Once, while I was sitting beside Zaid bin Al-Arqam رضی اللہ عنہ , he was asked, "How many Ghazwat did the Prophet undertake?" Zaid replied, "Nineteen." They said, "In how many Ghazwat did you join him?" He replied, "Seventeen." I asked, "Which of these was the first?" He replied, "Al-`Ashira or Al- `Ashiru." When I mentioned it to Qatadah, he replied: Oshair.
میں ایک وقت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غزوے کئے؟ انہوں نے کہا انیس۔ میں نے پوچھا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنے غزوات میں شریک رہے؟ تو انہوں نے کہا کہ سترہ میں۔ میں نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا غزوہ کون سا تھا؟ کہا کہ عسیرہ یا عشیرہ۔ پھر میں نے اس کا ذکر قتادہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ( صحیح لفظ ) عشیرہ ہے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، كُنْتُ إِلَى جَنْبِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَقِيلَ لَهُ كَمْ غَزَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنْ غَزْوَةٍ قَالَ تِسْعَ عَشْرَةَ. قِيلَ كَمْ غَزَوْتَ أَنْتَ مَعَهُ قَالَ سَبْعَ عَشْرَةَ. قُلْتُ فَأَيُّهُمْ كَانَتْ أَوَّلَ قَالَ الْعُسَيْرَةُ أَوِ الْعُشَيْرُ. فَذَكَرْتُ لِقَتَادَةَ فَقَالَ الْعُشَيْرُ.
Sa`d bin Mu`adh was an intimate friend of Umaiya bin Khalaf and whenever Umaiya passed through Medina, he used to stay with Sa`d رضی اللہ عنہ , and whenever Sa`d رضی اللہ عنہ went to Mecca, he used to stay with Umaiya. When Allah's Messenger (ﷺ) arrived at Medina, Sa`d رضی اللہ عنہ went to perform `Umra and stayed at Umaiya's home in Mecca. He said to Umaiya, "Tell me of a time when (the Mosque) is empty so that I may be able to perform Tawaf around the Ka`ba." So Umaiya went with him about midday. Abu Jahl met them and said, "O Abu Safwan! Who is this man accompanying you?" He said, "He is Sa`d رضی اللہ عنہ ." Abu Jahl addressed Sa`d رضی اللہ عنہ saying, "I see you wandering about safely in Mecca inspite of the fact that you have given shelter to the people who have changed their religion (i.e. became Muslims) and have claimed that you will help them and support them. By Allah, if you were not in the company of Abu Safwan, you would not be able to go your family safely." Sa`d رضی اللہ عنہ , raising his voice, said to him, "By Allah, if you should stop me from doing this (i.e. performing Tawaf) I would certainly prevent you from something which is more valuable for you, that is, your passage through Medina." On this, Umaiya said to him, "O Sa`d رضی اللہ عنہ do not raise your voice before Abu-l-Hakam, the chief of the people of the Valley (of Mecca)." Sa`d رضی اللہ عنہ said, "O Umaiya, stop that! By Allah, I have heard Allah's Messenger (ﷺ) predicting that the Muslim will kill you." Umaiya asked, "In Mecca?" Sa`d رضی اللہ عنہ said, "I do not know." Umaiya was greatly scared by that news. When Umaiya returned to his family, he said to his wife, "O Um Safwan! Don't you know what Sa`d رضی اللہ عنہ told me? "She said, "What has he told you?" He replied, "He claims that Muhammad has informed them (i.e. companions that they will kill me. I asked him, 'In Mecca?' He replied, 'I do not know." Then Umaiya added, "By Allah, I will never go out of Mecca." But when the day of (the Ghazwa of) Badr came, Abu Jahl called the people to war, saying, "Go and protect your caravan." But Umaiya disliked to go out (of Mecca). Abu Jahl came to him and said, "O Abu Safwan! If the people see you staying behind though you are the chief of the people of the Valley, then they will remain behind with you." Abu Jahl kept on urging him to go until he (i.e. Umaiya) said, "As you have forced me to change my mind, by Allah, I will buy the best camel in Mecca. Then Umaiya said (to his wife). "O Um Safwan, prepare what I need (for the journey)." She said to him, "O Abu Safwan! Have you forgotten what your Yathribi brother told you?" He said, "No, but I do not want to go with them but for a short distance." So when Umaiya went out, he used to tie his camel wherever he camped. He kept on doing that till Allah caused him to be killed at Badr.
وہ امیہ بن خلف کے ( جاہلیت کے زمانے سے ) دوست تھے اور جب بھی امیہ مدینہ سے گزرتا تو ان کے یہاں قیام کرتا تھا۔ اسی طرح سعد رضی اللہ عنہ جب مکہ سے گزرتے تو امیہ کے یہاں قیام کرتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو ایک مرتبہ سعد رضی اللہ عنہ مکہ عمرہ کے ارادے سے گئے اور امیہ کے پاس قیام کیا۔ انہوں نے امیہ سے کہا کہ میرے لیے کوئی تنہائی کا وقت بتاؤ تاکہ میں بیت اللہ کا طواف کروں۔ چنانچہ امیہ انہیں دوپہر کے وقت ساتھ لے کر نکلا۔ ان سے ابوجہل کی ملاقات ہو گئی۔ اس نے پوچھا، ابوصفوان! یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ امیہ نے بتایا کہ یہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں۔ ابوجہل نے کہا، میں تمہیں مکہ میں امن کے ساتھ طواف کرتا ہوا نہ دیکھوں۔ تم نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اس خیال میں ہو کہ تم لوگ ان کی مدد کرو گے۔ خدا کی قسم! اگر اس وقت تم، ابوصفوان! امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامتی سے نہیں جا سکتے تھے۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا، اس وقت ان کی آواز بلند ہو گئی تھی کہ اللہ کی قسم! اگر آج تم نے مجھے طواف سے روکا تو میں بھی مدینہ کی طرف سے تمہارا راستہ بند کر دوں گا اور یہ تمہارے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن جائے گا۔ امیہ کہنے لگا، سعد! ابوالحکم ( ابوجہل ) کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو۔ یہ وادی کا سردار ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا، امیہ! اس طرح کی گفتگو نہ کرو۔ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکا ہوں کہ تو ان کے ہاتھوں سے مارا جائے گا۔ امیہ نے پوچھا۔ کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ اس کا مجھے علم نہیں۔ امیہ یہ سن کر بہت گھبرا گیا اور جب اپنے گھر لوٹا تو ( اپنی بیوی سے ) کہا، ام صفوان! دیکھا نہیں سعد میرے متعلق کیا کہہ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا، کیا کہہ رہے ہیں؟ امیہ نے کہا کہ وہ یہ بتا رہے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے انہیں خبر دی ہے کہ کسی نہ کسی دن وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ میں نے پوچھا کیا مکہ میں مجھے قتل کریں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کی مجھے خبر نہیں۔ امیہ کہنے لگا: خدا کی قسم! اب مکہ سے باہر میں کبھی نہیں جاؤں گا۔ پھر بدر کی لڑائی کے موقع پر جب ابوجہل نے قریش سے لڑائی کی تیاری کے لیے کہا اور کہا کہ اپنے قافلہ کی مدد کو چلو تو امیہ نے لڑائی میں شرکت پسند نہیں کی، لیکن ابوجہل اس کے پاس آیا اور کہنے لگا، اے صفوان! تم وادی کے سردار ہو۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ تم ہی لڑائی میں نہیں نکلتے ہو تو دوسرے لوگ بھی نہیں نکلیں گے۔ ابوجہل یوں ہی برابر اس کو سمجھاتا رہا۔ آخر مجبور ہو کر امیہ نے کہا جب نہیں مانتا تو خدا کی قسم ( اس لڑائی کے لیے ) میں ایسا تیز رفتار اونٹ خریدوں گا جس کا ثانی مکہ میں نہ ہو۔ پھر امیہ نے ( اپنی بیوی سے ) کہا، ام صفوان! میرا سامان تیار کر دے۔ اس نے کہا، ابوصفوان! اپنے یثربی بھائی کی بات بھول گئے؟ امیہ بولا، میں بھولا نہیں ہوں۔ ان کے ساتھ صرف تھوڑی دور تک جاؤں گا۔ جب امیہ نکلا تو راستہ میں جس منزل پر بھی ٹھہرنا ہوتا، یہ اپنا اونٹ ( اپنے پاس ہی ) باندھے رکھتا۔ وہ برابر ایسا ہی احتیاط کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قتل کرا دیا۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ـ رضى الله عنه ـ حَدَّثَ عَنْ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، أَنَّهُ قَالَ كَانَ صَدِيقًا لأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَكَانَ أُمَيَّةُ إِذَا مَرَّ بِالْمَدِينَةِ نَزَلَ عَلَى سَعْدٍ، وَكَانَ سَعْدٌ إِذَا مَرَّ بِمَكَّةَ نَزَلَ عَلَى أُمَيَّةَ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ انْطَلَقَ سَعْدٌ مُعْتَمِرًا، فَنَزَلَ عَلَى أُمَيَّةَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ لأُمَيَّةَ انْظُرْ لِي سَاعَةَ خَلْوَةٍ لَعَلِّي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ. فَخَرَجَ بِهِ قَرِيبًا مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ فَلَقِيَهُمَا أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ يَا أَبَا صَفْوَانَ، مَنْ هَذَا مَعَكَ فَقَالَ هَذَا سَعْدٌ. فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ أَلاَ أَرَاكَ تَطُوفُ بِمَكَّةَ آمِنًا، وَقَدْ أَوَيْتُمُ الصُّبَاةَ، وَزَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ تَنْصُرُونَهُمْ وَتُعِينُونَهُمْ، أَمَا وَاللَّهِ لَوْلاَ أَنَّكَ مَعَ أَبِي صَفْوَانَ مَا رَجَعْتَ إِلَى أَهْلِكَ سَالِمًا. فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ وَرَفَعَ صَوْتَهُ عَلَيْهِ أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ مَنَعْتَنِي هَذَا لأَمْنَعَنَّكَ مَا هُوَ أَشَدُّ عَلَيْكَ مِنْهُ طَرِيقَكَ عَلَى الْمَدِينَةِ. فَقَالَ لَهُ أُمَيَّةُ لاَ تَرْفَعْ صَوْتَكَ يَا سَعْدُ عَلَى أَبِي الْحَكَمِ سَيِّدِ أَهْلِ الْوَادِي. فَقَالَ سَعْدٌ دَعْنَا عَنْكَ يَا أُمَيَّةُ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ إِنَّهُمْ قَاتِلُوكَ. قَالَ بِمَكَّةَ قَالَ لاَ أَدْرِي. فَفَزِعَ لِذَلِكَ أُمَيَّةُ فَزَعًا شَدِيدًا، فَلَمَّا رَجَعَ أُمَيَّةُ إِلَى أَهْلِهِ قَالَ يَا أُمَّ صَفْوَانَ، أَلَمْ تَرَىْ مَا قَالَ لِي سَعْدٌ قَالَتْ وَمَا قَالَ لَكَ قَالَ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ، فَقُلْتُ لَهُ بِمَكَّةَ قَالَ لاَ أَدْرِي. فَقَالَ أُمَيَّةُ وَاللَّهِ لاَ أَخْرُجُ مِنْ مَكَّةَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمَ بَدْرٍ اسْتَنْفَرَ أَبُو جَهْلٍ النَّاسَ قَالَ أَدْرِكُوا عِيرَكُمْ. فَكَرِهَ أُمَيَّةُ أَنْ يَخْرُجَ، فَأَتَاهُ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ يَا أَبَا صَفْوَانَ، إِنَّكَ مَتَى مَا يَرَاكَ النَّاسُ قَدْ تَخَلَّفْتَ وَأَنْتَ سَيِّدُ أَهْلِ الْوَادِي تَخَلَّفُوا مَعَكَ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِ أَبُو جَهْلٍ حَتَّى قَالَ أَمَّا إِذْ غَلَبْتَنِي، فَوَاللَّهِ لأَشْتَرِيَنَّ أَجْوَدَ بَعِيرٍ بِمَكَّةَ ثُمَّ قَالَ أُمَيَّةُ يَا أُمَّ صَفْوَانَ جَهِّزِينِي. فَقَالَتْ لَهُ يَا أَبَا صَفْوَانَ وَقَدْ نَسِيتَ مَا قَالَ لَكَ أَخُوكَ الْيَثْرِبِيُّ قَالَ لاَ، مَا أُرِيدُ أَنْ أَجُوزَ مَعَهُمْ إِلاَّ قَرِيبًا. فَلَمَّا خَرَجَ أُمَيَّةُ أَخَذَ لاَ يَنْزِلُ مَنْزِلاً إِلاَّ عَقَلَ بَعِيرَهُ، فَلَمْ يَزَلْ بِذَلِكَ حَتَّى قَتَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِبَدْرٍ.
I never failed to join Allah's Messenger (ﷺ) in any of his Ghazawat except in the Ghazwa of Tabuk. However, I did not take part in the Ghazwa of Badr, but none who failed to take part in it, was blamed, for Allah's Messenger (ﷺ) had gone out to meet the caravans of (Quraish, but Allah caused them (i.e. Muslims) to meet their enemy unexpectedly (with no previous intention) .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے غزوے کئے، میں غزوہ تبوک کے سوا سب میں حاضر رہا۔ البتہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکا تھا لیکن جو لوگ اس غزوے میں شریک نہ ہو سکے تھے، ان میں سے کسی پر اللہ نے عتاب نہیں کیا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے قافلے کو تلاش کرنے کے لیے نکلے تھے۔ ( لڑنے کی نیت سے نہیں گئے تھے ) مگر اللہ تعالیٰ نے ناگہانی مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے بھڑا دیا۔
حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا إِلاَّ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، غَيْرَ أَنِّي تَخَلَّفْتُ عَنْ غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتَبْ أَحَدٌ تَخَلَّفَ عَنْهَا، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُرِيدُ عِيرَ قُرَيْشٍ، حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ.
I witnessed Al-Miqdad bin Al-Aswad رضی اللہ عنہ in a scene which would have been dearer to me than anything had I been the hero of that scene. He (i.e. Al-Miqdad) came to the Prophet (ﷺ) while the Prophet (ﷺ) was urging the Muslims to fight with the pagans. Al-Miqdad said, "We will not say as the People of Moses said: Go you and your Lord and fight you two. (5.27). But we shall fight on your right and on your left and in front of you and behind you." I saw the face of the Prophet (ﷺ) getting bright with happiness, for that saying delighted him.
میں نے مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے ایک ایسی بات سنی کہ اگر وہ بات میری زبان سے ادا ہو جاتی تو میرے لیے کسی بھی چیز کے مقابلے میں زیادہ عزیز ہوتی۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مشرکین پر بددعا کر رہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم وہ نہیں کہیں گے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا کہ جاؤ، تم اور تمہارا رب ان سے جنگ کرو، بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے اور پیچھے جمع ہو کر لڑیں گے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک چمکنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مُخَارِقٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ شَهِدْتُ مِنَ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ مَشْهَدًا، لأَنْ أَكُونَ صَاحِبَهُ أَحَبُّ إِلَىَّ مِمَّا عُدِلَ بِهِ، أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يَدْعُو عَلَى الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ لاَ نَقُولُ كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى {اذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ} وَلَكِنَّا نُقَاتِلُ عَنْ يَمِينِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ وَبَيْنَ يَدَيْكَ وَخَلْفَكَ. فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَشْرَقَ وَجْهُهُ وَسَرَّهُ. يَعْنِي قَوْلَهُ.
On the day of the battle of Badr, the Prophet (ﷺ) said, "O Allah! I appeal to You (to fulfill) Your Covenant and Promise. O Allah! If Your Will is that none should worship You (then give victory to the pagans)." Then Abu Bakr رضی اللہ عنہ took hold of him by the hand and said, "This is sufficient for you." The Prophet came out saying, "Their multitude will be put to flight and they will show their backs." (54.45)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی کے موقع پر فرمایا تھا کہ اے اللہ! میں تیرے عہد اور وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں، اگر تو چاہے ( کہ یہ کافر غالب ہوں تو مسلمانوں کے ختم ہو جانے کے بعد ) تیری عبادت نہ ہو گی۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام لیا اور عرض کیا بس کیجئے، یا رسول اللہ! اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر» ”جلد ہی کفار کی جماعت کو ہار ہو گی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلیں گے۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ بَدْرٍ " اللَّهُمَّ أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ ". فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ فَقَالَ حَسْبُكَ. فَخَرَجَ وَهْوَ يَقُولُ {سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ}
The believers who failed to join the Ghazwa of Badr and those who took part in it are not equal (in reward). means that those who did not participate in the Battle of Badr cannot be equal to those who participated in the Battle of Badr.
( سورۃ نساء کی اس آیت سے ) «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» جہاد میں شرکت کرنے والے اور اس میں شریک نہ ہونے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ وہ لوگ مراد ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے اور جو اس میں شریک نہیں ہوئے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ، أَنَّهُ سَمِعَ مِقْسَمًا، مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ {لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ} عَنْ بَدْرٍ، وَالْخَارِجُونَ، إِلَى بَدْرٍ.
I and Ibn `Umar رضی اللہ عنہما were considered too young to take part in the battle of Badr.
( بدر کی لڑائی کے موقع پر ) مجھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کو نابالغ قرار دے دیا گیا تھا۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ اسْتُصْغِرْتُ أَنَا وَابْنُ، عُمَرَ.
I and Ibn `Umar رضی اللہ عنہما were considered too young (to take part) in the battle of Badr, and the number of the Emigrant warriors were over sixty (men) and the Ansar were over 240.
بدر کی لڑائی میں مجھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو نابالغ قرار دے دیا گیا تھا اور اس لڑائی میں مہاجرین کی تعداد ساٹھ سے کچھ زیادہ تھی اور انصار دو سو چالیسں سے کچھ زیادہ تھے۔
حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ اسْتُصْغِرْتُ أَنَا وَابْنُ عُمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ يَوْمَ بَدْرٍ نَيِّفًا عَلَى سِتِّينَ، وَالأَنْصَارُ نَيِّفًا وَأَرْبَعِينَ وَمِائَتَيْنِ.
The companions of (the Prophet) Muhammad who took part in Badr, told me that their number was that of Saul's (i.e. Talut's) companions who crossed the river (of Jordan) with him and they were over three-hundred-and-ten men. Hadrat Braa رضی اللہ عنہ says: By Allah, none crossed the river with him but a believer. (See Qur'an 2:249)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے جو بدر میں شریک تھے مجھ سے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں ان کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی طالوت علیہ السلام کے ان اصحاب کی تھی جنہوں نے ان کے ساتھ نہر فلسطین کو پار کیا تھا۔ تقریباً تین سو دس۔ براء رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں، اللہ کی قسم! طالوت کے ساتھ نہر فلسطین کو صرف وہی لوگ پار کر سکے تھے جو مومن تھے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ حَدَّثَنِي أَصْحَابُ، مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا أَنَّهُمْ كَانُوا عِدَّةَ أَصْحَابِ طَالُوتَ الَّذِينَ جَازُوا مَعَهُ النَّهَرَ، بِضْعَةَ عَشَرَ وَثَلاَثَمِائَةٍ. قَالَ الْبَرَاءُ لاَ وَاللَّهِ مَا جَاوَزَ مَعَهُ النَّهَرَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ.
We, the Companions of Muhammad used to say that the number of the warriors of Badr was the same as the number of Saul's companions who crossed the river (of Jordan) with him, and none crossed the river with him but a believer, and the were over three-hundred-and-ten men.
ہم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپس میں یہ گفتگو کرتے تھے کہ اصحاب بدر کی تعداد بھی اتنی ہی تھی جتنی اصحاب طالوت کی۔ جنہوں نے آپ کے ساتھ نہر فلسطین پار کی تھی اور ان کے ساتھ نہر کو پار کرنے والے صرف مومن ہی تھے یعنی تین سو دس سے کچھ زیادہ آدمی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ كُنَّا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم نَتَحَدَّثُ أَنَّ عِدَّةَ أَصْحَابِ بَدْرٍ عَلَى عِدَّةِ أَصْحَابِ طَالُوتَ الَّذِينَ جَاوَزُوا مَعَهُ النَّهَرَ، وَلَمْ يُجَاوِزْ مَعَهُ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، بِضْعَةَ عَشَرَ وَثَلاَثَمِائَةٍ.
We used to say that the warriors of Badr were over three-hundred-and-ten, as many as the Taloot's Companions of Saul who crossed the river with him; and none crossed the river with him but a believer.
ہم آپس میں یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ جنگ بدر میں اصحاب بدر کی تعداد بھی تین سو دس سے اوپر، کچھ اوپر تھی، جتنی ان اصحاب طالوت کی تعداد تھی جنہوں نے ان کے ساتھ نہر فلسطین پار کی تھی اور اسے پار کرنے والے صرف ایماندار ہی تھے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ،. وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَصْحَابَ بَدْرٍ ثَلاَثُمِائَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ، بِعِدَّةِ أَصْحَابِ طَالُوتَ الَّذِينَ جَاوَزُوا مَعَهُ النَّهَرَ، وَمَا جَاوَزَ مَعَهُ إِلاَّ مُؤْمِنٌ.
The Prophet (ﷺ) faced the Ka`ba and invoked evil on some people of Quraish, on Shaiba bin Rabi`a, `Utba bin Rabi`a, Al-Walid bin `Utba and Abu Jahl bin Hisham. I bear witness, by Allah, that I saw them all dead in Badr and their corpses had due to heat, and that day was really a scorcher.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف منہ کر کے کفار قریش کے چند لوگوں شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ اور ابوجہل بن ہشام کے حق میں بددعا کی تھی۔ میں اس کے لیے اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ( بدر کے میدان میں ) ان کی لاشیں پڑی ہوئی پائیں۔ سورج نے ان کی لاشوں کو بدبودار کر دیا تھا۔ اس دن بڑی گرمی تھی۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ اسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْكَعْبَةَ فَدَعَا عَلَى نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، عَلَى شَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ. فَأَشْهَدُ بِاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى، قَدْ غَيَّرَتْهُمُ الشَّمْسُ، وَكَانَ يَوْمًا حَارًّا.
On the day of the Battle of Badr, I reached near Abu Jehl while there were still some signs of life in him. So Abu Jahl said to me: Is there anyone better than I amongst the people you have killed?
بدر کی لڑائی میں وہ ابوجہل کے قریب سے گزرے ابھی اس میں تھوڑی سی جان باقی تھی اس نے ان سے کہا اس سے بڑا کوئی اور شخص ہے جس کو تم نے مارا ہے؟
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنَا قَيْسٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه أَنَّهُ أَتَى أَبَا جَهْلٍ وَبِهِ رَمَقٌ يَوْمَ بَدْرٍ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ هَلْ أَعْمَدُ مِنْ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوهُ
The Prophet (ﷺ) said, "Who will go and see what has happened to Abu Jahl?" Ibn Mas`ud went and found that the two sons of 'Afra had struck him fatally (and he was in his last breaths). `Abdullah bin Mas`ud رضی اللہ عنہ said, "Are you Abu Jahl?" And took him by the beard. Abu Jahl said, "Can there be a man superior to one you have killed or one whom his own folk have killed?" Ahmad bin Yousuf' report also contains ''أَنْتَ أَبُو جَهْلٍ'' .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی ہے جو معلوم کرے کہ ابوجہل کا کیا حشر ہوا؟“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ حقیقت حال معلوم کرنے آئے تو دیکھا کے عفراء کے بیٹوں ( معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما ) نے اسے قتل کر دیا ہے اور اس کا جسم ٹھنڈا پڑا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا، کیا تو ہی ابوجہل ہے؟ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی ڈاڑھی پکڑ لی۔ ابوجہل نے کہا، کیا اس سے بھی بڑا کوئی آدمی ہے جسے تم نے آج قتل کر ڈالا ہے؟ یا ( اس نے یہ کہا کہ کیا اس سے بھی بڑا ) کوئی آدمی ہے جسے اس کی قوم نے قتل کر ڈالا ہے؟ احمد بن یونس نے ( اپنی روایت میں ) «أنت» ابوجھل کے الفاظ بیان کئے ہیں۔ یعنی انہوں نے یہ پوچھا، کیا تو ہی ابوجہل ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، أَنَّ أَنَسًا، حَدَّثَهُمْ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ح وَحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " مَنْ يَنْظُرُ مَا صَنَعَ أَبُو جَهْلٍ " فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَوَجَدَهُ قَدْ ضَرَبَهُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّى بَرَدَ قَالَ آأَنْتَ أَبُو جَهْلٍ قَالَ فَأَخَذَ بِلِحْيَتِهِ. قَالَ وَهَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوهُ أَوْ رَجُلٍ قَتَلَهُ قَوْمُهُ? قَالَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ أَنْتَ أَبُو جَهْلٍ.
On the day of Badr, the Prophet (ﷺ) said, "Who will go and see what has happened to Abu Jahl?" Ibn Mas`ud went and found that the two sons of 'Afra had struck him fatally. `Abdullah bin Mas`ud got hold of his beard and said, "'Are you Abu Jahl?" He replied, "Can there be a man more superior to one whom his own folk have killed (or you have killed)?" Hadrat Anas bin Malik رضی اللہ عنہ has also reported the same.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی کے دن فرمایا ”کون دیکھ کر آئے گا کہ ابوجہل کا کیا ہوا؟“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ معلوم کرنے گئے تو دیکھا کے عفراء کے دونوں لڑکوں نے اسے قتل کر دیا تھا اور اس کا جسم ٹھنڈا پڑا ہے۔ انہوں نے اس کی ڈاڑھی پکڑ کر کہا، تو ہی ابوجہل ہے؟ اس نے کہا، کیا اس سے بھی بڑا کوئی آدمی ہے جسے آج اس کی قوم نے قتل کر ڈالا ہے یا ( اس نے یوں کہا کہ ) تم لوگوں نے اسے قتل کر ڈالا ہے؟ مجھ سے ابن مثنیٰ نے بیان کیا، ہم کو معاذ بن معاذ نے خبر دی، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی، اسی طرح آگے حدیث بیان کی۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ : مَنْ يَنْظُرُ مَا فَعَلَ أَبُو جَهْلٍ , فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَوَجَدَهُ قَدْ ضَرَبَهُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّى بَرَدَ , فَأَخَذَ بِلِحْيَتِهِ ، فَقَالَ : أَنْتَ أَبَا جَهْلٍ ، قَالَ : وَهَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلَهُ قَوْمُهُ ؟ أَوْ قَالَ : قَتَلْتُمُوهُ . حَدَّثَنِي ابْنُ الْمُثَنَّى ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، أَخْبَرَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ نَحْوَهُ.
The story of Badr, namely, the narration regarding the sons of 'Afra'.
بدر کے بارے میں عفراء کے دونوں بیٹوں کی حدیث مراد لیتے تھے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ كَتَبْتُ عَنْ يُوسُفَ بْنِ الْمَاجِشُونِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، فِي بَدْرٍ. يَعْنِي حَدِيثَ ابْنَىْ عَفْرَاءَ.
"I shall be the first man to kneel down before (Allah), the Beneficent to receive His judgment on the day of Resurrection (in my favor)." Qais bin Ubad also said, "The following Verse was revealed in their connection:-- "These two opponents believers and disbelievers) Dispute with each other About their Lord." (22.19) Qais said that they were those who fought on the day of Badr, namely, Hamza, `Ali, 'Ubaida or Abu 'Ubaida bin Al-Harith, Shaiba bin Rabi`a, `Utba and Al-Wahd bin `Utba.
قیامت کے دن میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں جھگڑا چکانے کے لیے دو زانو ہو کر بیٹھے گا۔ قیس بن عباد نے بیان کیا کہ انہیں حضرات ( حمزہ، علی اور عبیدہ رضی اللہ عنہم ) کے بارے میں سورۃ الحج کی یہ آیت نازل ہوئی تھی «هذان خصمان اختصموا في ربهم» ”یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اللہ کے بارے میں لڑائی کی۔“ بیان کیا کہ یہ وہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں لڑنے نکلے تھے، مسلمانوں کی طرف سے حمزہ، علی اور عبیدہ یا ابوعبیدہ بن حارث رضوان اللہ علیہم ( اور کافروں کی طرف سے ) شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ تھے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ، حَدَّثَنَا أَبُو مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ قَالَ أَنَا أَوَّلُ، مَنْ يَجْثُو بَيْنَ يَدَىِ الرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. وَقَالَ قَيْسُ بْنُ عُبَادٍ وَفِيهِمْ أُنْزِلَتْ {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ} قَالَ هُمُ الَّذِينَ تَبَارَزُوا يَوْمَ بَدْرٍ حَمْزَةُ وَعَلِيٌّ وَعُبَيْدَةُ أَوْ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْحَارِثِ وَشَيْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ وَعُتْبَةُ وَالْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ.
The following Holy Verse:-- "These two opponents (believers & disbelievers) dispute with each other about their Lord," (22.19) was revealed concerning six men from Quraish, namely, `Ali, Hamza, 'Ubaida bin Al-Harith; Shaiba bin Rabi`a, `Utba bin Rabi`a and Al-Walid bin `Utba.
آیت کریمہ «هذان خصمان اختصموا في ربهم» ”یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اللہ کے بارے میں مقابلہ کیا“ قریش کے چھ شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی ( تین مسلمانوں کی طرف کے یعنی علی، حمزہ اور عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم اور ( تین کفار کی طرف کے یعنی ) شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ نَزَلَتْ {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ} فِي سِتَّةٍ مِنْ قُرَيْشٍ عَلِيٍّ وَحَمْزَةَ وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ.
The following Holy Verse:-- "These two opponents (believers and disbelievers) dispute with each other about their Lord." (22.19) was revealed concerning us.
یہ آیت «هذان خصمان اختصموا في ربهم» ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ ـ كَانَ يَنْزِلُ فِي بَنِي ضُبَيْعَةَ وَهْوَ مَوْلًى لِبَنِي سَدُوسَ ـ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ قَالَ عَلِيٌّ ـ رضى الله عنه فِينَا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ }
These Holy Verses were revealed in connection with those six persons on the day of Badr, and then he reported as per former Hadith.
یہ آیت ( «هذان خصمان اختصموا في ربهم» ) انہیں چھ آدمیوں کے بارے میں، بدر کی لڑائی کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ پہلی حدیث کی طرح راوی نے اسے بھی بیان کیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ـ رضى الله عنه ـ يُقْسِمُ لَنَزَلَتْ هَؤُلاَءِ الآيَاتُ فِي هَؤُلاَءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ. نَحْوَهُ.
The following Holy verse:-- "These two opponents (believers and disbelievers) disputing with each other about their Lord," (22.19) was revealed concerning those men who fought on the day of Badr, namely, Hamza, `Ali, Ubaida bin Al-Harith رضی اللہ عنہم , `Utba and Shaiba----the two sons of Rabi`a-- and Al-Walid bin `Utba.
یہ آیت «هذان خصمان اختصموا في ربهم» ان کے بارے میں اتری جو بدر کی لڑائی میں مقابلے کے لیے نکلے تھے یعنی حمزہ، علی اور عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم ( مسلمانوں کی طرف سے ) اور عتبہ، شیبہ، ربیعہ کےدو بیٹے اور ولید بن عتبہ ( کافروں کی طرف سے ) ۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يُقْسِمُ قَسَمًا إِنَّ هَذِهِ الآيَةَ {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ } نَزَلَتْ فِي الَّذِينَ بَرَزُوا يَوْمَ بَدْرٍ حَمْزَةَ وَعَلِيٍّ وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ وَعُتْبَةَ وَشَيْبَةَ ابْنَىْ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ.
A man asked Al-Bara' رضی اللہ عنہ and I was listening, "Did `Ali رضی اللہ عنہ take part in (the battle of) Badr?" Al-Bara' said, "(Yes). he even met (his enemies) in a duel and was clad in two armors (one over the other).
ایک شخص نے براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور میں سن رہا تھا کہ کیا علی رضی اللہ عنہ بدر کی جنگ میں شریک تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں انہوں نے تو مبارزت کی تھی اور غالب رہے تھے۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَاءَ وَأَنَا أَسْمَعُ، قَالَ أَشَهِدَ عَلِيٌّ بَدْرًا قَالَ بَارَزَ وَظَاهَرَ.
"I had an agreement with Umaiya bin Khalaf (that he would look after my relatives and property in Mecca, and I would look after his relatives and property in Medina)." `Abdur-Rahman then mentioned the killing of Umaiya and his son on the day of Badr, and Bilal said, "Woe to me if Umaiya remains safe (i.e. alive), I will not get delivered (on the Resurrection Day).
امیہ بن خلف سے ( ہجرت کے بعد ) میرا عہد نامہ ہو گیا تھا۔ پھر بدر کی لڑائی کے موقع پر انہوں نے اس کے اور اس کے بیٹے ( علی ) کے قتل کا ذکر کیا۔ بلال نے ( جب اسے دیکھ لیا تو ) کہا کہ اگر آج امیہ بچ نکلا تو میں آخرت میں عذاب سے بچ نہیں سکوں گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ كَاتَبْتُ أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، فَذَكَرَ قَتْلَهُ وَقَتْلَ ابْنِهِ، فَقَالَ بِلاَلٌ لاَ نَجَوْتُ إِنْ نَجَا أُمَيَّةُ.
The Prophet (ﷺ) recited Surat-an-Najm and then prostrated himself, and all who were with him prostrated too. But an old man took a handful of dust and touched his forehead with it saying, "This is sufficient for me. Hadrat Abdullah رضی اللہ عنہ says: " Later on I saw him killed as an infidel.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ مکہ میں ) سورۃ النجم کی تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کیا تو جتنے لوگ وہاں موجود تھے سب سجدہ میں گر گئے۔ سوائے ایک بوڑھے کے کہ اس نے ہتھیلی میں مٹی لے کر اپنی پیشانی پر اسے لگا لیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل ہوا۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَرَأَ {وَالنَّجْمِ} فَسَجَدَ بِهَا، وَسَجَدَ مَنْ مَعَهُ، غَيْرَ أَنَّ شَيْخًا أَخَذَ كَفًّا مِنْ تُرَابٍ فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ فَقَالَ يَكْفِينِي هَذَا. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا.
Az-Zubair رضی اللہ عنہ had three scars caused by the sword, one of which was over his shoulder and I used to insert my fingers in it. He received two of those wounds on the day of Badr and one on the day of Al-Yarmuk. When 'Abdullah bin Zubair was killed, 'Abdul-Malik bin Marwan said to me, "O 'Urwa, do you recognize the sword of Az-Zubair رضی اللہ عنہ ?" I said, "Yes." He said, "What marks does it have?" I replied, "It has a dent in its sharp edge which was caused in it on the day of Badr." 'Abdul- Malik said, "You are right! (i.e. their swords) have dents because of clashing with the regiments of the enemies Then 'Abdul-Malik returned that sword to me (i.e. Urwa). (Hisham, 'Urwa's son said, "We estimated the price of the sword as three-thousand (Dinars) and after that it was taken by one of us (i.e. the inheritors) and I wish I could have had it.")
زبیر رضی اللہ عنہ کے جسم پر تلوار کے تین ( گہرے ) زخموں کے نشانات تھے۔ ایک ان کے مونڈھے پر تھا ( اور اتنا گہرا تھا ) کہ میں بچپن میں اپنی انگلیاں ان میں داخل کر دیا کرتا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ ان میں سے دو زخم بدر کی لڑائی میں آئے تھے اور ایک جنگ یرموک میں۔ عروہ نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو ( حجاج ظالم کے ہاتھوں سے ) شہید کر دیا گیا تو مجھ سے عبدالملک بن مروان نے کہا: اے عروہ! کیا زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار تم پہچانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں، پہچانتا ہوں۔ اس نے پوچھا اس کی نشانی بتاؤ؟ میں نے کہا کہ بدر کی لڑائی کے موقع پر اس کی دھار کا ایک حصہ ٹوٹ گیا تھا، جو ابھی تک اس میں باقی ہے۔ عبدالملک نے کہا کہ تم نے سچ کہا ( پھر اس نے نابغہ شاعر کا یہ مصرع پڑھا ) فوجوں کے ساتھ لڑتے لڑتے ان کی تلوارں کی دھاریں کی جگہ سے ٹوٹ گی ہیں“ پھر عبدالملک نے وہ تلوار عروہ کو واپس کر دی ‘ ہشام نے بیان کیا کہ ہمارا اندازہ تھا کہ اس تلوار کی قیمت تین ہزار درہم تھی۔ وہ تلوار ہمارے ایک عزیز ( عثمان بن عروہ ) نے قیمت دے کر لے لی تھی میری بڑی آرزو تھی کہ کاش! وہ تلوار میرے حصے میں آتی۔
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ كَانَ فِي الزُّبَيْرِ ثَلاَثُ ضَرَبَاتٍ بِالسَّيْفِ، إِحْدَاهُنَّ فِي عَاتِقِهِ، قَالَ إِنْ كُنْتُ لأُدْخِلُ أَصَابِعِي فِيهَا. قَالَ ضُرِبَ ثِنْتَيْنِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَوَاحِدَةً يَوْمَ الْيَرْمُوكِ. قَالَ عُرْوَةُ وَقَالَ لِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ حِينَ قُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ يَا عُرْوَةُ، هَلْ تَعْرِفُ سَيْفَ الزُّبَيْرِ قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ فَمَا فِيهِ قُلْتُ فِيهِ فَلَّةٌ فُلَّهَا يَوْمَ بَدْرٍ. قَالَ صَدَقْتَ. بِهِنَّ فُلُولٌ مِنْ قِرَاعِ الْكَتَائِبِ ثُمَّ رَدَّهُ عَلَى عُرْوَةَ. قَالَ هِشَامٌ فَأَقَمْنَاهُ بَيْنَنَا ثَلاَثَةَ آلاَفٍ، وَأَخَذَهُ بَعْضُنَا، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ أَخَذْتُهُ.