About the story of `Aisha and their narrations were similar attesting each other, when the liars said what they invented about `Aisha, and the Divine Inspiration was delayed, Allah's Messenger (ﷺ) sent for `Ali and Usama to consult them in divorcing his wife (i.e. `Aisha). Usama said, "Keep your wife, as we know nothing about her except good." Buraira said, "I cannot accuse her of any defect except that she is still a young girl who sleeps, neglecting her family's dough which the domestic goats come to eat (i.e. she was too simpleminded to deceive her husband)." Allah's Messenger (ﷺ) said, "Who can help me to take revenge over the man who has harmed me by defaming the reputation of my family? By Allah, I have not known about my family-anything except good, and they mentioned (i.e. accused) a man about whom I did not know anything except good."
جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما کو اپنی بیوی ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو اپنے سے جدا کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا ، کیونکہ آپ پر اب تک ( اس سلسلے میں ) وحی نہیں آئی تھی ۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا کہ آپ کی زوجہ مطہرہ ( عائشہ رضی اللہ عنہا ) میں ہم سوائے خیر کے اور کچھ نہیں جانتے ۔ اور بریرہ رضی اللہ عنہا ( ان کی خادمہ ) نے کہا کہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتی جس سے ان پر عیب لگایا جا سکے ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نوعمر لڑکی ہیں کہ آٹا گوندھتی اور پھر جا کے سو رہتی ہے اور بکری آ کر اسے کھا لیتی ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( تہمت کے جھوٹ ثابت ہونے کے بعد ) فرمایا کہ ایسے شخص کی طرف سے کون عذر خواہی کرے گا جو میری بیوی کے بارے میں بھی مجھے اذیت پہنچاتا ہے ۔ قسم اللہ کی ! میں نے اپنے گھر میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا اور لوگ ایسے شخص کا نام لیتے ہیں جس کے متعلق بھی مجھے خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ،. وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ، عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا، حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلِيًّا وَأُسَامَةَ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْىُ يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، فَأَمَّا أُسَامَةُ فَقَالَ أَهْلُكَ وَلاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَيْرًا. وَقَالَتْ بَرِيرَةُ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ يَعْذِرُنَا مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْ أَهْلِي إِلاَّ خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلاً مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا ".
Allah's Messenger (ﷺ) and Ubai bin Ka`b Al-Ansari رضی اللہ عنہ went to the garden where Ibn Saiyad used to live. When Allah's Messenger (ﷺ) entered (the garden), he (i.e. Allah's Messenger (ﷺ) ) started hiding himself behind the date108 palms as he wanted to hear secretly the talk of Ibn Saiyad before the latter saw him. Ibn Saiyad wrapped with a soft decorated sheet was lying on his bed murmuring. Ibn Saiyad's mother saw the Prophet hiding behind the stems of the date-palms. She addressed Ibn Saiyad saying, "O Saf, this is Muhammad." Hearing that Ibn Saiyad stopped murmuring (or got cautious), the Prophet (ﷺ) said, "If she had left him undisturbed, he would have revealed his reality." (See Hadith No. 290, Vol 4 for details)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر کھجور کے اس باغ کی طرف تشریف لے گئے جس میں ابن صیاد تھا ۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے تو آپ درختوں کی آڑ میں چھپ کر چلنے لگے ۔ آپ چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھنے نہ پائے اور اس سے پہلے آپ اس کی باتیں سن سکیں ۔ ابن صیاد ایک روئیں دار چادر میں زمین پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا ۔ ابن صیاد کی ماں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درخت کی آڑ لیے چلے آ رہے ہیں تو وہ کہنے لگی اے صاف ! یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آ رہے ہیں ۔ ابن صیاد ہوشیار ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر اسے اپنے حال پر رہنے دیتی تو بات ظاہر ہو جاتی ۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ سَالِمٌ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ الأَنْصَارِيُّ يَؤُمَّانِ النَّخْلَ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ حَتَّى إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، وَهْوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنِ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ، وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْرَمَةٌ ـ أَوْ زَمْزَمَةٌ ـ فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لاِبْنِ صَيَّادِ أَىْ صَافِ، هَذَا مُحَمَّدٌ. فَتَنَاهَى ابْنُ صَيَّادٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ ".
The wife of Rifa`a Al-Qurazi came to the Prophet (ﷺ) and said, "I was Rifa`a's wife, but he divorced me and it was a final irrevocable divorce. Then I married `Abdur-Rahman bin Az-Zubair but he is impotent." The Prophet (ﷺ) asked her 'Do you want to remarry Rifa`a? You cannot unless you had a complete sexual relation with your present husband." Abu Bakr رضی اللہ عنہ was sitting with Allah's Messenger (ﷺ) and Khalid bin Sa`id bin Al-`As was at the door waiting to be admitted. He said, "O Abu Bakr! Do you hear what this (woman) is revealing frankly before the Prophet (ﷺ) ?"
رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی ۔ پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی ۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی ۔ لیکن ان کے پاس تو ( شرمگاہ ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کر سکتی جب تک تو عبدالرحمٰن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں ۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ دروازے پر اپنے لیے ( اندر آنے کی ) اجازت کا انتظار کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا ، ابوبکر ! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي فَأَبَتَّ طَلاَقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ. فَقَالَ " أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لاَ حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ ". وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلاَ تَسْمَعُ إِلَى هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.
`Uqba رضی اللہ عنہ married the daughter of Abu Ihab bin `Aziz, and then a woman came and said, "I suckled `Uqba رضی اللہ عنہ and his wife." `Uqba رضی اللہ عنہ said to her, "I do not know that you have suckled me, and you did not inform me." He then sent someone to the house of Abu Ihab to inquire about that but they did not know that she had suckled their daughter. Then `Uqba رضی اللہ عنہ went to the Prophet (ﷺ) in Medina and asked him about it. The Prophet (ﷺ) said to him, "How (can you keep your wife) after it has been said (that both of you were suckled by the same woman)?" So, he divorced her and she was married to another (husband).
انہوں نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے شادی کی تھی ۔ ایک خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ عقبہ کو بھی میں نے دودھ پلایا ہے اور اسے بھی جس سے اس نے شادی کی ہے ۔ عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ آپ نے مجھے دودھ پلایا ہے اور آپ نے مجھے پہلے اس سلسلے میں کچھ بتایا بھی نہیں تھا ۔ پھر انہوں نے آل ابواہاب کے یہاں آدمی بھیجا کہ ان سے اس کے متعلق پوچھے ۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے دودھ پلایا ہے ۔ عقبہ رضی اللہ عنہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور آپ سے مسئلہ پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اب کیا ہو سکتا ہے جب کہ کہا جا چکا ۔ چنانچہ آپ نے دونوں میں جدائی کرا دی اور اس کا نکاح دوسرے شخص سے کرا دیا ۔
حَدَّثَنَا حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ. فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلاَ أَخْبَرْتِنِي. فَأَرْسَلَ إِلَى آلِ أَبِي إِهَابٍ يَسْأَلُهُمْ فَقَالُوا مَا عَلِمْنَا أَرْضَعَتْ صَاحِبَتَنَا. فَرَكِبَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِالْمَدِينَةِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ ". فَفَارَقَهَا، وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ.
People were (sometimes) judged by the revealing of a Divine Inspiration during the lifetime of Allah's Apostle but now there is no longer any more (new revelation). Now we judge you by the deeds you practice publicly, so we will trust and favor the one who does good deeds in front of us, and we will not call him to account about what he is really doing in secret, for Allah will judge him for that; but we will not trust or believe the one who presents to us with an evil deed even if he claims that his intentions were good.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا ۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور ہم صرف انہیں امور میں مواخذہ کریں گے جو تمہارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے ۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا ، ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے ۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا ۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے ۔
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ إِنَّ أُنَاسًا كَانُوا يُؤْخَذُونَ بِالْوَحْىِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَإِنَّ الْوَحْىَ قَدِ انْقَطَعَ، وَإِنَّمَا نَأْخُذُكُمُ الآنَ بِمَا ظَهَرَ لَنَا مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا خَيْرًا أَمِنَّاهُ وَقَرَّبْنَاهُ، وَلَيْسَ إِلَيْنَا مِنْ سَرِيرَتِهِ شَىْءٌ، اللَّهُ يُحَاسِبُهُ فِي سَرِيرَتِهِ، وَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا سُوءًا لَمْ نَأْمَنْهُ وَلَمْ نُصَدِّقْهُ، وَإِنْ قَالَ إِنَّ سَرِيرَتَهُ حَسَنَةٌ.
A funeral procession passed in front of the Prophet (ﷺ) and the people praised the deceased. The Prophet (ﷺ) said, "It has been affirmed (Paradise)." Then another funeral procession passed by and the people talked badly of the deceased. The Prophet (ﷺ) said, "It has been affirmed (Hell)." Allah's Messenger (ﷺ) was asked, "O Allah's Messenger (ﷺ)! You said it has been affirmed for both?" The Prophet (ﷺ) said, "The testimony of the people (is accepted), (for) the believer are Allah's witnesses on the earth."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کی تعریف کی ، آپ نے فرمایا کہ واجب ہو گئی ، پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی ، یا اس کے سوا اور الفاظ ( اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ) کہے ( راوی کو شبہ ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی فرمایا کہ واجب ہو گئی ۔ عرض کیا گیا ، یا رسول اللہ ! آپ نے اس جنازہ کے متعلق بھی فرمایا کہ واجب ہو گئی اور پہلے جنازہ پر بھی یہی فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان والی قوم کی گواہی ( بارگاہ الٰہی میں مقبول ہے ) یہ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں ۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِجَنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ " وَجَبَتْ ". ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا ـ أَوْ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ ـ فَقَالَ " وَجَبَتْ ". فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ لِهَذَا وَجَبَتْ، وَلِهَذَا وَجَبَتْ، قَالَ " شَهَادَةُ الْقَوْمِ، الْمُؤْمِنُونَ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الأَرْضِ ".
Once I went to Medina where there was an outbreak of disease and the people were dying rapidly. I was sitting with `Umar رضی اللہ عنہ and a funeral procession passed by. The people praised the deceased. `Umar رضی اللہ عنہ said, "It has been affirmed" (Paradise). Then another funeral procession passed by. The people praised the deceased. `Umar رضی اللہ عنہ said, "It has been affirmed." (Paradise). Then another funeral procession passed by. The people praised the deceased. `Umar رضی اللہ عنہ said, "It has been affirmed (Paradise)." Then a third funeral procession passed by and the people talked badly of the deceased. `Umar رضی اللہ عنہ said, "It has been affirmed (Hell)." I asked `Umar رضی اللہ عنہ , "O chief of the believers! What has been affirmed?" He said, "I have said what the Prophet (ﷺ) said. He said, 'Allah will admit into paradise any Muslim whose good character is attested by four persons.' We asked the Prophet, 'If there were three witnesses only?' He said, 'Even three.' We asked, 'If there were two only?' He said, 'Even two.' But we did not ask him about one witness."
میں مدینہ آیا تو یہاں وبا پھیلی ہوئی تھی ، لوگ بڑی تیزی سے مر رہے تھے ۔ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ گزرا ۔ لوگوں نے اس میت کی تعریف کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واجب ہو گئی ۔ پھر دوسرا گزار لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی حضرت عمر نے کہا واجب ہو گئی ۔ پھر تیسرا گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی ، حضرت عمر نے اس کے لیے یہی کہا کہ واجب ہو گئی ۔ میں نے پوچھا امیرالمؤمنین ! کیا واجب ہو گئی ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسی طرح کہا ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھائی کی گواہی دے دیں اسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرتا ہے ۔ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور اگر تین دیں ؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی ۔ ہم نے پوچھا اور اگر دو آدمی گواہی دیں ؟ فرمایا دو پر بھی ۔ پھر ہم نے ایک کے متعلق آپ سے نہیں پوچھا ۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ، قَالَ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ، وَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ فَمَرَّتْ جِنَازَةٌ فَأُثْنِيَ خَيْرٌ فَقَالَ عُمَرُ وَجَبَتْ. ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ. ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ شَرًّا، فَقَالَ وَجَبَتْ. فَقُلْتُ مَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ ". قُلْنَا وَثَلاَثَةٌ قَالَ " وَثَلاَثَةٌ ". قُلْتُ وَاثْنَانِ قَالَ " وَاثْنَانِ ". ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ.
Aflah رضی اللہ عنہ asked the permission to visit me but I did not allow him. He said, "Do you veil yourself before me although I am your uncle?" `Aisha رضی اللہ عنہا said, "How is that?" Aflah replied, "You were suckled by my brother's wife with my brother's milk." I asked Allah's Messenger (ﷺ) about it, and he said, "Aflah is right, so permit him to visit you."
( پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ) افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ( گھر میں آنے کی ) اجازت چاہی تو میں نے ان کو اجازت نہیں دی ۔ وہ بولے کہ آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں حالانکہ میں آپ کا ( دودھ ) کا چچا ہوں ۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میرے بھائی ( وائل ) کی عورت نے آپ کو میرے بھائی کا ہی دودھ پلایا تھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افلح نے سچ کہا ہے ۔ انہیں ( اندر آنے کی ) اجازت دے دیا کرو ( ان سے پردہ نہیں ہے ) ۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتِ اسْتَأْذَنَ عَلَىَّ أَفْلَحُ فَلَمْ آذَنْ لَهُ، فَقَالَ أَتَحْتَجِبِينَ مِنِّي وَأَنَا عَمُّكِ فَقُلْتُ وَكَيْفَ ذَلِكَ قَالَ أَرْضَعَتْكِ امْرَأَةُ أَخِي بِلَبَنِ أَخِي. فَقَالَتْ سَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " صَدَقَ أَفْلَحُ، ائْذَنِي لَهُ ".
The Prophet (ﷺ) said about Hamza's daughter, "I am not legally permitted to marry her, as foster relations are treated like blood relations (in marital affairs). She is the daughter of my foster brother."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کے متعلق فرمایا کہ یہ میرے لیے حلال نہیں ہو سکتیں ، جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہو جاتے ہیں ، وہی دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں ۔ یہ تو میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہیں ۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي بِنْتِ حَمْزَةَ " لاَ تَحِلُّ لِي، يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ، هِيَ بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ ".
While the Prophet (ﷺ) was in her house, she heard a man asking Hafsa's permission to enter her house. `Aisha رضی اللہ عنہا said, "I said, 'O Allah's Messenger (ﷺ)! I think the man is Hafsa's foster uncle.' " `Aisha رضی اللہ عنہا added, "O Allah's Messenger (ﷺ)! There is a man asking the permission to enter your house." Allah's Messenger (ﷺ) replied, "I think the man is Hafsa's foster uncle." `Aisha رضی اللہ عنہا said, "If so-and-so were living (i.e. her foster uncle) would he be allowed to visit me?" Allah's Apostle said, "Yes, he would, as the foster relations are treated like blood relations (in marital affairs).
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف فرما تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک صحابی کی آواز سنی جو ( ام المؤمنین ) حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آنے کی اجازت چاہتا تھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے کہا ، یا رسول اللہ ! میرا خیال ہے یہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! یہ صحابی آپ کے گھر میں ( جس میں حفصہ رضی اللہ عنہا رہتی ہیں ) آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا ، میرا خیال ہے یہ فلاں صاحب ، حفصہ کے رضاعی چچا ہیں ۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے ایک رضاعی چچا کے متعلق پوچھا کہ اگر فلاں زندہ ہوتے تو کیا وہ بے حجاب میرے پاس آ سکتے تھے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ! دودھ سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَخْبَرَتْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ عِنْدَهَا، وَأَنَّهَا سَمِعَتْ صَوْتَ رَجُلٍ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ. قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُرَاهُ فُلاَنًا. لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ. قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أُرَاهُ فُلاَنًا ". لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ لَوْ كَانَ فُلاَنٌ حَيًّا ـ لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ ـ دَخَلَ عَلَىَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " نَعَمْ، إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلاَدَةِ ".
Once the Prophet (ﷺ) came to me while a man was in my house. He said, "O `Aisha! Who is this (man)?" I replied, "My foster brothers" He said, "O `Aisha رضی اللہ عنہا ! Be sure about your foster brothers, as fostership is only valid if it takes place in the suckling period (before two years of age). Ibn-e-Mahdi corroborated him from Sufyan.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( گھر میں ) تشریف لائے تو میرے یہاں ایک صاحب ( ان کے رضاعی بھائی ) بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ، عائشہ ! یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ رضی اللہ عنہا ذرا دیکھ بھال کر لو ، کون تمہارا رضاعی بھائی ہے ۔ کیونکہ رضاعت وہی معتبر ہے جو کم سنی میں ہو ۔ محمد بن کثیر کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن مہدی نے سفیان ثوری سے روایت کیا ہے ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ دَخَلَ عَلَىَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَعِنْدِي رَجُلٌ، قَالَ " يَا عَائِشَةُ مَنْ هَذَا ". قُلْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ. قَالَ " يَا عَائِشَةُ، انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ، فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ ". تَابَعَهُ ابْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ.
A woman committed theft in the Ghazwa of the Conquest (of Mecca) and she was taken to the Prophet who ordered her hand to be cut off. `Aisha رضی اللہ عنہا said, "Her repentance was perfect and she was married (later) and used to come to me (after that) and I would present her needs to Allah's Messenger (ﷺ)."
ایک عورت نے فتح مکہ پر چوری کر لی تھی ۔ پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا گیا اور آپ کے حکم کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے اچھی طرح توبہ کر لی اور شادی کر لی ۔ اس کے بعد وہ آتی تھیں تو میں ان کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا کرتی تھی ۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ،. وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ امْرَأَةً، سَرَقَتْ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ، فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ أَمَرَ فَقُطِعَتْ يَدُهَا. قَالَتْ عَائِشَةُ فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا وَتَزَوَّجَتْ، وَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.
Allah's Messenger (ﷺ) ordered that an unmarried man who committed illegal sexual intercourse be scourged one hundred lashes and sent into exile for one year.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لیے جو شادی شدہ نہ ہوں اور زنا کریں ۔ یہ حکم دیا تھا کہ انہیں سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا جائے ۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصِنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ وَتَغْرِيبِ عَامٍ.
My mother asked my father to present me a gift from his property; and he gave it to me after some hesitation. My mother said that she would not be satisfied unless the Prophet (ﷺ) was made a witness to it. I being a young boy, my father held me by the hand and took me to the Prophet (ﷺ) . He said to the Prophet, "His mother, bint Rawaha, requested me to give this boy a gift." The Prophet (ﷺ) said, "Do you have other sons besides him?" He said, "Yes." The Prophet (ﷺ) said, "Do not make me a witness for injustice." Narrated Ash-Shu`bi that the Prophet (ﷺ) said, "I will not become a witness for injustice."
میری ماں نے میرے باپ سے مجھے ایک چیز ہبہ دینے کے لیے کہا ( پہلے تو انہوں نے انکار کیا کیونکہ دوسری بیوی کے بھی اولاد تھی ) پھر راضی ہو گئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کر دی ۔ لیکن ماں نے کہا کہ جب تک آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں گواہ نہ بنائیں میں اس پر راضی نہ ہوں گی ۔ چنانچہ والد میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ میں ابھی نوعمر تھا ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کی ماں عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا مجھ سے ایک چیز اسے ہبہ کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اس کے علاوہ اور بھی تمہارے لڑکے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ، ہیں ۔ نعمان رضی اللہ عنہ ! نے بیان کیا ، میرا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا تو مجھ کو ظلم کی بات پر گواہ نہ بنا ۔ اور ابوحریز نے شعبی سے یہ نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ظلم کی بات پر گواہ نہیں بنتا ۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ سَأَلَتْ أُمِّي أَبِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ لِي مِنْ مَالِهِ، ثُمَّ بَدَا لَهُ فَوَهَبَهَا لِي فَقَالَتْ لاَ أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم. فَأَخَذَ بِيَدِي وَأَنَا غُلاَمٌ، فَأَتَى بِيَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنَّ أُمَّهُ بِنْتَ رَوَاحَةَ سَأَلَتْنِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ لِهَذَا، قَالَ " أَلَكَ وَلَدٌ سِوَاهُ ". قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَأُرَاهُ قَالَ " لاَ تُشْهِدْنِي عَلَى جَوْرٍ ". وَقَالَ أَبُو حَرِيزٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ " لاَ أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ ".
"The Prophet (ﷺ) said, 'The best people are those living in my generation, then those coming after them, and then those coming after (the second generation)." `Imran said "I do not know whether the Prophet (ﷺ) mentioned two or three generations after your present generation. The Prophet (ﷺ) added, 'There will be some people after you, who will be dishonest and will not be trustworthy and will give witness (evidences) without being asked to give witness, and will vow but will not fulfill their vows, and obesity will appear among them."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ( صحابہ ) ہیں ۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے ( تابعین ) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے ۔ ( تبع تابعین ) عمران نے بیان کیا کہ میں نہیں جانتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زمانوں کا ( اپنے بعد ) ذکر فرمایا یا تین کا پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو چور ہوں گے ، جن میں دیانت کا نام نہ ہو گا ۔ ان سے گواہی دینے کے لیے نہیں کہا جائے گا ۔ لیکن وہ گواہیاں دیتے پھریں گے ۔ نذریں مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے ۔ مٹاپا ان میں عام ہو گا ۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ زَهْدَمَ بْنَ مُضَرِّبٍ، قَالَ سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ". قَالَ عِمْرَانُ لاَ أَدْرِي أَذَكَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَعْدُ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً. قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ، وَيَشْهَدُونَ، وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ وَيَنْذِرُونَ وَلاَ يَفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ ".
The Prophet (ﷺ) said, "The people of my generation are the best, then those who follow them, and then whose who follow the latter. After that there will come some people whose witness will go ahead of their oaths, and their oaths will go ahead of their witness." Ibrahim (a sub-narrator) said, "We used to be beaten for taking oaths by saying, 'I bear witness by the Name of Allah or by the Covenant of Allah."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں ، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے ، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ایسے لوگوں کا زمانہ آئے گا جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے اور گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے ۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ہمارے بڑے بزرگ شہادت اور عہد کا لفظ زبان سے نکالنے پر ہمیں مارتے تھے ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ ". قَالَ إِبْرَاهِيمُ وَكَانُوا يَضْرِبُونَنَا عَلَى الشَّهَادَةِ وَالْعَهْدِ.
The Prophet (ﷺ) was asked about the great sins He said, "They are:-- (1 ) To join others in worship with Allah, (2) To be undutiful to one's parents. (3) To kill a person (which Allah has forbidden to kill) (i.e. to commit the crime of murdering). (4) And to give a false witness." Asbagh corroborated him from Ibn-e-Wahab, Younun and Ibn-e-Shihab.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا ۔ اس روایت کی متابعت غندر ، ابوعامر ، بہز اور عبدالصمد نے شعبہ سے کی ہے ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ وَهْبَ بْنَ جَرِيرٍ، وَعَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْكَبَائِرِ قَالَ " الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ ". تَابَعَهُ غُنْدَرٌ وَأَبُو عَامِرٍ وَبَهْزٌ وَعَبْدُ الصَّمَدِ عَنْ شُعْبَةَ.
The Prophet (ﷺ) said thrice, "Should I inform you out the greatest of the great sins?" They said, "Yes, O Allah's Messenger (ﷺ)!" He said, "To join others in worship with Allah and to be undutiful to one's parents." The Prophet (ﷺ) then sat up after he had been reclining (on a pillow) and said, "And I warn you against giving a false witness, and he kept on saying that warning till we thought he would not stop. (See Hadith No. 7, Vol. 8). Ismaeel bin Ibrahim, Jurairi reported from Abdur Rehman the same.
میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں ؟ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا ۔ صحابہ نے عرض کیا ، ہاں یا رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ کا کسی کو شریک ٹھہرانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، آپ اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ، ہاں اور جھوٹی گواہی بھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش ! آپ خاموش ہو جاتے ۔ اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے جریری نے بیان کیا ، اور ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ". ثَلاَثًا. قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ " الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ ". وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ " أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ ". قَالَ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ. وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ.
The Prophet (ﷺ) heard a man (reciting Qur'an) in the Mosque, and he said, "May Allah bestow His Mercy upon him. No doubt, he made me remember such-and such Verses of such-and-such Sura which I dropped (from my memory). Narrated Aisha رضی اللہ عنہا : The Prophet (ﷺ) performed the Tahajjud prayer in my house, and then he heard the voice of `Abbad رضی اللہ عنہ who was praying in the Mosque, and said, "O `Aisha! Is this `Abbad's voice?" I said, "Yes." He said, "O Allah! Be merciful to `Abbad!"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو مسجد میں قرآن پڑھتے سنا تو فرمایا کہ ان پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے مجھے انہوں نے اس وقت فلاں اور فلاں آیتیں یاد دلا دیں جنہیں میں فلاں فلاں سورتوں میں سے بھول گیا تھا ۔ عباد بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اپنی روایت میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ زیادتی کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں تہجد کی نماز پڑھی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباد رضی اللہ عنہ کی آواز سنی کہ وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔ آپ نے پوچھا عائشہ ! کیا یہ عباد کی آواز ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ! آپ نے فرمایا ، اے اللہ ! عباد پر رحم فرما ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ سَمِعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم رَجُلاً يَقْرَأُ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ " رَحِمَهُ اللَّهُ، لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا آيَةً، أَسْقَطْتُهُنَّ مِنْ سُورَةِ كَذَا وَكَذَا ". وَزَادَ عَبَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَائِشَةَ تَهَجَّدَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِي فَسَمِعَ صَوْتَ عَبَّادٍ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ " يَا عَائِشَةُ، أَصَوْتُ عَبَّادٍ هَذَا ". قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ " اللَّهُمَّ ارْحَمْ عَبَّادًا ".
The Prophet (ﷺ) said, "Bilal رضی اللہ عنہ pronounces the Adhan when it is still night (before dawn), so eat and drink till the next Adhan is pronounced (or till you hear Ibn Um Maktum's Adhan)." Ibn Um Maktum رضی اللہ عنہ was a blind man who would not pronounce the Adhan till he was told that it was dawn.
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، بلال رضی اللہ عنہ رات میں اذان دیتے ہیں ۔ اس لیے تم لوگ سحری کھا پی سکتے ہو یہاں تک کہ ( فجر کے لیے ) دوسری اذان پکاری جائے ۔ یا ( یہ فرمایا ) یہاں تک کہ عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان سن لو ۔ عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے اور جب تک ان سے کہا نہ جاتا صبح ہو گئی ہے ، وہ اذان نہیں دیتے تھے ۔
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ـ أَوْ قَالَ حَتَّى تَسْمَعُوا ـ أَذَانَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ ". وَكَانَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ رَجُلاً أَعْمَى، لاَ يُؤَذِّنُ حَتَّى يَقُولَ لَهُ النَّاسُ أَصْبَحْتَ.
Some outer garments were received the Prophet (ﷺ) and my father (Makhrama) said to me, "Let us go to the Prophet (ﷺ) so that he may give us something from the garments." So, my father stood at the door and spoke. The Prophet (ﷺ) recognized his voice and came out carrying a garment and telling Makhrama the good qualities of that garment, adding, "I have kept this for you, I have sent this for you."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چند قبائیں آئیں تو مجھ سے میرے باپ مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو ۔ ممکن ہے آپ ان میں سے کوئی مجھے بھی عنایت فرمائیں ۔ میرے والد ( حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پہنچ کر ) دروازے پر کھڑے ہو گئے اور باتیں کرنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آواز پہچان لی اور باہر تشریف لائے ، آپ کے پاس ایک قباء بھی تھی ، آپ اس کی خوبیاں بیان کرنے لگے ، اور فرمایا کہ میں نے یہ تمہارے ہی لیے الگ کر رکھی تھی ، میں نے یہ تمہارے ہی لیے الگ کر رکھی تھی ۔
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَدِمَتْ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَقْبِيَةٌ فَقَالَ لِي أَبِي مَخْرَمَةُ انْطَلِقْ بِنَا إِلَيْهِ عَسَى أَنْ يُعْطِيَنَا مِنْهَا شَيْئًا. فَقَامَ أَبِي عَلَى الْبَابِ فَتَكَلَّمَ، فَعَرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم صَوْتَهُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ قَبَاءٌ وَهُوَ يُرِيهِ مَحَاسِنَهُ وَهُوَ يَقُولَ " خَبَأْتُ هَذَا لَكَ، خَبَأْتُ هَذَا لَكَ ".
The Prophet (ﷺ) said, "Isn't the witness of a woman equal to half of that of a man?" The women said, "Yes." He said, "This is because of the deficiency of a woman's mind."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے آدھے کے برابر نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی تو ان کی عقل کا نقصان ہے ۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدٌ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ ". قُلْنَا بَلَى. قَالَ " فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا ".
That he had married Um Yahya bint Abu Ihab. He said. "A black slave-lady came and said, 'I suckled you both.' I then mentioned that to the Prophet (ﷺ) who turned his face aside." `Uqba further said, "I went to the other side and told the Prophet (ﷺ) about it. He said, 'How can you (keep her as your wife) when the lady has said that she suckled both of you (i.e. you and your wife?)" So, the Prophet (ﷺ) ordered him to divorce her.
انہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی تھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ایک سیاہ رنگ والی باندی آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے ۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، تو آپ نے میری طرف سے منہ پھیر لیا پس میں جدا ہو گیا ۔ میں نے پھر آپ کے سامنے جا کر اس کا ذکر کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اب ( نکاح ) کیسے ( باقی رہ سکتا ہے ) جبکہ تمہیں اس عورت نے بتا دیا ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا ۔ چنانچہ آپ نے انہیں ام یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھنے سے منع فرما دیا ۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ،. وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ، أَوْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ، أَنَّهُ تَزَوَّجَ أُمَّ يَحْيَى بِنْتَ أَبِي إِهَابٍ قَالَ فَجَاءَتْ أَمَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأَعْرَضَ عَنِّي، قَالَ فَتَنَحَّيْتُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ قَالَ " وَكَيْفَ وَقَدْ زَعَمَتْ أَنْ قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا ". فَنَهَاهُ عَنْهَا.
I married a woman and later on a woman came and said, "I suckled you both." So, I went to the Prophet (to ask him about it). He said, "How can you (keep her as a wife) when it has been said (that you were foster brother and sister)? Leave (divorce) her.
میں نے ایک عورت سے شادی کی تھی ۔ پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا ۔ اس لیے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ نے فرمایا کہ جب تمہیں بتا دیا گیا ( کہ ایک ہی عورت تم دونوں کی دودھ کی ماں ہے ) تو پھر اب اور کیا صورت ہو سکتی ہے اپنی بیوی کو اپنے سے جدا کر دے یا اسی طرح کے الفاظ آپ نے فرمائے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا. فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " وَكَيْفَ وَقَدْ قِيلَ دَعْهَا عَنْكَ " أَوْ نَحْوَهُ.
When the slanderer affixed calumny to her and Allah exonerated her from it. Zuhri says: Everyone narrates one part of the Hadith and some of them are blessed with more retaining power and are more trustworthy in narrating it and I have retained the Hadith narrated by everyone of them which they have reported from Hadrat Aishah رضی اللہ عنہا and their statements attest one and other's statement. The thought that Hadrat Aishah رضی اللہ عنہا said: "Whenever Allah's Messenger (ﷺ) intended to go on a journey, he would draw lots amongst his wives and would take with him the one upon whom the lot fell. During a Ghazwa of his, he drew lots amongst us and the lot fell upon me, and I proceeded with him after Allah had decreed the use of the veil by women. I was carried in a Howdah (on the camel) and dismounted while still in it. When Allah's Messenger (ﷺ) was through with his Ghazwa and returned home, and we approached the city of Medina, Allah's Messenger (ﷺ) ordered us to proceed at night. When the order of setting off was given, I walked till I was past the army to answer the call of nature. After finishing I returned (to the camp) to depart (with the others) and suddenly realized that my necklace over my chest was missing. So, I returned to look for it and was delayed because of that. The people who used to carry me on the camel, came to my Howdah and put it on the back of the camel, thinking that I was in it, as, at that time, women were light in weight, and thin and lean, and did not use to eat much. So, those people did not feel the difference in the heaviness of the Howdah while lifting it, and they put it over the camel. At that time I was a young lady. They set the camel moving and proceeded on. I found my necklace after the army had gone, and came to their camp to find nobody. So, I went to the place where I used to stay, thinking that they would discover my absence and come back in my search. While in that state, I felt sleepy and slept. Safwan bin Mu'attal As-Sulami Adh-Dhakwani was behind the army and reached my abode in the morning. When he saw a sleeping person, he came to me, and he used to see me before veiling. So, I got up when I heard him saying, "Inna lil-lah-wa inn a ilaihi rajiun (We are for Allah, and we will return to Him)." He made his camel knell down. He got down from his camel, and put his leg on the front legs of the camel and then I rode and sat over it. Safwan set out walking, leading the camel by the rope till we reached the army who had halted to take rest at midday. Then whoever was meant for destruction, fell into destruction, (some people accused me falsely) and the leader of the false accusers was `Abdullah bin Ubai bin Salul. After that we returned to Medina, and I became ill for one month while the people were spreading the forged statements of the false accusers. I was feeling during my ailment as if I were not receiving the usual kindness from the Prophet (ﷺ) which I used to receive from him when I got sick. But he would come, greet and say, 'How is that (girl)?' I did not know anything of what was going on till I recovered from my ailment and went out with Um Mistah to the Manasi where we used to answer the call of nature, and we used not to go to answer the call of nature except from night to night and that was before we had lavatories near to our houses. And this habit of ours was similar to the habit of the old 'Arabs in the open country (or away from houses). So. I and Um Mistah bint Ruhm went out walking. Um Mistah stumbled because of her long dress and on that she said, 'Let Mistah be ruined.' I said, 'You are saying a bad word. Why are you abusing a man who took part in (the battle of) Badr?' She said, 'O Hanata (you there) didn't you hear what they said?' Then she told me the rumors of the false accusers. My sickness was aggravated, and when I returned home, Allah's Messenger (ﷺ) came to me, and after greeting he said, 'How is that (girl)?' I requested him to allow me to go to my parents. I wanted then to be sure of the news through them I Allah's Messenger (ﷺ) allowed me, and I went to my parents and asked my mother, 'What are the people talking about?' She said, 'O my daughter! Don't worry much about this matter. By Allah, never is there a charming woman loved by her husband who has other wives, but the women would forge false news about her.' I said, 'Glorified be Allah! Are the people really taking of this matter?' That night I kept on weeping and could not sleep till morning. In the morning Allah's Messenger (ﷺ) called `Ali bin Abu Talib and Usama bin Zaid when he saw the Divine Inspiration delayed, to consul them about divorcing his wife (i.e. `Aisha). Usama bin Zaid said what he knew of the good reputation of his wives and added, 'O Allah's Messenger (ﷺ)! Keep you wife, for, by Allah, we know nothing about her but good.' `Ali bin Abu Talib said, 'O Allah's Messenger (ﷺ)! Allah has no imposed restrictions on you, and there are many women other than she, yet you may ask the woman-servant who will tell you the truth.' On that Allah's Messenger (ﷺ) called Buraira and said, 'O Burair. Did you ever see anything which roused your suspicions about her?' Buraira said, 'No, by Allah Who has sent you with the Truth, I have never seen in her anything faulty except that she is a girl of immature age, who sometimes sleeps and leaves the dough for the goats to eat.' On that day Allah's Messenger (ﷺ) ascended the pulpit and requested that somebody support him in punishing `Abdullah bin Ubai bin Salul. Allah's Apostle said, 'Who will support me to punish that person (`Abdullah bin Ubai bin Salul) who has hurt me by slandering the reputation of my family? By Allah, I know nothing about my family but good, and they have accused a person about whom I know nothing except good, and he never entered my house except in my company.' Sa`d bin Mu`adh got up and said, 'O Allah's Messenger (ﷺ)! by Allah, I will relieve you from him. If that man is from the tribe of the Aus, then we will chop his head off, and if he is from our brothers, the Khazraj, then order us, and we will fulfill your order.' On that Sa`d bin 'Ubada, the chief of the Khazraj and before this incident, he had been a pious man, got up, motivated by his zeal for his tribe and said, 'By Allah, you have told a lie; you cannot kill him, and you will never be able to kill him.' On that Usaid bin Al-Hadir got up and said (to Sa`d bin 'Ubada), 'By Allah! you are a liar. By Allah, we will kill him; and you are a hypocrite, defending the hypocrites.' On this the two tribes of Aus and Khazraj got excited and were about to fight each other, while Allah's Messenger (ﷺ) was standing on the pulpit. He got down and quieted them till they became silent and he kept quiet. On that day I kept on weeping so much so that neither did my tears stop, nor could I sleep. In the morning my parents were with me and I had wept for two nights and a day, till I thought my liver would burst from weeping. While they were sitting with me and I was weeping, an Ansari woman asked my permission to enter, and I allowed her to come in. She sat down and started weeping with me. While we were in this state, Allah's Messenger (ﷺ) came and sat down and he had never sat with me since the day they forged the accusation. No revelation regarding my case came to him for a month. He recited Tashah-hud (i.e. None has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is His Apostle) and then said, 'O `Aisha! I have been informed such-and-such about you; if you are innocent, then Allah will soon reveal your innocence, and if you have committed a sin, then repent to Allah and ask Him to forgive you, for when a person confesses his sin and asks Allah for forgiveness, Allah accepts his repentance.' When Allah's Messenger (ﷺ) finished his speech my tears ceased completely and there remained not even a single drop of it. I requested my father to reply to Allah's Messenger (ﷺ) on my behalf. My father said, By Allah, I do not know what to say to Allah's Messenger (ﷺ).' I said to my mother, 'Talk to Allah's Messenger (ﷺ) on my behalf.' She said, 'By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle. I was a young girl and did not have much knowledge of the Qur'an. I said. 'I know, by Allah, that you have listened to what people are saying and that has been planted in your minds and you have taken it as a truth. Now, if I told you that I am innocent and Allah knows that I am innocent, you would not believe me and if I confessed to you falsely that I am guilty, and Allah knows that I am innocent you would believe me. By Allah, I don't compare my situation with you except to the situation of Joseph's father (i.e. Jacob) who said, 'So (for me) patience is most fitting against that which you assert and it is Allah (Alone) whose help can be sought.' Then I turned to the other side of my bed hoping that Allah would prove my innocence. By Allah I never thought that Allah would reveal Divine Inspiration in my case, as I considered myself too inferior to be talked of in the Holy Qur'an. I had hoped that Allah's Messenger (ﷺ) might have a dream in which Allah would prove my innocence. By Allah, Allah's Apostle had not got up and nobody had left the house before the Divine Inspiration came to Allah's Apostle. So, there overtook him the same state which used to overtake him, (when he used to have, on being inspired divinely). He was sweating so much so that the drops of the sweat were dropping like pearls though it was a (cold) wintry day. When that state of Allah's Messenger (ﷺ) was over, he was smiling and the first word he said, `Aisha! Thank Allah, for Allah has declared your innocence.' My mother told me to go to Allah's Messenger (ﷺ) . I replied, 'By Allah I will not go to him and will not thank but Allah.' So Allah revealed: "Verily! They who spread the slander are a gang among you . . ." (24.11) When Allah gave the declaration of my Innocence, Abu Bakr, who used to provide for Mistah bin Uthatha for he was his relative, said, 'By Allah, I will never provide Mistah with anything because of what he said about Aisha.' But Allah later revealed: -- "And let not those who are good and wealthy among you swear not to help their kinsmen, those in need and those who left their homes in Allah's Cause. Let them forgive and overlook. Do you not wish that Allah should forgive you? Verily! Allah is Oft-forgiving, Most Merciful." (24.22) After that Abu Bakr رضی اللہ عنہ said, 'Yes ! By Allah! I like that Allah should forgive me,' and resumed helping Mistah whom he used to help before. Allah's Messenger (ﷺ) also asked Zainab bint Jahsh رضی اللہ عنہا (i.e. the Prophet's wife about me saying, 'What do you know and what did you see?' She replied, 'O Allah's Messenger (ﷺ)! I refrain to claim hearing or seeing what I have not heard or seen. By Allah, I know nothing except goodness about Aisha رضی اللہ عنہا ." Aisha رضی اللہ عنہا further added "Zainab was competing with me (in her beauty and the Prophet's love), yet Allah protected her (from being malicious), for she had piety." Hisham bin Urwah from Hadrat Aishah رضی اللہ عنہا and Abdullah bin Zubair رضی اللہ عنہم has repoted likewise. Folaih, Rabiah bin Abu Abdur Rehman and Yahya bin Saeed has reported from Qasim bin MUhammad bin Abu Bakr in the same way.
وہ قصہ بیان کیا جب تہمت لگانے والوں نے ان پر پر تہمت لگائی لیکن اللہ تعالیٰ نے خود انہیں اس سے بری قرار دیا ۔ زہری نے بیان کیا ( کہ زہری سے بیان کرنے والے ، جن کا سند میں زہری کے بعد ذکر ہے ) تمام راویوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا ایک ایک حصہ بیان کیا تھا ، بعض راویوں کو بعض دوسرے راویوں سے حدیث زیادہ یاد تھی اور وہ بیان بھی زیادہ بہتر طریقہ پر کر سکتے تھے ۔ بہرحال ان سب راویوں سے میں نے یہ حدیث پوری طرح محفوظ کر لی تھی جسے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے تھے ۔ ان راویوں میں ہر ایک کی روایت سے دوسرے راوی کی تصدیق ہوتی تھی ۔ ان کا بیان تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے ۔ جس کے نام کا قرعہ نکلتا ، سفر میں وہی آپ کے ساتھ جاتی ۔ چنانچہ ایک غزوہ کے موقع پر ، جس میں آپ بھی شرکت کر رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرعہ ڈلوایا اور میرا نام نکلا ۔ اب میں آپ کے ساتھ تھی ۔ یہ واقعہ پردے کی آیت کے نازل ہونے کے بعد کا ہے ۔ خیر میں ایک ہودج میں سوار رہتی تھی ، اسی میں بیٹھے بیٹھے مجھ کو اتارا جاتا تھا ۔ اس طرح ہم چلتے رہے ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے فارغ ہو کر واپس ہوئے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات آپ نے کوچ کا حکم دیا ۔ میں یہ حکم سنتے ہی اٹھی اور لشکر سے آگے بڑھ گئی ۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو کجاوے کے پاس آ گئی ۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو میرا ظفار کے کالے نگینوں کا ہار موجود نہیں تھا ۔ اس لیے میں وہاں دوبارہ پہنچی ( جہاں قضائے حاجت کے لیے گئی تھی ) اور میں نے ہار کو تلاش کیا ۔ اس تلاش میں دیر ہو گئی ۔ اس عرصے میں وہ اصحاب جو مجھے سوار کراتے تھے ، آئے اور میرا ہودج اٹھا کر میرے اونٹ پر رکھ دیا ۔ وہ یہی سمجھے کہ میں اس میں بیٹھی ہوں ۔ ان دنوں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں ، بھاری بھر کم نہیں ۔ گوشت ان میں زیادہ نہیں رہتا تھا کیونکہ بہت معمولی غذا کھاتی تھیں ۔ اس لیے ان لوگوں نے جب ہودج کو اٹھایا تو انہیں اس کے بوجھ میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا ۔ میں یوں بھی نوعمر لڑکی تھی ۔ چنانچہ اصحاب نے اونٹ کو ہانک دیا اور خود بھی اس کے ساتھ چلنے لگے ۔ جب لشکر روانہ ہو چکا تو مجھے اپنا ہار ملا اور میں پڑاو کی جگہ آئی ۔ لیکن وہاں کوئی آدمی موجود نہ تھا ۔ اس لیے میں اس جگہ گئی جہاں پہلے میرا قیام تھا ۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہیں پائیں گے تو یہیں لوٹ کے آئیں گے ۔ ( اپنی جگہ پہنچ کر ) میں یوں ہی بیٹھی ہوئی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی ۔ صفوان بن معطل سلمی ثم زکوانی رضی اللہ عنہ لشکر کے پیچھے تھے ( جو لشکریوں کی گری پڑی چیزوں کو اٹھا کر انہیں اس کے مالک تک پہنچانے کی خدمت کے لیے مقرر تھے ) وہ میری طرف سے گزرے تو ایک سوئے ہوئے انسان کا سا یہ نظر پڑا اس لیے اور قریب پہنچے ۔ پردہ کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے ۔ ان کے اناللہ پڑھنے سے میں بیدار ہو گئی ۔ آخر انہوں نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اس کے اگلے پاؤں کو موڑ دیا ( تاکہ بلا کسی مدد کے میں خود سوار ہو سکوں ) چنانچہ میں سوار ہو گئی ، اب وہ اونٹ پر مجھے بٹھائے ہوئے خود اس کے آگے آگے چلنے لگے ۔ اسی طرح ہم جب لشکر کے قریب پہنچے تو لوگ بھری دوپہر میں آرام کے لیے پڑاو ڈال چکے تھے ۔ ( اتنی ہی بات تھی جس کی بنیاد پر ) جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا اور تہمت کے معاملے میں پیش پیش عبداللہ بن ابی ابن سلول ( منافق ) تھا ۔ پھر ہم مدینہ میں آ گئے اور میں ایک مہینے تک بیمار رہی ۔ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا خوب چرچا ہو رہا تھا ۔ اپنی اس بیماری کے دوران مجھے اس سے بھی بڑا شبہ ہوتا تھا کہ ان دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ لطف و کرم بھی میں نہیں دیکھتی تھی جن کا مشاہدہ اپنی پچھلی بیماریوں میں کر چکی تھی ۔ پس آپ گھر میں جب آتے تو سلام کرتے اور صرف اتنا دریافت فرما لیتے ، مزاج کیسا ہے ؟ جو باتیں تہمت لگانے والے پھیلا رہے تھے ان میں سے کوئی بات مجھے معلوم نہیں تھی ۔ جب میری صحت کچھ ٹھیک ہوئی تو ( ایک رات ) میں ام مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئی ۔ یہ ہماری قضائے حاجت کی جگہ تھی ، ہم یہاں صرف رات ہی میں آتے تھے ۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ابھی ہمارے گھروں کے قریب بیت الخلاء نہیں بنے تھے ۔ میدان میں جانے کے سلسلے میں ( قضائے حاجت کے لیے ) ہمارا طرز عمل قدیم عرب کی طرح تھا ، میں اور ام مسطح بنت ابی رہم چل رہی تھی کہ وہ اپنی چادر میں الجھ کر گر پڑیں اور ان کی زبان سے نکل گیا ، مسطح برباد ہو ۔ میں نے کہا ، بری بات آپ نے اپنی زبان سے نکالی ، ایسے شخص کو برا کہہ رہی ہیں آپ ، جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا ، وہ کہنے لگیں ، اے بھولی بھالی ! جو کچھ ان سب نے کہا ہے وہ آپ نے نہیں سنا ، پھر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی ساری باتیں سنائیں اور ان باتوں کو سن کر میری بیماری اور بڑھ گئی ۔ میں جب اپنے گھر واپس ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور دریافت فرمایا ، مزاج کیسا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے والدین کے یہاں جانے کی اجازت دیجئیے ۔ اس وقت میرا ارادہ یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تحقیق کروں گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں جب گھر آئی تو میں نے اپنی والدہ ( ام رومان ) سے ان باتوں کے متعلق پوچھا ، جو لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں ۔ انہوں نے فرمایا ، بیٹی ! اس طرح کی باتوں کی پرواہ نہ کر ، خدا کی قسم ! شاید ہی ایسا ہو کہ تجھ جیسی حسین و خوبصورت عورت کسی مرد کے گھر میں ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں ، پھر بھی اس طرح کی باتیں نہ پھیلائی جایا کریں ۔ میں نے کہا سبحان اللہ ! ( سوکنوں کا کیا ذکر ) وہ تو دوسرے لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ وہ رات میں نے وہیں گزاری ، صبح تک میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند آئی ۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کو جدا کرنے کے سلسلے میں مشورہ کرنے کے لیے علی ابن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلوایا ۔ کیونکہ وحی ( اس سلسلے میں ) اب تک نہیں آئی تھی ۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپ کی بیویوں سے آپ کی محبت کا علم تھا ۔ اس لیے اسی کے مطابق مشورہ دیا اور کہا ، آپ کی بیوی یا رسول اللہ ! واللہ ، ہم ان کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے ، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں ، باندی سے بھی آپ دریافت فرما لیجئے ، وہ سچی بات بیان کریں گی ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلایا ( جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی خاص خادمہ تھی ) اور دریافت فرمایا ، بریرہ ! کیا تم نے عائشہ میں کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تمہیں شبہ ہوا ہو ۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ، نہیں ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ۔ میں نے ان میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس کا عیب میں ان پر لگا سکوں ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نوعمر لڑکی ہیں ۔ آٹا گوندھ کر سو جاتی ہیں پھر بکری آتی ہے اور کھا لیتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دن ( منبر پر ) کھڑے ہو کر عبداللہ بن ابی ابن سلول کے بارے میں مدد چاہی ۔ آپ نے فرمایا ، ایک ایسے شخص کے بارے میں میری کون مدد کرے گا جس کی اذیت اور تکلیف دہی کا سلسلہ اب میری بیوی کے معاملے تک پہنچ چکا ہے ۔ اللہ کی قسم ، اپنی بیوی کے بارے میں خیر کے سوا اور کوئی چیز مجھے معلوم نہیں ۔ پھر نام بھی اس معاملے میں انہوں نے ایک ایسے آدمی کا لیا ہے جس کے متعلق بھی میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا ۔ خود میرے گھر میں جب بھی وہ آئے ہیں تو میرے ساتھ ہی آئے ۔ ( یہ سن کر ) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ ! واللہ میں آپ کی مدد کروں گا ۔ اگر وہ شخص ( جس کے متعلق تہمت لگانے کا آپ نے ارشاد فرمایا ہے ) اوس قبیلہ سے ہو گا تو ہم اس کی گردن مار دیں گے ( کیونکہ سعد رضی اللہ عنہ خود قبیلہ اوس کے سردار تھے ) اور اگر وہ خزرج کا آدمی ہوا ، تو آپ ہمیں حکم دیں ، جو بھی آپ کا حکم ہو گا ہم تعمیل کریں گے ۔ اس کے بعد سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے ۔ حالانکہ اس سے پہلے اب تک بہت صالح تھے ۔ لیکن اس وقت ( سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی بات پر ) حمیت سے غصہ ہو گئے تھے اور ( سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے ) کہنے لگے رب کے دوام و بقا کی قسم ! تم جھوٹ بولتے ہو ، نہ تم اسے قتل کر سکتے ہو اور نہ تمہارے اندر اس کی طاقت ہے ۔ پھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ( سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی ) اور کہا ، خدا کی قسم ! ہم اسے قتل کر دیں گے ( اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہوا ) کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ تم بھی منافق ہو ۔ کیونکہ منافقوں کی طرفداری کر رہے ہو ۔ اس پر اوس و خزرج دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ابھی تک منبر پر تشریف رکھتے تھے ۔ منبر سے اترے اور لوگوں کو نرم کیا ۔ اب سب لوگ خاموش ہو گئے اور آپ بھی خاموش ہو گئے ۔ میں اس دن بھی روتی رہی ۔ نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی پھر میرے پاس میرے ماں باپ آئے ۔ میں ایک رات اور ایک دن سے برابر روتی رہی تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روتے روتے میرے دل کے ٹکڑے ہو جائیں گے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ماں باپ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک انصاری عورت نے اجازت چاہی اور میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی اور وہ میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں ۔ ہم سب اسی طرح تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور بیٹھ گئے ۔ جس دن سے میرے متعلق وہ باتیں کہی جا رہی تھیں جو کبھی نہیں کہی گئیں تھیں ۔ اس دن سے میرے پاس آپ نہیں بیٹھے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینے تک انتظار کرتے رہے تھے ۔ لیکن میرے معاملے میں کوئی وحی آپ پر نازل نہیں ہوئی تھی ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد پڑھی اور فرمایا ، عائشہ ! تمہارے متعلق مجھے یہ یہ باتیں معلوم ہوئیں ۔ اگر تم اس معاملے میں بری ہو تو اللہ تعالیٰ بھی تمہاری برات ظاہر کر دے گا اور اگر تم نے گناہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہو اور اس کے حضور توبہ کرو کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ جونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو ختم کی ، میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے کہ اب ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ میں نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے متعلق کہئے ۔ لیکن انہوں نے کہا ، قسم اللہ کی ! مجھے نہیں معلوم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہئے ۔ میں نے اپنی ماں سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ، اس کے متعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ ہی کچھ کہئے ، انہوں نے بھی یہی فرما دیا کہ قسم اللہ کی ! مجھے معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہنا چاہئے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نوعمر لڑکی تھی ۔ قرآن مجھے زیادہ یاد نہیں تھا ۔ میں نے کہا اللہ گواہ ہے ، مجھے معلوم ہوا کہ آپ لوگوں نے بھی لوگوں کی افواہ سنی ہیں اور آپ لوگوں کے دلوں میں وہ بات بیٹھ گئی ہے اور اس کی تصدیق بھی آپ لوگ کر چکے ہیں ، اس لیے اب اگر میں کہوں کہ میں ( اس بہتان سے ) بری ہوں ، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی اس سے بری ہوں تو آپ لوگ میری اس معاملے میں تصدیق نہیں کریں گے ۔ لیکن اگر میں ( گناہ کو ) اپنے ذمہ لے لوں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں ، تو آپ لوگ میری بات کی تصدیق کر دیں گے ۔ قسم اللہ کی ! میں اس وقت اپنی اور آپ لوگوں کی کوئی مثال یوسف علیہ السلام کے والد ( یعقوب علیہ السلام ) کے سوا نہیں پاتی کہ انہوں نے بھی فرمایا تھا ” پس صبر جمیل “ صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم کہتے ہو اس معاملے میں میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے “ ۔ اس کے بعد بستر پر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور مجھے امید تھی کہ خود اللہ تعالیٰ میری برات کرے گا ۔ لیکن میرا یہ خیال کبھی نہ تھا کہ میرے متعلق وحی نازل ہو گی ۔ میری اپنی نظر میں حیثیت اس سے بہت معمولی تھی کہ قرآن مجید میں میرے متعلق کوئی آیت نازل ہو ۔ ہاں مجھے اتنی امید ضرور تھی کہ آپ کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ مجھے بری فرما دے گا ۔ اللہ گواہ ہے کہ ابھی آپ اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے اور نہ اس وقت گھر میں موجود کوئی باہر نکلا تھا کہ آپ پر وحی نازل ہونے لگی اور ( شدت وحی سے ) آپ جس طرح پسینے پسینے ہو جایا کرتے تھے وہی کیفیت آپ کی اب بھی تھی ۔ پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح آپ کے جسم مبارک سے گرنے لگے ۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا ۔ جب وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا ، وہ یہ تھا اے عائشہ ! اللہ کی حمد بیان کر کہ اس نے تمہیں بری قرار دے دیا ہے ۔ میری والدہ نے کہا بیٹی جا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا کر کھڑی ہو جا ۔ میں نے کہا ، نہیں قسم اللہ کی میں آپ کے پاس جا کر کھڑی نہ ہوں گی اور میں تو صرف اللہ کی حمد و ثنا کروں گی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی ” جن لوگوں نے تہمت تراشی کی ہے ۔ وہ تم ہی میں سے کچھ لوگ ہیں “ ۔ جب اللہ تعالیٰ نے میری برات میں یہ آیت نازل فرمائی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے اخراجات قرابت کی وجہ سے خود ہی اٹھاتے تھے کہا کہ قسم اللہ کی اب میں مسطح پر کبھی کوئی چیز خرچ نہیں کروں گا کہ وہ بھی عائشہ پر تہمت لگانے میں شریک تھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ۔ ” تم میں سے صاحب فضل و صاحب مال لوگ قسم نہ کھائیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد غفور رحیم تک “ ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم ! بس میری یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت کر دے ۔ چنانچہ مسطح رضی اللہ عنہ کو جو آپ پہلے دیا کرتے تھے وہ پھر دینے لگے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش ( رضی اللہ عنہا ام المؤمنین ) سے بھی میرے متعلق پوچھا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ زینب ! تم ( عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ) کیا جانتی ہو ؟ اور کیا دیکھا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں اپنے کان اور اپنی آنکھ کی حفاظت کرتی ہوں ( کہ جو چیز میں نے دیکھی ہو یا نہ سنی ہو وہ آپ سے بیان کرنے لگوں ) خدا گواہ ہے کہ میں نے ان میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہی میری برابر کی تھیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں تقویٰ کی وجہ سے بچا لیا ۔ ابوالربیع نے بیان کیا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے عروہ نے ، ان سے عائشہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم نے اسی حدیث کی طرح ۔ ابوالربیع نے ( دوسری سند میں ) بیان کیا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا ، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن اور یحییٰ بن سعید نے اور ان سے قاسم بن محمد بن ابی بکر نے اسی حدیث کی طرح ۔
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ وَأَفْهَمَنِي بَعْضَهُ أَحْمَدُ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ مَا قَالُوا، فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِنْهُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ، وَكُلُّهُمْ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا وَبَعْضُهُمْ أَوْعَى مِنْ بَعْضٍ، وَأَثْبَتُ لَهُ اقْتِصَاصًا، وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمُ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ عَائِشَةَ، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا. زَعَمُوا أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ، فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزَاةٍ غَزَاهَا فَخَرَجَ سَهْمِي، فَخَرَجْتُ مَعَهُ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ، فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجٍ وَأُنْزَلُ فِيهِ، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْكَ، وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ، آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى الرَّحْلِ، فَلَمَسْتُ صَدْرِي، فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ أَظْفَارٍ قَدِ انْقَطَعَ، فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي، فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ، فَأَقْبَلَ الَّذِينَ يَرْحَلُونَ لِي، فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِي الَّذِي كُنْتُ أَرْكَبُ، وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ، وَكَانَ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يَثْقُلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ، وَإِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ حِينَ رَفَعُوهُ ثِقَلَ الْهَوْدَجِ فَاحْتَمَلُوهُ وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا، فَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ، فَجِئْتُ مَنْزِلَهُمْ وَلَيْسَ فِيهِ أَحَدٌ، فَأَمَمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ بِهِ فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَىَّ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ غَلَبَتْنِي عَيْنَاىَ فَنِمْتُ، وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ، فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ فَأَتَانِي، وَكَانَ يَرَانِي قَبْلَ الْحِجَابِ فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، فَوَطِئَ يَدَهَا فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ، حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُعَرِّسِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى الإِفْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ بِهَا شَهْرًا، يُفِيضُونَ مِنْ قَوْلِ أَصْحَابِ الإِفْكِ، وَيَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لاَ أَرَى مِنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اللُّطْفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَمْرَضُ، إِنَّمَا يَدْخُلُ فَيُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُولُ " كَيْفَ تِيكُمْ ". لاَ أَشْعُرُ بِشَىْءٍ مِنْ ذَلِكَ حَتَّى نَقَهْتُ، فَخَرَجْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ مُتَبَرَّزُنَا، لاَ نَخْرُجُ إِلاَّ لَيْلاً إِلَى لَيْلٍ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا، وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الأُوَلِ فِي الْبَرِّيَّةِ أَوْ فِي التَّنَزُّهِ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ بِنْتُ أَبِي رُهْمٍ نَمْشِي، فَعَثُرَتْ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا بِئْسَ مَا قُلْتِ، أَتَسُبِّينَ رَجُلاً شَهِدَ بَدْرًا فَقَالَتْ يَا هَنْتَاهْ أَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالُوا فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الإِفْكِ، فَازْدَدْتُ مَرَضًا إِلَى مَرَضِي، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي دَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمَ فَقَالَ " كَيْفَ تِيكُمْ ". فَقُلْتُ ائْذَنْ لِي إِلَى أَبَوَىَّ. قَالَتْ وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا، فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَتَيْتُ أَبَوَىَّ فَقُلْتُ لأُمِّي مَا يَتَحَدَّثُ بِهِ النَّاسُ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّةُ هَوِّنِي عَلَى نَفْسِكِ الشَّأْنَ، فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلاَّ أَكْثَرْنَ عَلَيْهَا. فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَلَقَدْ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِهَذَا قَالَتْ فَبِتُّ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، ثُمَّ أَصْبَحْتُ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْىُ، يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، فَأَمَّا أُسَامَةُ فَأَشَارَ عَلَيْهِ بِالَّذِي يَعْلَمُ فِي نَفْسِهِ مِنَ الْوُدِّ لَهُمْ، فَقَالَ أُسَامَةُ أَهْلُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ نَعْلَمُ وَاللَّهِ إِلاَّ خَيْرًا، وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ يُضَيِّقِ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ، وَسَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ. فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَرِيرَةَ فَقَالَ " يَا بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ فِيهَا شَيْئًا يَرِيبُكِ ". فَقَالَتْ بَرِيرَةُ لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، إِنْ رَأَيْتُ مِنْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنِ الْعَجِينَ فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ. فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ يَوْمِهِ، فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَىٍّ ابْنِ سَلُولَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ خَيْرًا، وَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلاً مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ مَعِي ". فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا وَاللَّهِ أَعْذِرُكَ مِنْهُ، إِنْ كَانَ مِنَ الأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا فِيهِ أَمْرَكَ. فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ، وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلاً صَالِحًا وَلَكِنِ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ فَقَالَ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ، لاَ تَقْتُلُهُ وَلاَ تَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ فَقَالَ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ. فَثَارَ الْحَيَّانِ الأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الْمِنْبَرِ فَنَزَلَ فَخَفَّضَهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ، وَبَكَيْتُ يَوْمِي لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، فَأَصْبَحَ عِنْدِي أَبَوَاىَ، قَدْ بَكَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا حَتَّى أَظُنُّ أَنَّ الْبُكَاءَ فَالِقٌ كَبِدِي ـ قَالَتْ ـ فَبَيْنَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي إِذِ اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَأَذِنْتُ لَهَا، فَجَلَسَتْ تَبْكِي مَعِي، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجَلَسَ، وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مِنْ يَوْمِ قِيلَ فِيَّ مَا قِيلَ قَبْلَهَا، وَقَدْ مَكُثَ شَهْرًا لاَ يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي شَىْءٌ ـ قَالَتْ ـ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ " يَا عَائِشَةُ فَإِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ ". فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً وَقُلْتُ لأَبِي أَجِبْ عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقُلْتُ لأُمِّي أَجِيبِي عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيمَا قَالَ. قَالَتْ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَتْ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لاَ أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ فَقُلْتُ إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّكُمْ سَمِعْتُمْ مَا يَتَحَدَّثُ بِهِ النَّاسُ، وَوَقَرَ فِي أَنْفُسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ، وَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ. وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَبَرِيئَةٌ لاَ تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ، وَلَئِنِ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلاً إِلاَّ أَبَا يُوسُفَ إِذْ قَالَ {فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ} ثُمَّ تَحَوَّلْتُ عَلَى فِرَاشِي، وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يُبَرِّئَنِي اللَّهُ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا ظَنَنْتُ أَنْ يُنْزِلَ فِي شَأْنِي وَحْيًا، وَلأَنَا أَحْقَرُ فِي نَفْسِي مِنْ أَنْ يُتَكَلَّمَ بِالْقُرْآنِ فِي أَمْرِي، وَلَكِنِّي كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ، فَوَاللَّهِ مَا رَامَ مَجْلِسَهُ وَلاَ خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِي يَوْمٍ شَاتٍ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ يَضْحَكُ، فَكَانَ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ لِي " يَا عَائِشَةُ، احْمَدِي اللَّهَ فَقَدْ بَرَّأَكِ اللَّهُ ". فَقَالَتْ لِي أُمِّي قُومِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقُلْتُ لاَ وَاللَّهِ، لاَ أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلاَ أَحْمَدُ إِلاَّ اللَّهَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ} الآيَاتِ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَاءَتِي قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَاللَّهِ لاَ أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ مَا قَالَ لِعَائِشَةَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ} إِلَى قَوْلِهِ {غَفُورٌ رَحِيمٌ} فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ بَلَى، وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ الَّذِي كَانَ يُجْرِي عَلَيْهِ. وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَسْأَلُ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي، فَقَالَ " يَا زَيْنَبُ، مَا عَلِمْتِ مَا رَأَيْتِ ". فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلاَّ خَيْرًا، قَالَتْ وَهْىَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي، فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ. قَالَ وَحَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، مِثْلَهُ. قَالَ وَحَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، مِثْلَهُ.