A Jew said to `Umar رضی اللہ عنہ , "O Chief of the Believers, if this verse: 'This day I have perfected your religion for you, completed My favors upon you, and have chosen for you, Islam as your religion.' (5.3) had been revealed upon us, we would have taken that day as an `Id (festival) day." `Umar رضی اللہ عنہ said, "I know definitely on what day this Verse was revealed; it was revealed on the day of `Arafat, on a Friday." Sufyan from Qais and Qais has heard it from Tariq bin Shibah.
ایک یہودی ( کعب احبار اسلام لانے سے پہلے ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ‘ اے امیرالمؤمنین ! اگر ہمارے یہاں سورۃ المائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی کہ ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیااور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا ۔ “ تو ہم اس دن کو عید ( خوشی ) کا دن بنا لیتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی ۔ عرفہ کے دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن تھا ۔ امام بخاری نے کہا یہ روایت سفیان نے مسعر سے سنی ۔ مسعر نے قیس سے سنا اور قیس نے طارق سے ۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ لِعُمَرَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ أَنَّ عَلَيْنَا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ { الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا. فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي لأَعْلَمُ أَىَّ يَوْمٍ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ، نَزَلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ. سَمِعَ سُفْيَانُ مِنْ مِسْعَرٍ وَمِسْعَرٌ قَيْسًا وَقَيْسٌ طَارِقًا.
He heard `Umar رضی اللہ عنہ speaking while standing on the pulpit of the Prophet (ﷺ) in the morning (following the death of the Prophet), when the people had sworn allegiance to Abu Bakr رضی اللہ عنہ . He said the Tashah-hud before Abu Bakr رضی اللہ عنہ , and said, "Amma Ba'du (then after) Allah has chosen for his Apostle what is with Him (Paradise) rather than what is with you (the world). This is that Book (Qur'an) with which Allah guided your Apostle, so stick to it, for then you will be guided on the right path as Allah guided His Apostle with it."
انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے وہ خطبہ سنا جو انہوں نے وفات نبوی کے دوسرے دن پڑھا تھا ۔ جس دن مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کی تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر چڑھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پہلے خطبہ پڑھا پھر کہا ‘ امابعد ! اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے وہ چیز ( آخرت ) پسند کی جو اس کے پاس تھی اس کے بجائے جو تمہارے تھی یعنی دنیا اور یہ کتاب اللہ موجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کو دین وسیدھا راستہ بتلا یا پس اسے تم تھامے رہو تو ہدایت یاب رہو گے ۔ یعنی اس راستے پر رہو گے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلایا تھا ۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ الْغَدَ، حِينَ بَايَعَ الْمُسْلِمُونَ أَبَا بَكْرٍ، وَاسْتَوَى عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَشَهَّدَ قَبْلَ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَاخْتَارَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم الَّذِي عِنْدَهُ عَلَى الَّذِي عِنْدَكُمْ، وَهَذَا الْكِتَابُ الَّذِي هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَكُمْ فَخُذُوا بِهِ تَهْتَدُوا وَإِنَّمَا هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ.
The Prophet (ﷺ) embraced me and said, "O Allah! Teach him (the knowledge of) the Book (Qur'an)."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینے سے لگا یا اور فرمایا اے اللہ ! اسے قرآن کا علم سکھا ۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ضَمَّنِي إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ " اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ ".
"(O people!) Allah makes you self-sufficient or has raised you high with Islam and with Muhammad."
اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ غنی کر دیا ہے یا بلند درجہ کر دیا ہے ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ سَمِعْتُ عَوْفًا، أَنَّ أَبَا الْمِنْهَالِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا بَرْزَةَ، قَالَ إِنَّ اللَّهَ يُغْنِيكُمْ أَوْ نَغَشَكُمْ بِالإِسْلاَمِ وَبِمُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم. قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَعَ هَاهُنَا يُغْنِيكُمْ وَإِنَّمَا هُوَ نَعَشَكُمْ يُنْظَرُ فِي أَصْلِ كِتَابِ الِاعْتِصَامِ.
He wrote to `Abdul Malik bin Marwan, swearing allegiance to him: 'I swear allegiance to you in that I will listen and obey what is in accordance with the Laws of Allah and the Tradition of His Apostle as much as I can.'
وہ اس کی بیعت قبول کرتے ہیں اور یہ لکھا کہ میں تیرا حکم سنوں گا اور مانوں گا بشرطیکہ اللہ کی شریعت اور اس کے رسول کی سنت کے موافق ہو جہاں تک مجھ سے ممکن ہو گا ۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُبَايِعُهُ، وَأُقِرُّ لَكَ بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ، فِيمَا اسْتَطَعْتُ.
Allah's Messenger (ﷺ) said, "I have been sent with 'Jawami-al-Kalim ' (the shortest expression with the widest meaning) and have been made victorious with awe (cast in my enemy's hearts), and while I was sleeping, I saw that the keys of the treasures of the world were placed in my hand." Abu Huraira رضی اللہ عنہ added: Allah's Messenger (ﷺ) has gone, and you people are utilizing those treasures, or digging those treasures out." or said a similar sentence.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے جوامع الکلم ( مختصر الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا ) کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب کے ذریعہ کی گئی اور میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے اس زمین کے خزانوں کی کنجیاں رکھ دی گئیں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو چلے گئے اور تم مزے کر رہے ہو یا اسی جیسا کوئی کلمہ کہا ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي ". قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَنْتُمْ تَلْغَثُونَهَا أَوْ تَرْغَثُونَهَا، أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا.
The Prophet (ﷺ) said, "There was no prophet among the prophets but was given miracles because of which people had security or had belief, but what I was given was the Divine Inspiration which Allah revealed to me. So I hope that my followers will be more than those of any other prophet on the Day of Resurrection."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں ( یعنی معجزات ) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا ( آپ نے فرمایا کہ ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا ۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " مَا مِنَ الأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلاَّ أُعْطِيَ مِنَ الآيَاتِ مَا مِثْلُهُ أُومِنَ ـ أَوْ آمَنَ ـ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَىَّ، فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
I sat with Shaiba in this Mosque (Al-Masjid-Al-Haram), and he said, "`Umar رضی اللہ عنہ once sat beside me here as you are now sitting, and said, 'I feel like distributing all the gold and silver that are in it (i.e., the Ka`ba) among the Muslims'. I said, 'You cannot do that.' `Umar رضی اللہ عنہ said, 'Why?' I said, 'Your two (previous) companions (the Prophet (ﷺ) and Abu Bakr رضی اللہ عنہ ) did not do it. `Umar رضی اللہ عنہ said, 'They are the two persons whom one must follow.'" (See Hadith No. 664, Vol. 2)
اس مسجد ( خانہ کعبہ ) میں ‘ میں شیبہ بن عثمان حجبی ( جو کعبہ کے کلیدبردار تھے ) کے پاس بیٹھا تو انہوں نے کہا کہ جہاں تم بیٹھے ہو ‘ وہیں عمر رضی اللہ عنہ بھی میرے پاس بیٹھے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میرا ارادہ ہے کہ کعبہ میں کسی طرح کا سونا چاندی نہ چھوڑوں اور سب مسلمانوں میں تقسیم کر دوں جو نذر اللہ کعبہ میں جمع ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے ۔ کہاں کیوں ؟ میں نے کہا کہ آپ کے دونوں ساتھیوں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے ایسا نہیں کیا تھا ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ وہ دونوں بزرگ ایسے ہی تھے جن کی اقتداء کرنی ہی چاہیے ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ جَلَسْتُ إِلَى شَيْبَةَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ قَالَ جَلَسَ إِلَىَّ عُمَرُ فِي مَجْلِسِكَ هَذَا فَقَالَ هَمَمْتُ أَنْ لاَ أَدَعَ فِيهَا صَفْرَاءَ وَلاَ بَيْضَاءَ إِلاَّ قَسَمْتُهَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ. قُلْتُ مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ. قَالَ لِمَ. قُلْتُ لَمْ يَفْعَلْهُ صَاحِبَاكَ قَالَ هُمَا الْمَرْآنِ يُقْتَدَى بِهِمَا.
