"Allah's Messenger (ﷺ) sent an army towards the east coast and appointed Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah رضی اللہ عنہ as their chief, and the army consisted of three-hundred men including myself. We marched on till we reached a place where our food was about to finish. Abu- 'Ubaida رضی اللہ عنہ ordered us to collect all the journey food and it was collected. My (our) journey food was dates. Abu 'Ubaida رضی اللہ عنہ kept on giving us our daily ration in small amounts from it, till it was exhausted. The share of everyone of us used to be one date only." I said, "How could one date benefit you?" Jabir رضی اللہ عنہ replied, "We came to know its value when even that too finished." Jabir رضی اللہ عنہ added, "When we reached the sea-shore, we saw a huge fish which was like a small mountain. The army ate from it for eighteen days. Then Abu 'Ubaida رضی اللہ عنہ ordered that two of its ribs be fixed and they were fixed in the ground. Then he ordered that a she-camel be ridden and it passed under the two ribs (forming an arch) without touching them."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( رجب 7ھ میں ) ساحل بحر کی طرف ایک لشکر بھیجا ۔ اور اس کاامیر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بنایا ۔ فوجیوں کی تعداد تین سو تھی اور میں بھی ان میں شریک تھا ۔ ہم نکلے اور ابھی راستے ہی میں تھے کہ توشہ ختم ہو گیا ۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ تمام فوجی اپنے توشے ( جو کچھ بھی باقی رہ گئے ہوں ) ایک جگہ جمع کر دیں ۔ سب کچھ جمع کرنے کے بعد کھجوروں کے کل دو تھیلے ہو سکے اور روزانہ ہمیں اسی میں سے تھوڑی تھوڑی کھجور کھانے کے لیے ملنے لگی ۔ جب اس کا بھی اکثر حصہ ختم ہو گیا تو ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی رہی ۔ میں ( وہب بن کیسان ) نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا بھلا ایک کھجور سے کیا ہوتا ہو گا ؟ انہوں نے بتلایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب وہ بھی ختم ہو گئی تھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ آخر ہم سمندر تک پہنچ گئے ۔ اتفاق سے سمندر میں ہمیں ایک ایسی مچھلی مل گئی جو ( اپنے جسم میں ) پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی تھی ۔ سارا لشکر اس مچھلی کو اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا ۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی دونوں پسلیوں کو کھڑا کرنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد اونٹوں کو ان کے تلے سے چلنے کا حکم دیا ۔ اور وہ ان پسلیوں کے نیچے سے ہو کر گزرے ، لیکن اونٹ نے ان کو چھوا تک نہیں ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْثًا قِبَلَ السَّاحِلِ، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ وَهُمْ ثَلاَثُمِائَةٍ وَأَنَا فِيهِمْ، فَخَرَجْنَا حَتَّى إِذَا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ فَنِيَ الزَّادُ، فَأَمَرَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِأَزْوَادِ ذَلِكَ الْجَيْشِ فَجُمِعَ ذَلِكَ كُلُّهُ فَكَانَ مِزْوَدَىْ تَمْرٍ، فَكَانَ يُقَوِّتُنَا كُلَّ يَوْمٍ قَلِيلاً قَلِيلاً، حَتَّى فَنِيَ فَلَمْ يَكُنْ يُصِيبُنَا إِلاَّ تَمْرَةٌ تَمْرَةٌ. فَقُلْتُ وَمَا تُغْنِي تَمْرَةٌ فَقَالَ لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَنِيَتْ. قَالَ ثُمَّ انْتَهَيْنَا إِلَى الْبَحْرِ فَإِذَا حُوتٌ مِثْلُ الظَّرِبِ، فَأَكَلَ مِنْهُ ذَلِكَ الْجَيْشُ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، ثُمَّ أَمَرَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِضِلَعَيْنِ مِنْ أَضْلاَعِهِ فَنُصِبَا، ثُمَّ أَمَرَ بِرَاحِلَةٍ فَرُحِلَتْ ثُمَّ مَرَّتْ تَحْتَهُمَا فَلَمْ تُصِبْهُمَا.
Once (on a journey) our provisions diminished and the people were reduced to poverty. They went to the Prophet (ﷺ) and asked his permission to slaughter their camels, and he agreed. `Umar رضی اللہ عنہ met them and they told him about it, and he said, "How would you survive after slaughtering your camels?" Then he went to the Prophet and said, "O Allah's Messenger (ﷺ)! How would they survive after slaughtering their camels?" Allah's Messenger (ﷺ) ordered `Umar, "Call upon the people to bring what has remained of their food." A leather sheet was spread and all the food was collected and heaped over it. Allah's Messenger (ﷺ) stood up and invoked Allah to bless it, and then directed all the people to come with their utensils, and they started taking from it till all of them got what was sufficient for them. Allah's Messenger (ﷺ) then said, "I testify that None has the right to be worshipped but Allah, and I am His Messenger."
( غزوہ ہوازن میں ) لوگوں کے توشے ختم ہو گئے اور فقر و محتاجی آ گئی ، تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اپنے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجازت لینے ( تاکہ انہیں کے گوشت سے پیٹ بھر سکیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی ۔ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ان سے ہو گئی تو انہیں بھی ان لوگوں نے اطلاع دی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اونٹوں کو کاٹ ڈالو گے تو پھر تم کیسے زندہ رہو گے ۔ چنانچہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا ، یا رسول اللہ ! اگر انہوں نے اونٹ بھی ذبح کر لیے تو پھر یہ لوگ کیسے زندہ رہیں گے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ، تمام لوگوں میں اعلان کر دو کہ ان کے پاس جو کچھ توشے بچ رہے ہیں وہ لے کر یہاں آ جائیں ۔ اس کے لیے ایک چمڑے کا دسترخوان بچھا دیا گیا ۔ اور لوگوں نے توشے اسی دسترخوان پر لا کررکھ دئیے ۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سب لوگوں کو اپنے اپنے برتنوں کے ساتھ بلایا اور سب نے دونوں ہاتھوں سے توشے اپنے برتنوں میں بھر لیے ۔ جب سب لوگ بھر چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں “ ۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ خَفَّتْ أَزْوَادُ الْقَوْمِ وَأَمْلَقُوا، فَأَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي نَحْرِ إِبِلِهِمْ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَلَقِيَهُمْ عُمَرُ فَأَخْبَرُوهُ فَقَالَ مَا بَقَاؤُكُمْ بَعْدَ إِبِلِكُمْ، فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَقَاؤُهُمْ بَعْدَ إِبِلِهِمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " نَادِ فِي النَّاسِ فَيَأْتُونَ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ ". فَبُسِطَ لِذَلِكَ نِطَعٌ، وَجَعَلُوهُ عَلَى النِّطَعِ. فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَدَعَا وَبَرَّكَ عَلَيْهِ ثُمَّ دَعَاهُمْ بِأَوْعِيَتِهِمْ فَاحْتَثَى النَّاسُ حَتَّى فَرَغُوا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ".
We used to offer the `Asr prayer with the Prophet (ﷺ) and slaughter a camel, the meat of which would be divided in ten parts. We would eat the cooked meat before sunset.
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹ ذبح کرتے تو انہیں دس حصوں میں تقسیم کرتے اور پھر سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہم اس کا پکا ہوا گوشت بھی کھا لیتے ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ، قَالَ سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم الْعَصْرَ فَنَنْحَرُ جَزُورًا، فَتُقْسَمُ عَشْرَ قِسَمٍ، فَنَأْكُلُ لَحْمًا نَضِيجًا قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ.
The Prophet (ﷺ) said, "When the people of Ash`ari tribe ran short of food during the holy battles, or the food of their families in Medina ran short, they would collect all their remaining food in one sheet and then distribute it among themselves equally by measuring it with a bowl. So, these people are from me, and I am from them."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہو جاتا یا مدینہ ( کے قیام ) میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہو جاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں ۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں ۔ پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ الأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ بَيْنَهُمْ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ ".
Abu Bakr As-Siddiq رضی اللہ عنہ wrote to him the law of Zakat which was made obligatory by Allah's Apostle. He wrote: 'Partners possessing joint property (sheep) have to pay its Zakat equally.
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے فرض زکوٰۃ کا بیان تحریر کیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی مال میں دو آدمی ساجھی ہوں تو وہ زکوٰۃ میں ایک دوسرے سے برابر برابر مجرا کر لیں ۔ ( یعنی رکوٰۃ کی رقم آپس میں برابر تقسیم کر لیں ) ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ، حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، أَنَّ أَنَسًا، حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ـ رضى الله عنه ـ كَتَبَ لَهُ فَرِيضَةَ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ ".
"We were in the company of the Prophet (ﷺ) at Dhul-Hulaifa. The people felt hungry and captured some camels and sheep (as booty). The Prophet (ﷺ) was behind the people. They hurried and slaughtered the animals and put their meat in pots and started cooking it. (When the Prophet came) he ordered the pots to be upset and then he distributed the animals (of the booty), regarding ten sheep as equal to one camel. One of the camels fled and the people ran after it till they were exhausted. At that time there were few horses. A man threw an arrow at the camel, and Allah stopped the camel with it. The Prophet (ﷺ) said, "Some of these animals are like wild animals, so if you lose control over one of these animals, treat it in this way (i.e. shoot it with an arrow)." Before distributing them among the soldiers my grandfather said, "We may meet the enemies in the future and have no knives; can we slaughter the animals with reeds?" The Prophet (ﷺ) said, "Use whatever causes blood to flow, and eat the animals if the name of Allah has been mentioned on slaughtering them. Do not slaughter with teeth or fingernails and I will tell you why: It is because teeth are bones (i.e. cannot cut properly) and fingernails are the tools used by the Ethiopians (whom we should not imitate for they are infidels).
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام ذوالحلیفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ لوگوں کو بھوک لگی ۔ ادھر ( غنیمت میں ) اونٹ اور بکریاں ملی تھیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے پیچھے کے لوگوں میں تھے ۔ لوگوں نے جلدی کی اور ( تقسیم سے پہلے ہی ) ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا دیں ۔ لیکن بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ ہانڈیاں اوندھا دی گئیں ۔ پھر آپ نے ان کو تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا ۔ ایک اونٹ اس میں سے بھاگ گیا تو لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگے ۔ لیکن اس نے سب کو تھکا دیا ۔ قوم کے پاس گھوڑے کم تھے ۔ ایک صحابی تیر لے کر اونٹ کی طرف جھپٹے ۔ اللہ نے اس کو ٹھہرا دیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح سرکشی ہوتی ہے ۔ اس لیے ان جانوروں میں سے بھی اگر کوئی تمہیں عاجز کر دے تو اس کے ساتھ تم ایسا ہی معاملہ کیا کرو ۔ پھر میرے دادا نے عرض کیا کہ کل دشمن کے حملہ کا خوف ہے ، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں ( تلواروں سے ذبح کریں تو ان کے خراب ہونے کا ڈر ہے جب کہ جنگ سامنے ہے ) کیا ہم بانس کے کھپچی سے ذبح کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو چیز بھی خون بہا دے اور ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو ، تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔ سوائے دانت اور ناخن کے ۔ اس کی وجہ میں تمہیں بتاتا ہوں ۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَأَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ فَأَصَابُوا إِبِلاً وَغَنَمًا. قَالَ وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي أُخْرَيَاتِ الْقَوْمِ فَعَجِلُوا وَذَبَحُوا وَنَصَبُوا الْقُدُورَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالْقُدُورِ فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَسَمَ فَعَدَلَ عَشْرَةً مِنَ الْغَنَمِ بِبَعِيرٍ فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ، فَطَلَبُوهُ فَأَعْيَاهُمْ، وَكَانَ فِي الْقَوْمِ خَيْلٌ يَسِيرَةٌ فَأَهْوَى رَجُلٌ مِنْهُمْ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ ثُمَّ قَالَ " إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا ". فَقَالَ جَدِّي إِنَّا نَرْجُو ـ أَوْ نَخَافُ ـ الْعَدُوَّ غَدًا، وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًى أَفَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ. قَالَ " مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَكُلُوهُ، لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ ".
The Prophet (ﷺ) decreed that one should not eat two dates together at a time unless he gets the permission from his companions (sharing the meal with him).
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کوئی شخص اپنے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر ( دسترخوان پر ) دو دو کھجور ایک ساتھ ملا کر کھائے ۔
حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ نَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَقْرُنَ الرَّجُلُ بَيْنَ التَّمْرَتَيْنِ جَمِيعًا، حَتَّى يَسْتَأْذِنَ أَصْحَابَهُ.
"While at Medina we were struck with famine. Ibn Az-Zubair used to provide us with dates as our food. Ibn `Umar رضی اللہ عنہما used to pass by us and say, "Don't eat two dates together at a time as the Prophet (ﷺ) has forbidden eating two dates together at a time (in a gathering) unless one takes the permission of one's companion brother."
ہمارا قیام مدینہ میں تھا اور ہم پر قحط کا دور دورہ ہوا ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہمیں کھجور کھانے کے لیے دیتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گزرتے ہوئے یہ کہہ کر جایا کرتے تھے کہ دو دو کھجور ایک ساتھ ملا کر نہ کھانا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دوسرے ساتھی کی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَبَلَةَ، قَالَ كُنَّا بِالْمَدِينَةِ فَأَصَابَتْنَا سَنَةٌ، فَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَرْزُقُنَا التَّمْرَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَمُرُّ بِنَا فَيَقُولُ لاَ تَقْرُنُوا فَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنِ الإِقْرَانِ، إِلاَّ أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ مِنْكُمْ أَخَاهُ.
"Allah's Messenger (ﷺ) said, 'If one manumits his share of a jointly possessed slave, and can afford the price of the other shares according to the adequate price of the slave, the slave will be completely manumitted; otherwise he will be partially manumitted.' " (Aiyub, a sub-narrator is not sure whether the saying " ... otherwise he will be partially manumitted" was said by Nafi` or the Prophet.)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مشترک ( ساجھے ) کے غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دے اور اس کے پاس سارے غلام کی قیمت کے موافق مال ہو تو وہ پورا آزاد ہو جائے گا ۔ اگر اتنا مال نہ ہو تو بس جتنا حصہ اس کا تھا اتنا ہی آزاد ہوا ۔ ایوب نے کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں کہ روایت کا یہ آخری حصہ ” غلام کا وہی حصہ آزاد ہو گا جو اس نے آزاد کیا ہے “ یہ نافع کا اپنا قول ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں داخل ہے ۔
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ أَعْتَقَ شِقْصًا لَهُ مِنْ عَبْدٍ ـ أَوْ شِرْكًا أَوْ قَالَ نَصِيبًا ـ وَكَانَ لَهُ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَهُ بِقِيمَةِ الْعَدْلِ، فَهْوَ عَتِيقٌ، وَإِلاَّ فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ ". قَالَ لاَ أَدْرِي قَوْلُهُ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ. قَوْلٌ مِنْ نَافِعٍ أَوْ فِي الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.
The Prophet (ﷺ) said, "Whoever manumits his share of a jointly possessed slave, it is imperative for him to get that slave manumitted completely by paying the remaining price, and if he does not have sufficient money to manumit him, then the price of the slave should be estimated justly, and he is to be allowed to work and earn the amount that will manumit him (without overburdening him)".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مال سے غلام کو پوری آزادی دلا دے ۔ لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو انصاف کے ساتھ غلام کی قیمت لگائی جائے ۔ پھر غلام سے کہا جائے کہ ( اپنی آزادی کی ) کوشش میں وہ باقی حصہ کی قیمت خود کما کر ادا کر لے ۔ لیکن غلام پر اس کے لیے کوئی دباو نہ ڈالا جائے ۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " مَنْ أَعْتَقَ شَقِيصًا مِنْ مَمْلُوكِهِ فَعَلَيْهِ خَلاَصُهُ فِي مَالِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ قُوِّمَ الْمَمْلُوكُ، قِيمَةَ عَدْلٍ ثُمَّ اسْتُسْعِيَ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ ".
The Prophet (ﷺ) said, "The example of the person abiding by Allah's order and restrictions in comparison to those who violate them is like the example of those persons who drew lots for their seats in a boat. Some of them got seats in the upper part, and the others in the lower. When the latter needed water, they had to go up to bring water (and that troubled the others), so they said, 'Let us make a hole in our share of the ship (and get water) saving those who are above us from troubling them. So, if the people in the upper part left the others do what they had suggested, all the people of the ship would be destroyed, but if they prevented them, both parties would be safe."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے ( یعنی خلاف کرنے والے ) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا ۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا ۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے ، انہیں ( دریا سے ) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا ۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں ۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑلیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی ۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلاَهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ فَقَالُوا لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا، وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا. فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِيعًا ".
He had asked `Aisha about the meaning of the Statement of Allah: "If you fear that you shall not Be able to deal justly With the orphan girls, then Marry (Other) women of your choice Two or three or four." (4.3) She said, "O my nephew! This is about the orphan girl who lives with her guardian and shares his property. Her wealth and beauty may tempt him to marry her without giving her an adequate Mahr (bridal-money) which might have been given by another suitor. So, such guardians were forbidden to marry such orphan girls unless they treated them justly and gave them the most suitable Mahr; otherwise they were ordered to marry any other woman." `Aisha further said, "After that verse the people again asked the Prophet (about the marriage with orphan 'girls), so Allah revealed the following verses:-- 'They ask your instruction Concerning the women. Say: Allah Instructs you about them And about what is Recited unto you In the Book, concerning The orphan girls to whom You give not the prescribed portions and yet whom you Desire to marry..." (4.127) What is meant by Allah's Saying:-- 'And about what is Recited unto you is the former verse which goes:-- 'If you fear that you shall not Be able to deal justly With the orphan girls, then Marry (other) women of your choice.' (4.3) `Aisha said, "Allah's saying in the other verse:--'Yet whom you desire to marry' (4.127) means the desire of the guardian to marry an orphan girl under his supervision when she has not much property or beauty (in which case he should treat her justly). The guardians were forbidden to marry their orphan girls possessing property and beauty without being just to them, as they generally refrain from marrying them (when they are neither beautiful nor wealthy).
انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ( سورۃ نساء میں ) اس آیت کے بارے میں پوچھا ” اگر تم کو یتیموں میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو جو عورتیں پسند آئیں دو دو تین تین چار چار نکاح میں لاؤ “ انہوں نے کہا میرے بھانجے یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی ( محافظ رشتہ دار جیسے چچیرا بھائی ، پھوپھی زاد یا ماموں زاد بھائی ) کی پرورش میں ہو اور ترکے کے مال میں اس کی ساجھی ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہو کر اس سے نکاح کر لینا چاہے لیکن پورا مہر انصاف سے جتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ نہ دے ، تو اسے اس سے منع کر دیا گیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے ۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کر سکیں اور ان کی حسب حیثیت بہتر سے بہتر طرز عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں ( تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے ) اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورت انہیں پسند ہو ان سے وہ نکاح کر سکتے ہیں ۔ عروہ بن زبیر نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا ، پھر لوگوں نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ( ایسی لڑکیوں سے نکاح کی اجازت کے بارے میں ) مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” اور آپ سے عورتوں کے بارے میں یہ لوگ سوال کرتے ہیں “ ۔ آگے فرمایا اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو ۔ یہ جو اس آیت میں ہے اور جو قرآن میں تم پر پڑھا جاتا ہے اس سے مراد پہلی آیت ہے یعنی ” اگر تم کو یتیموںمیں انصاف نہ ہوسکنے کا ڈر ہو تو دوسری عورتیں جو بھلی لگیں ان سے نکاح کر لو “ ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یہ جو اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو اس سے یہ غرض ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری پرورش میں ہو اور مال اور جمال کم رکھتی ہو اس سے تو تم نفرت کرتے ہو ، اس لیے جس یتیم لڑکی کے مال اور جمال میں تم کو رغبت ہو اس سے بھی نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں جب انصاف کے ساتھ ان کا پورا مہر ادا کرو ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَامِرِيُّ الأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَإِنْ خِفْتُمْ} إِلَى {وَرُبَاعَ}. فَقَالَتْ يَا ابْنَ أُخْتِي هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا تُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ، فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلاَّ أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ. قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ هَذِهِ الآيَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ {وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ} إِلَى قَوْلِهِ {وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ} وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ أَنَّهُ يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ الآيَةُ الأُولَى الَّتِي قَالَ فِيهَا {وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ} قَالَتْ عَائِشَةُ وَقَوْلُ اللَّهِ فِي الآيَةِ الأُخْرَى {وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ} يَعْنِي هِيَ رَغْبَةُ أَحَدِكُمْ لِيَتِيمَتِهِ الَّتِي تَكُونُ فِي حَجْرِهِ، حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ إِلاَّ بِالْقِسْطِ مِنْ، أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ.
The Prophet (ﷺ) established the right of Shu'fa (i.e. Preemption) in joint properties; but when the land is divided and the ways are demarcated, then there is no pre-emption.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حق ایسے اموال ( زمین جائیداد وغیرہ ) میں دیا تھا جن کی تقسیم نہ ہوئی ہو ۔ لیکن جب اس کی حد بندی ہو جائے اور راستے بھی بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ کا کوئی حق باقی نہیں رہے گا ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلاَ شُفْعَةَ.
The Prophet (ﷺ) said, "The right of preemption is valid in every joint property, but when the land is divided and the way is demarcated, then there is no right of pre-emption."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جائیداد میں شفعہ کا حق دیا تھا جس کی شرکاء میں ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو ۔ لیکن اگر حد بندی ہو جائے اور راستے الگ ہو جائیں تو پھر شفعہ کا حق باقی نہیں ر ہتا ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَضَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلاَ شُفْعَةَ.
I asked Abu Minhal about money exchange from hand to hand. He said, "I and a partner of mine bought something partly in cash and partly on credit." Al-Bara' bin `Azib passed by us and we asked about it. He replied, "I and my partner Zaid bin Al-Arqam رضی اللہ عنہ did the same and then went to the Prophet (ﷺ) and asked him about it. He said, 'Take what was from hand to hand and leave what was on credit.' "
میں نے ابوالمنہال سے بیع صرف نقد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے ایک شریک نے کوئی چیز ( سونے اور چاندی کی ) خریدی نقد پر بھی اور ادھار پر بھی ۔ پھر ہمارے یہاں براء بن عازب رضی اللہ عنہ آئے تو ہم نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے شریک زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی یہ بیع کی تھی اور ہم نے اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو نقد ہو وہ لے لو اور جو ادھار ہو اسے چھوڑ دو ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الأَسْوَدِ، قَالَ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْمِنْهَالِ عَنِ الصَّرْفِ، يَدًا بِيَدٍ فَقَالَ اشْتَرَيْتُ أَنَا وَشَرِيكٌ، لِي شَيْئًا يَدًا بِيَدٍ وَنَسِيئَةً، فَجَاءَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ فَعَلْتُ أَنَا وَشَرِيكِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، وَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ " مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَخُذُوهُ، وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَذَرُوهُ ".
Allah's Messenger (ﷺ) rented the land of Khaibar to the Jews on the condition that they would work on it and cultivate it and take half of its yield.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر دے دی تھی کہ وہ اس میں محنت کریں اور بوئیں جوتیں ۔ پیداوار کا آدھا حصہ انہیں ملا کرے گا ۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَيْبَرَ الْيَهُودَ أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا وَلَهُمْ شَطْرُ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا.
Allah's Messenger (ﷺ) gave him some sheep to distribute among his companions in order to sacrifice them and a kid was left. He told the Prophet (ﷺ) about it and the Prophet (ﷺ) said to him, "Sacrifice it on your behalf."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دی تھیں کہ قربانی کے لیے ان کو صحابہ میں تقسیم کر دیں ۔ پھر ایک سال کا بکری کا بچہ بچ گیا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ سے فرمایا تو اس کی قربانی کر لے ۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ ضَحَايَا، فَبَقِيَ عَتُودٌ فَذَكَرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " ضَحِّ بِهِ أَنْتَ ".
His mother Zainab bint Humaid took him to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Messenger (ﷺ)! Take the pledge of allegiance from him." But he said, "He is still too young for the pledge," and passed his hand on his (i.e. `Abdullah's) head and invoked for Allah's blessing for him. Zuhra bin Ma`bad stated that he used to go with his grandfather, `Abdullah bin Hisham رضی اللہ عنہ , to the market to buy foodstuff. Ibn `Umar and Ibn Az-Zubair رضی اللہ عنہم would meet him and say to him, "Be our partner, as the Prophet (ﷺ) invoked Allah to bless you." So, he would be their partner, and very often he would win a camel's load and send it home.
ان کی والدہ زینب بنت حمید رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس سے بیعت لے لیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ابھی بچہ ہے ۔ پھر آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا کی اور زہرہ بن معبد سے روایت ہے کہ ان کے داد عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ انہیں اپنے ساتھ بازار لے جاتے ۔ وہاں وہ غلہ خریدتے ۔ پھر عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ان سے ملتے تو وہ کہتے کہ ہمیں بھی اس اناج میں شریک کر لو ۔ کیونکہ آپ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا کی ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن ہشام انہیں بھی شریک کر لیتے اور کبھی پورا ایک اونٹ ( مع غلہ ) نفع میں پیدا کر لیتے اور اس کو گھر بھیج دیتے ۔
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدٌ، عَنْ زُهْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ ـ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ـ وَذَهَبَتْ بِهِ أُمُّهُ زَيْنَبُ بِنْتُ حُمَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَايِعْهُ. فَقَالَ " هُوَ صَغِيرٌ ". فَمَسَحَ رَأْسَهُ وَدَعَا لَهُ. وَعَنْ زُهْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ، أَنَّهُ كَانَ يَخْرُجُ بِهِ جَدُّهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِشَامٍ إِلَى السُّوقِ فَيَشْتَرِي الطَّعَامَ فَيَلْقَاهُ ابْنُ عُمَرَ وَابْنُ الزُّبَيْرِ ـ رضى الله عنهم ـ فَيَقُولاَنِ لَهُ أَشْرِكْنَا، فَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَدْ دَعَا لَكَ بِالْبَرَكَةِ فَيَشْرَكُهُمْ، فَرُبَّمَا أَصَابَ الرَّاحِلَةَ كَمَا هِيَ، فَيَبْعَثُ بِهَا إِلَى الْمَنْزِلِ.
The Prophet (ﷺ) said, "Whoever manumits his share o a jointly possessed slave, it is imperative on him to manumit the slave completely if he has sufficient money to pay the rest of its price which is to be estimated justly. He should pay his partners their shares and release him (the freed one).
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی ساجھے کے غلام کا اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر غلام کی انصاف کے موافق قیمت کے برابر اس کے پاس مال ہو تو وہ سارا غلام آزاد کرا دے ۔ اس طرح دوسرے ساجھیوں کو ان کے حصے کی قیمت ادا کر دی جائے اور اس آزاد کیے ہوئے غلام کا پیچھا چھوڑ دیا جائے ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ وَجَبَ عَلَيْهِ أَنْ يُعْتِقَ كُلَّهُ، إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ قَدْرَ ثَمَنِهِ يُقَامُ قِيمَةَ عَدْلٍ وَيُعْطَى شُرَكَاؤُهُ حِصَّتَهُمْ وَيُخَلَّى سَبِيلُ الْمُعْتَقِ ".
The Prophet (ﷺ) said, "Whoever manumits his share of a jointly possessed slave, it is essential for him to manumit the slave completely if he has sufficient money. Otherwise he should look for some work for the slave (to earn what would enable him to emancipate himself), without overburdening him with work."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی ( ساجھے کے ) غلام کا اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اگر اس کے پاس مال ہے تو پورا غلام آزاد ہو جائے گا ۔ ورنہ باقی حصوں کو آزاد کرانے کے لیے اس سے محنت مزدوری کرائی جائے ۔ لیکن اس سلسلے میں اس پر کوئی دباو نہ ڈالا جائے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " مَنْ أَعْتَقَ شِقْصًا لَهُ فِي عَبْدٍ، أُعْتِقَ كُلُّهُ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ، وَإِلاَّ يُسْتَسْعَ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ ".
The Prophet (along with his companions) reached Mecca in the morning of the fourth of Dhul-Hijja assuming Ihram for Hajj only. So when we arrived at Mecca, the Prophet (ﷺ) ordered us to change our intentions of the Ihram for `Umra and that we could finish our Ihram after performing the `Umra and could go to our wives (for sexual intercourse). The people began talking about that. Jabir said surprisingly, "Shall we go to Mina while semen is dribbling from our male organs?" Jabir moved his hand while saying so. When this news reached the Prophet (ﷺ) he delivered a sermon and said, "I have been informed that some peoples were saying so and so; By Allah I fear Allah more than you do, and am more obedient to Him than you. If I had known what I know now, I would not have brought the Hadi (sacrifice) with me and had the Hadi not been with me, I would have finished the Ihram." At that Suraqa bin Malik stood up and asked "O Allah's Messenger (ﷺ)! Is this permission for us only or is it forever?" The Prophet (ﷺ) replied, "It is forever." In the meantime `Ali bin Abu Talib came from Yemen and was saying Labbaik for what the Prophet (ﷺ) has intended. (According to another man, `Ali was saying Labbaik for Hajj similar to Allah's Messenger (ﷺ)'s). The Prophet (ﷺ) told him to keep on the Ihram and let him share the Hadi with him.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے جس کے ساتھ کوئی اور چیز ( عمرہ ) نہ ملاتے ہوئے ( مکہ میں ) داخل ہوئے ۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ کے حکم سے ہم نے اپنے حج کو عمرہ کر ڈالا ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ( عمرہ کے افعال ادا کرنے کے بعد حج کے احرام تک ) ہماری بیویاں ہمارے لیے حلال رہیں گی ۔ اس پر لوگوں میں چرچا ہونے لگا ۔ عطاء نے بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کچھ لوگ کہنے لگے کیا ہم میں سے کوئی منیٰ اس طرح جائے کہ منی اس کے ذکر سے ٹپک رہی ہو ۔ جابر نے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا ۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ نیک اور اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے ہی معلوم ہوتی جو اب معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام کھول دیتا ۔ اس پرسراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ حکم ( حج کے ایام میں عمرہ ) خاص ہمارے ہی لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( یمن سے ) آئے ۔ اب عطاء اور طاؤس میں سے ایک تو یوں کہتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے احرام کے وقت یوں کہا تھا ۔ لبیک بما اہل بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرا یوں کہتا ہے کہ انہوں نے لبیک بحجۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں ( جیسا بھی انہوں نے باندھا ہے ) اور انہیں اپنی قربانی میں شریک کر لیا ۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ.وَعَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهم ـ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم صُبْحَ رَابِعَةٍ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، لاَ يَخْلِطُهُمْ شَىْءٌ، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَمَرَنَا فَجَعَلْنَاهَا عُمْرَةً، وَأَنْ نَحِلَّ إِلَى نِسَائِنَا، فَفَشَتْ فِي ذَلِكَ الْقَالَةُ. قَالَ عَطَاءٌ فَقَالَ جَابِرٌ فَيَرُوحُ أَحَدُنَا إِلَى مِنًى وَذَكَرُهُ يَقْطُرُ مَنِيًّا. فَقَالَ جَابِرٌ بِكَفِّهِ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَامَ خَطِيبًا فَقَالَ " بَلَغَنِي أَنَّ أَقْوَامًا يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا، وَاللَّهِ لأَنَا أَبَرُّ وَأَتْقَى لِلَّهِ مِنْهُمْ، وَلَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ، وَلَوْلاَ أَنَّ مَعِي الْهَدْىَ لأَحْلَلْتُ ". فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هِيَ لَنَا أَوْ لِلأَبَدِ فَقَالَ " لاَ بَلْ لِلأَبَدِ ". قَالَ وَجَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ـ فَقَالَ أَحَدُهُمَا يَقُولُ لَبَّيْكَ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. وَقَالَ وَقَالَ الآخَرُ لَبَّيْكَ بِحَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُقِيمَ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَأَشْرَكَهُ فِي الْهَدْىِ.
"We were in the valley of Dhul-Hulaifa of Tuhama in the company of the Prophet (ﷺ) and had some camels and sheep (of the booty). The people hurried (in slaughtering the animals) and put their meat in the pots and started cooking. Allah's Messenger (ﷺ) came and ordered them to upset the pots, and distributed the booty considering one camel as equal to ten sheep. One of the camels fled and the people had only a few horses, so they got worried. (The camel was chased and) a man slopped the camel by throwing an arrow at it. Allah's Messenger (ﷺ) said, 'Some of these animals are untamed like wild animals, so if anyone of them went out of your control, then you should treat it as you have done now.' " My grandfather said, "O Allah's Messenger (ﷺ)! We fear that we may meet our enemy tomorrow and we have no knives, could we slaughter the animals with reeds?" The Prophet (ﷺ) said, "Yes, or you can use what would make blood flow (slaughter) and you can eat what is slaughtered and the Name of Allah is mentioned at the time of slaughtering. But don't use teeth or fingernails (in slaughtering). I will tell you why, as for teeth, they are bones, and fingernails are used by Ethiopians for slaughtering. (See Hadith 668)
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہامہ کے مقام ذوالحلیفہ میں تھے ( غنیمت میں ) ہمیں بکریاں اور اونٹ ملے تھے ۔ بعض لوگوں نے جلدی کی اور ( جانور ذبح کر کے ) گوشت کو ہانڈیوں میں چڑھا دیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ آپ کے حکم سے گوشت کی ہانڈیوں کو الٹ دیا گیا ۔ پھر ( آپ نے تقسیم میں ) دس بکریوں کا ایک اونٹ کے برابر حصہ رکھا ۔ ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا ۔ قوم کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی ۔ ایک شخص نے اونٹ کو تیرمار کر روک لیا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگی جانوروںکی طرح وحشت ہوتی ہے ۔ اس لیے جب تک ان کو نہ پکڑسکو تو تم ان کے ساتھ ہی ایسا سلوک کیا کرو ۔ عبایہ نے بیان کیا کہ میرے دادا نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ہمیں امید ہے یا خطرہ ہے کہ کہیں کل دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہو جائے اور چھری ہمارے ساتھ نہیں ہے ۔ کیا دھار دار لکڑی سے ہم ذبح کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، لیکن ذبح کرنے میں جلدی کرو ۔ جو چیز خون بہادے ( اسی سے کاٹ ڈالو ) اگر اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اس کو کھاؤ اورناخن اور دانت سے ذبح نہ کرو ۔ اس کی وجہ میں بتلاتا ہوں دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ جَدِّهِ، رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِذِي الْحُلَيْفَةِ مِنْ تِهَامَةَ، فَأَصَبْنَا غَنَمًا وَإِبِلاً، فَعَجِلَ الْقَوْمُ، فَأَغْلَوْا بِهَا الْقُدُورَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ عَدَلَ عَشْرًا مِنَ الْغَنَمِ بِجَزُورٍ، ثُمَّ إِنَّ بَعِيرًا نَدَّ وَلَيْسَ فِي الْقَوْمِ إِلاَّ خَيْلٌ يَسِيرَةٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ فَحَبَسَهُ بِسَهْمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا ". قَالَ قَالَ جَدِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرْجُو ـ أَوْ نَخَافُ ـ أَنْ نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى، فَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ فَقَالَ " اعْجَلْ أَوْ أَرْنِي، مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلُوا، لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ ".