیں۔ مونچھیں کتروا لیں۔ اور ناف سے نیچے کے بال مونڈ لیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى أَبُو مُحَمَّدٍ صَاحِبُ الدَّقِيقِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ وَقَّتَ لَهُمْ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً تَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ وَأَخْذَ الشَّارِبِ وَحَلْقَ الْعَانَةِ .
Narrated Anas bin Malik: [The Messenger of Allah (ﷺ)] fixed the time for us paring the mustache, trimming the fingernails, shaving the pubic hairs and plucking the underarm hairs - that we not leave it for more than forty days.
مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، زیر ناف کے بال لینے، اور بغل کے بال اکھاڑنے کا ہمارے لیے وقت مقرر فرما دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- صدقہ بن موسیٰ ( جو پہلی حدیث کی سند میں ) محدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، وَنَتْفِ الْإِبْطِ، أَنْ نَتْرَكُ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ، قَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَصَدَقَةُ بْنُ مُوسَى لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِالْحَافِظِ.
Narrated Ibn 'Abbas: The Prophet (ﷺ) would pare, or take from his mustache, and Ibrahim Khalilur-Rahman would do it (as well).
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُصُّ أَوْ يَأْخُذُ مِنْ شَارِبِهِ، وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ يَفْعَلُهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.