Allah's Messenger (ﷺ) said to us, "Honesty descended from the Heavens and settled in the roots of the hearts of men (faithful believers), and then the Qur'an was revealed and the people read the Qur'an, (and learnt it from it) and also learnt it from the Sunna." Both Qur'an and Sunna strengthened their (the faithful believers') honesty. (See Hadith No. 208)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امانت داری آسمان سے بعض لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اتری ۔ ( یعنی ان کی فطرت میں داخل ہے ) اور قرآن مجید نازل ہوا تو انہوں نے قرآن مجید کا مطلب سمجھا اور سنت کا علم حاصل کیا تو قرآن و حدیث دونوں سے اس ایمانداری کو جو فطرتی تھی پوری قوت مل گئی ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ سَأَلْتُ الأَعْمَشَ فَقَالَ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ، يَقُولُ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَنَّ الأَمَانَةَ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، وَنَزَلَ الْقُرْآنُ فَقَرَءُوا الْقُرْآنَ وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ ".
The best talk (speech) is Allah's Book 'Qur'an), and the best way is the way of Muhammad, and the worst matters are the heresies (those new things which are introduced into the religion); and whatever you have been promised will surely come to pass, and you cannot escape (it).
سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات ( بدعت ) پیدا کرنا ہے ( دین میں ) اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پر وردگار سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے ۔
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، سَمِعْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ، يَقُولُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْىِ هَدْىُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَإِنَّ مَا تُوعَدُونَ لآتٍ، وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ.
We were with the Prophet (ﷺ) when he said (to two men), "I shall judge between you according to Allah's Book (Laws)."
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے آپ نے فرمایا یقیناً میں تمہارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالاَ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ ".
Allah's Messenger (ﷺ) said, "All my followers will enter Paradise except those who refuse." They said, "O Allah's Messenger (ﷺ)! Who will refuse?" He said, "Whoever obeys me will enter Paradise, and whoever disobeys me is the one who refuses (to enter it)."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انکار کون کرے گا ؟ فرمایا کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، إِلاَّ مَنْ أَبَى ". قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَأْبَى قَالَ " مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى ".
Some angels came to the Prophet (ﷺ) while he was sleeping. Some of them said, "He is sleeping." Others said, "His eyes are sleeping but his heart is awake." Then they said, "There is an example for this companion of yours." One of them said, "Then set forth an example for him." Some of them said, "He is sleeping." The others said, "His eyes are sleeping but his heart is awake." Then they said, "His example is that of a man who has built a house and then offered therein a banquet and sent an inviter (messenger) to invite the people. So whoever accepted the invitation of the inviter, entered the house and ate of the banquet, and whoever did not accept the invitation of the inviter, did not enter the house, nor did he eat of the banquet." Then the angels said, "Interpret this example to him so that he may understand it." Some of them said, "He is sleeping.'' The others said, "His eyes are sleeping but his heart is awake." And then they said, "The houses stands for Paradise and the call maker is Muhammad; and whoever obeys Muhammad, obeys Allah; and whoever disobeys Muhammad, disobeys Allah. Muhammad separated the people (i.e., through his message, the good is distinguished from the bad, and the believers from the disbelievers). Similarly, Saeed bin Abu Hilal has reported from Hadrat Jabir that Allah Apostle ﷺ came to us.
فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ( جبرائیل ومیکائیل ) اور آپ سوئے ہوئے تھے ۔ ایک نے کہا کہ یہ سوئے ہوئے ہیں ‘ دوسرے نے کہا کہ ان کی آنکھیں سو رہی ہیں لیکن ان کا دل بیدار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ان صاحب ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ایک مثال ہے پس ان کی مثال بیان کرو ۔ تو ان میں سے ایک کہا کہ یہ سو رہے ہیں ۔ دوسرے نے کہا کہ آنکھ سو رہی ہے اور دل بیدار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور وہاں کھانے کی دعوت کی اور بلانے والے کو بھیجا ‘ پس جس نے بلانے والے کی دعوت قبول کر لی وہ گھر میں داخل ہو گیا اور دسترخوان سے کھایا اور جس نے بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کی وہ گھر میں داخل نہیں ہوا اور دسترخوان سے کھانا نہیں کھا یا‘پھر انہوں نے کہا کہ اس کی ان کے لیے تفسیر کر دو تاکہ یہ سمجھ جائیں ۔ بعض نے کہا کہ یہ تو سوئے ہوئے ہیں لیکن بعض نے کہا کہ آنکھیں سو رہی ہیں لیکن دل بیدار ہے ۔ پھر انہوں نے کہا کہ گھر تو جنت ہے اور بلانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پس جو ان کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی اطاعت کرے گا اور جو ان کی نافرمانی کرے گا وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اور برے لوگوں کے درمیانی فرق کرنے والے ہیں ۔ محمد بن عبادہ کے ساتھ اس حدیث کو قتیبہ بن سعید نے بھی لیث سے روایت کیا ‘ انہوں نے خالد بن یزید مصری سے ‘ انہوں نے سعید بن ابی ہلال سے ‘ انہوں نے جابر سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر بیدار ہوئے ‘ پھر یہی حدیث نقل کی اسے ترمذی نے وصل کیا ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَادَةَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ـ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ـ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ، حَدَّثَنَا أَوْ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ جَاءَتْ مَلاَئِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ نَائِمٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ. فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلاً فَاضْرِبُوا لَهُ مَثَلاً. فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ. فَقَالُوا مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا، وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ. فَقَالُوا أَوِّلُوهَا لَهُ يَفْقَهْهَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ. فَقَالُوا فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ. تَابَعَهُ قُتَيْبَةُ عَنْ لَيْثٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ جَابِرٍ، خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم.
"O the Group of Al-Qurra! Follow the straight path, for then you have taken a great lead (and will be the leaders), but if you divert right or left, then you will go astray far away."
اے قرآن و حدیث پڑھنے والو ! تم اگر قرآن و حدیث پر نہ جمو گے ‘ اھر ادھر دائیں بائیں راستہ لو گے تو بھی گمراہ ہو گے بہت ہی بڑے گمراہ ۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ اسْتَقِيمُوا فَقَدْ سُبِقْتُمْ سَبْقًا بَعِيدًا فَإِنْ أَخَذْتُمْ يَمِينًا وَشِمَالاً، لَقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا.
The Prophet (ﷺ) said, "My example and the example of what I have been sent with is that of a man who came to some people and said, 'O people! I have seen the enemy's army with my own eyes, and I am the naked warner; so protect yourselves!' Then a group of his people obeyed him and fled at night proceeding stealthily till they were safe, while another group of them disbelieved him and stayed at their places till morning when the army came upon them, and killed and ruined them completely So this is the example of that person who obeys me and follows what I have brought (the Qur'an and the Sunna), and the example of the one who disobeys me and disbelieves the truth I have brought."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور جس دعوت کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آئے اور کہے اے قوم ! میں نے ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں ننگ دھڑنگ تو کو ڈرانے والا ہوں ‘ پس بچاؤ کی صورت کرو تو اس قوم کے ایک گروہ نے بات مان لی اور رات کے شروع ہی میں نکل بھاگے اور حفاظت کی جگہ چلے گئے ۔ اس لیے نجات پا گئے لیکن ان کی دوسری جماعت نے جھٹلایا اور اپنی جگہ ہی پر موجود رہے ‘ پھر صبح سویرے ہی دشمن کے لشکر نے انہیں آ لیا اور انہیں ما را اور ان کو برباد کر دیا ۔ توبہ مثال ہے اس کی جو میری اعطاعت کریں اور جو دعوت میں لایا ہوں اس کی پیروی کریں اور اس کی مثال ہے جو میری نافرمانی کریں اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلائیں ۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمًا فَقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَىَّ، وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْعُرْيَانُ فَالنَّجَاءَ. فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ فَأَدْلَجُوا، فَانْطَلَقُوا عَلَى مَهَلِهِمْ فَنَجَوْا، وَكَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ، فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ، فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي، فَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ، وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِي وَكَذَّبَ بِمَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ ".
When Allah's Messenger (ﷺ) died and Abu Bakr رضی اللہ عنہ was elected as a Caliph after him, some of the Arabs reverted to disbelief, `Umar رضی اللہ عنہ said to Abu Bakr رضی اللہ عنہ , "How dare you fight the people while Allah's Messenger (ﷺ) said, 'I have been ordered to fight the people till they say: None has the right to be worshipped but Allah. And whoever says: None has the right to be worshipped but Allah, saves his wealth and his life from me unless he deserves a legal punishment lusty, and his account will be with Allah.' " Abu Bakr رضی اللہ عنہ said, "By Allah, I will fight him who discriminates between Zakat and prayers, for Zakat is the Compulsory right to be taken from the wealth By Allah, if they refuse to give me even a tying rope which they use to give to Allah's Messenger (ﷺ), I would fight them for withholding it." `Umar رضی اللہ عنہ said, "By Allah, It was nothing, except I saw that Allah had opened the chest of Abu Bakr رضی اللہ عنہ to the fight, and I came to know for certain that was the truth." Abu Bakir and Abdullah bin Saleh called Layth "عَنَاقًا" (instead of ``Aqla'' meaning goat kid) and this is more correct.
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا اور عرب کے کئی قبائل پھر گئے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں پس جو شخص اقرار کر لے کہ لا الہٰ الا اللہ تو میری طرف سے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہے ۔ البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے ( مثلاً کسی کا مال مار لے یا کسی کا خون کرے ) اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے ‘ واللہ اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکارپر بھی جنگ کروں گا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر جو میں نے غور کیا مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں لڑائی کی تجویز ڈالی ہے تو میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں ۔ ابو بکیر اور عبداللہ بن صالح نے لیث سے ” عنا قا “ ( بجائے عقلاً کہا یعنی بکری کا بچہ اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ لأَبِي بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ. فَمَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ. عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ، إِلاَّ بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ ". فَقَالَ وَاللَّهِ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالاً كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ. فَقَالَ عُمَرُ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلاَّ أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ. قَالَ ابْنُ بُكَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ عَنِ اللَّيْثِ عَنَاقًا. وَهْوَ أَصَحُّ.
Oyainah bin Hisn bin Hodhaifah visited Badr and stayed with his nephew Hur bin Qais bin Hisn, an intimate Companion of Hadrat Umer رضی اللہ عنہ, for the Quran reads old or young would enjoy would Hadrat Umer's company and were the memebers of his Advisory Committee. So, Oyainahsaid to his nephew: Do you have any access to the Believers' Chief? If it is so, get me the permission to meet him. He said: I will soon get you the permission. Hadrat Ibn-e-Abbas رضی اللہ عنہ states: Oyainah was granted the permission. When he entered,he said: O Ibn-e-Khattab! By Allah!you neither grant us wealth nor pass fair judgement in our affairs. Hadrat Umer رضی اللہ عنہ got so much infuriated that he even intended to pounce upon him but Hurr said: O the Believers' Chief! Allah said to the prophet : '(O Beloved!) Adopt forgiveness and bid to do good and turn away from the ignorant.' And undoubtedly, he is amongst the ignorants. The reporter says: By Allah! When he recited this verse, Hadrat Umer رضی اللہ عنہ did not transgress the command, and he would totally withdraw before Allah's Book.
عیینہ بن حذیفہ بن بدر مدینہ آئے اور اپنے بھتیجے الحر بن قیس بن حصن کے یہاں قیام کیا ۔ الحر بن قیس ان لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے قریب رکھتے تھے ۔ قرآن مجید کے علماء عمر رضی اللہ عنہ کے شریک مجلس و مشورہ رہتے تھے ‘خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان ۔ پھر عیینہ نے اپنے بھتیجے حر سے کہا ‘ بھتیجے ! کیا امیر المؤ منین کے یہاں کچھ رسوخ حاصل ہے کہ تم میرے لیے ان کے یہاں حاضری کی اجازت لے دو ؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے لیے اجازت مانگوں گا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت چاہی ( اور آپ نے اجازت دی ) پھر جب عیینہ مجلس میں پہنچے تو کہا کہ اے ابن خطاب ! واللہ ! تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو ۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے ‘ یہاں تک کہ آپ نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کر لیا ۔ اتنے میں حضرت الحر نے کہا ‘ امیر المؤ منین ! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ” معاف کرنے کا طریقہ اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو “ اور یہ شخص جاہلوں میں سے ہے ۔ پس واللہ ! عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ آیت انہوں نے تلاوت کی تو آپ ٹھنڈے ہو گئے اور عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ اللہ کی کتاب پر فوراً عمل کرتے ۔
حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ، وَكَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ، وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجْلِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولاً كَانُوا أَوْ شُبَّانًا فَقَالَ عُيَيْنَةُ لاِبْنِ أَخِيهِ يَا ابْنَ أَخِي هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الأَمِيرِ فَتَسْتَأْذِنَ لِي عَلَيْهِ قَالَ سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَاسْتَأْذَنَ لِعُيَيْنَةَ فَلَمَّا دَخَلَ قَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ، وَمَا تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ. فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّى هَمَّ بِأَنْ يَقَعَ بِهِ فَقَالَ الْحُرُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} وَإِنَّ هَذَا مِنَ الْجَاهِلِينَ. فَوَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلاَهَا عَلَيْهِ، وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ.
I came to `Aisha رضی اللہ عنہا during the solar eclipse. The people were standing (offering prayer) and she too, was standing and offering prayer. I asked, "What is wrong with the people?" She pointed towards the sky with her hand and said, Subhan Allah!'' I asked her, "Is there a sign?" She nodded with her head meaning, yes. When Allah's Messenger (ﷺ) finished (the prayer), he glorified and praised Allah and said, "There is not anything that I have not seen before but I have seen now at this place of mine, even Paradise and Hell. It has been revealed to me that you people will be put to trial nearly like the trial of Ad-Dajjal, in your graves. As for the true believer or a Muslim (the sub-narrator is not sure as to which of the two (words Asma' رضی اللہ عنہا had said) he will say, 'Muhammad came with clear signs from Allah, and we responded to him (accepted his teachings) and believed (what he said)' It will be said (to him) 'Sleep in peace; we have known that you were a true believer who believed with certainty.' As for a hypocrite or a doubtful person, (the sub-narrator is not sure as to which word Asma' رضی اللہ عنہا said) he will say, 'I do not know, but I heard the people saying something and so I said the same.' "
میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئی ۔ جب سورج گرہن ہوا تھا اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں ۔ میں نے کہا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ( کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں ) تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا سبحان اللہ ! میں نے کہا کوئی نشانی ہے ؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ‘ کوئی چیز ایسی نہیں لیکن میں نے آج اس جگہ سے اسے دیکھ لیا ‘ یہاں تک کہ جنت ودوزخ بھی اور مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں بھی آزمائے جاؤ گے ‘ دجال کے فتنے کے قریب قریب پس مومن یا مسلم مجھے یقین نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا تو وہ ( قبر میں فرشتوں کے سوال پر کہے گا ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئیں اور ہم نے ان کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے ۔ اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو رہو ‘ ہمیں معلوم تھا کہ تم مومن ہو اور منافق یا شک میں مبتلا مجھے یقین نہیں کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا تھا ‘ تو وہ کہے گا ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال پر کہ مجھے معلوم نہیں ‘ میں نے لوگوں کو جو کہتے سنا وہی میں نے بھی بک دیا ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّهَا قَالَتْ أَتَيْتُ عَائِشَةَ حِينَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ، وَالنَّاسُ قِيَامٌ وَهْىَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي فَقُلْتُ مَا لِلنَّاسِ فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا نَحْوَ السَّمَاءِ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللَّهِ. فَقُلْتُ آيَةٌ. قَالَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ نَعَمْ. فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ " مَا مِنْ شَىْءٍ لَمْ أَرَهُ إِلاَّ وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي، حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَأُوحِيَ إِلَىَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ ـ أَوِ الْمُسْلِمُ لاَ أَدْرِي أَىَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ ـ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ فَأَجَبْنَا وَآمَنَّا. فَيُقَالُ نَمْ صَالِحًا عَلِمْنَا أَنَّكَ مُوقِنٌ. وَأَمَّا الْمُنَافِقُ ـ أَوِ الْمُرْتَابُ لاَ أَدْرِي أَىَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ ـ فَيَقُولُ لاَ أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ ".
The Prophet (ﷺ) said, "Leave me as I leave you, for the people who were before you were ruined because of their questions and their differences over their prophets. So, if I forbid you to do something, then keep away from it. And if I order you to do something, then do of it as much as you can."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں تم سے یکسو رہوں تم بھی مجھے چھوڑ دو ( اور سوالات وغیرہ نہ کرو ) کیونکہ تم سے پہلے کی امتیں اپنے ( غیر ضروری ) سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہو گئیں ۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ جس حد تک تم میں طاقت ہو ۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " دَعُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَىْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ ".
The Prophet (ﷺ) said, "The most sinful person among the Muslims is the one who asked about something which had not been prohibited, but was prohibited because of his asking."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متلعق پوچھا جو حرام نہیں تھی اور اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام کر دی گئی ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَىْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ ".
The Prophet (ﷺ) took a room made of date palm leaves mats in the mosque. Allah's Messenger (ﷺ) prayed in it for a few nights till the people gathered (to pray the night prayer (Tarawih) (behind him.) Then on the 4th night the people did not hear his voice and they thought he had slept, so some of them started humming in order that he might come out. The Prophet (ﷺ) then said, "You continued doing what I saw you doing till I was afraid that this (Tarawih prayer) might be enjoined on you, and if it were enjoined on you, you would not continue performing it. Therefore, O people! Perform your prayers at your homes, for the best prayer of a person is what is performed at his home except the compulsory congregational) prayer." (See Hadith No. 229,Vol. 3) (See Hadith No. 134, Vol. 8)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات آنحضرت کی آواز نہیں آئی ۔ لوگوں نے سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں ۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگار نے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائے ‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں ‘ یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے ۔ پس اے لوگو ! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے ۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ، يُحَدِّثُ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيهَا لَيَالِيَ، حَتَّى اجْتَمَعَ إِلَيْهِ نَاسٌ، ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً فَظَنُّوا أَنَّهُ قَدْ نَامَ، فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ " مَا زَالَ بِكُمُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ، حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلاَةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ، إِلاَّ الصَّلاَةَ الْمَكْتُوبَةَ ".
Allah's Messenger (ﷺ) was asked about things which he disliked, and when the people asked too many questions, he became angry and said, "Ask me (any question)." A man got up and said, "O Allah's Apostle! Who is my father?" The Prophet (ﷺ) replied, "Your father is Hudhaifa." Then another man got up and said, "O Allah's Messenger (ﷺ)! Who is my father?" The Prophet (ﷺ) said, "Your father is Salim, Maula Shaiba." When `Umar saw the signs of anger on the face of Allah's Messenger (ﷺ), he said, "We repent to Allah."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کر دیا تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا پوچھو ! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ ! میرے والد کون ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں ۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں ؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں ۔ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بار گاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں ۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ غَضِبَ وَقَالَ " سَلُونِي ". فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبِي قَالَ " أَبُوكَ حُذَافَةُ ". ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبِي فَقَالَ " أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ ". فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْغَضَبِ قَالَ إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
(The clerk of Al-Mughira) Muawiya wrote to Al-Mughira رضی اللہ عنہ 'Write to me what you have heard from Allah's Messenger (ﷺ).' So he (Al-Mughira) wrote to him: Allah's Prophet used to say at the end of each prayer: "La ilaha illalla-h wahdahu la sharika lahu, lahul Mulku, wa lahul Hamdu wa hula ala kulli shai'in qadir. 'Allahumma la mani' a lima a'taita, wala mu'tiya lima mana'ta, wala yanfa'u dhuljadd minkal-jadd." He also wrote to him that the Prophet (ﷺ) used to forbid (1) Qil and Qal (idle useless talk or that you talk too much about others), (2) Asking too many questions (in disputed Religious matters); (3) And wasting one's wealth by extravagance; (4) and to be undutiful to one's mother (5) and to bury the daughters alive (6) and to prevent your favors (benevolence to others (i.e. not to pay the rights of others (7) And asking others for something (except when it is unavoidable).
معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے وہ مجھے لکھئے تو انہوں نے انہیں لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد کہتے تھے ” تنہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ اس کا کوئی شریک نہیں ‘ ملک اسی کا ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ! اے اللہ جو تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی نصیبہ تیرے مقابلہ میں اسے نفع نہیں پہنچا سکے گا اور انہیں یہ بھی لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بےفائدہ بہت سوال کرنے سے منع کرتے تھے اور مال ضائع کرنے سے اور آپ ماؤں کی نافرمانی کرنے سے منع کرتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے اور اپنا حق محفوظ رکھنے اور دوسروں کا حق روکںے سے بھی روکتے تھے ۔
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ وَرَّادٍ، كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ قَالَ كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ اكْتُبْ إِلَىَّ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ " لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهْوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ ". وَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّهُ كَانَ يَنْهَى عَنْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةِ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقُوقِ الأُمَّهَاتِ وَوَأْدِ الْبَنَاتِ وَمَنْعٍ وَهَاتِ.
We were with `Umar رضی اللہ عنہ and he said, "We have been forbidden to undertake a difficult task beyond our capability (i.e. to exceed the religious limits e.g., to clean the inside of the eyes while doing ablution).
ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے (یعنی حد سے تجاوز کرنا، مثلاً وضو کرتے ہوئے آنکھوں کا اندرونی حصہ صاف کرنا)۔ ۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ فَقَالَ نُهِينَا عَنِ التَّكَلُّفِ.
The Prophet (ﷺ) came out after the sun had declined and offered the Zuhr prayer (in congregation). After finishing it with Taslim, he stood on the pulpit and mentioned the Hour and mentioned there would happen great events before it. Then he said, "Whoever wants to ask me any question, may do so, for by Allah, you will not ask me about anything but I will inform you of its answer as long as I am at this place of mine." On this, the Ansar wept violently, and Allah's Messenger (ﷺ) kept on saying, "Ask Me! " Then a man got up and asked, ''Where will my entrance be, O Allah's Messenger (ﷺ)?" The Prophet (ﷺ) said, "(You will go to) the Fire." Then `Abdullah bin Hudhaifa got up and asked, "Who is my father, O Allah's Messenger (ﷺ)?" The Prophet (ﷺ) replied, "Your father is Hudhaifa رضی اللہ عنہ ." The Prophet (ﷺ) then kept on saying (angrily), "Ask me! Ask me!" `Umar رضی اللہ عنہ then knelt on his knees and said, "We have accepted Allah as our Lord and Islam as our religion and Muhammad as an Apostle." Allah's Messenger (ﷺ) became quiet when `Umar رضی اللہ عنہ said that. Then Allah's Messenger (ﷺ) said, "By Him in Whose Hand my life is, Paradise and Hell were displayed before me across this wall while I was praying, and I never saw such good and evil as I have seen today."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی ‘ پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی چیز کے متعلق سوال کرنا چاہے تو سوال کرے ۔ آج مجھ سے جو سوال بھی کرو گے میں اس کا جواب دوں گا جب تک میں اپنی جگہ سے پر ہوں ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر لوگ بہت زیادہ رونے لگے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باربار وہی فرماتے تھے کہ مجھ سے پوچھو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا ‘ میری جگہ کہاں ہے ۔ ( جنت یا جہنم میں ) یا رسول اللہ ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ جہنم میں ۔ پھر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا میرے والد کون ہیں یا رسول اللہ ؟ فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں ۔ بیان کیا کہ پھر آپ مسلسل کہتے رہے کہ مجھ سے پوچھو ‘ مجھ سے پوچھو ‘ آخر میں عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا ‘ ہم اللہ سے رب کی حیثیت سے ‘ اسلام سے دین کی حیثیت سے ‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رسول کی حیثیت سے راضی و خوش ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات کہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے ‘ پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے ‘ ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے کی گئی تھی ( یعنی ان کی تصویریں ) جب میں نماز پڑھ رہا تھا ‘ آج کی طرح میں نے خیرو شر کو نہیں دیکھا ۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ،. وَحَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه. أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ، وَذَكَرَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا أُمُورًا عِظَامًا ثُمَّ قَالَ " مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَىْءٍ فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ، فَوَاللَّهِ لاَ تَسْأَلُونِي عَنْ شَىْءٍ إِلاَّ أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ، مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا ". قَالَ أَنَسٌ فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ، وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَقُولَ " سَلُونِي ". فَقَالَ أَنَسٌ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ أَيْنَ مَدْخَلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ " النَّارُ ". فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ " أَبُوكَ حُذَافَةُ ". قَالَ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ " سَلُونِي سَلُونِي ". فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم رَسُولاً. قَالَ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَىَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ وَأَنَا أُصَلِّي، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ ".