عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں ، ہم ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اس اثنا میں ایک آدمی ہمارے پاس آیا ، جس کے کپڑے بہت ہی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے ، اس پر سفر کے آثار نظر آتے تھے نہ ہم میں سے کوئی اسے جانتا تھا ، حتیٰ کہ وہ دو زانو ہو کر نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے ، اور کہا : محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اسلام کے متعلق مجھے بتائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرو ، زکوۃ ادا کرو ، رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ، ہمیں اس سے تعجب ہوا کہ وہ آپ سے پوچھتا ہے اور آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے ، اس نے کہا : ایمان کے بارے میں مجھے بتائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ کہ تم اللہ پر ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں ، اور یوم آخرت پر ایمان لاؤ اور تم تقدیر کے اچھا اور برا ہونے پر ایمان لاؤ ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ، پھر اس نے کہا ، احسان کے بارے میں مجھے بتائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ سکے تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے ۔‘‘ اس نے کہا، قیامت کے بارے میں مجھے بتائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مسٔول اس کے متعلق سائل سے زیادہ نہیں جانتا ۔‘‘ اس نے کہا ، اس کی نشانیوں کے بارے میں مجھے بتا دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی اور یہ کہ تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، تنگ دست بکریوں کے چرواہوں کو بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر اور ان پر فخر کرتے ہوئے دیکھو گے ۔‘‘ عمرؓ نے فرمایا : پھر وہ شخص چلا گیا ، میں کچھ دیر ٹھہرا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا :’’ عمر ! کیا تم جانتے ہو سائل کون تھا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ جبریل ؑ تھے ، وہ تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے تمہارے پاس تشریف لائے تھے ۔‘‘ رواہ مسلم (۹۳) ۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فأسند رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخْذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ: الْإِسْلَامُ: أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا . قَالَ: صَدَقْتَ. فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ. قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ» . قَالَ صَدَقْتَ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ. قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ» . قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ. قَالَ: «مَا المسؤول عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» . قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا. قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ» . قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ» ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيل أَتَاكُم يعلمكم دينكُمْ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہؓ نے اس حدیث کو کچھ الفاظ کے اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے ، اس حدیث میں ہے :’’ جب تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، بہرے ، گونگے لوگوں کو ملک کے بادشاہ دیکھو گے ، اور یہ (وقوع قیامت) پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے ،،،،،،، ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۵۰ ، ۴۷۷۷) و مسلم
وَرَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَة مَعَ اخْتِلَافٍ وَفِيهِ: وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكْمَ مُلُوكَ الْأَرْضِ فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ. ثُمَّ قَرَأَ: (إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ)
ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ، گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ نماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا ، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۸) و مسلم
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ
ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ایمان کی ستر سے کچھ زائد شاخیں ہیں ان میں سے سب سے افضل یہ کہنا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ اور سب سے ادنی ٰ یہ ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۹) و مسلم
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِيمَانُ بضع وَسَبْعُونَ شُعْبَة فأفضلها: قَول لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَدْنَاهَا: إِمَاطَةُ الْأَذَى عَن الطَّرِيق والحياة شُعْبَة من الايمان
عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو ترک کر دے ۔‘‘ یہ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں ، جبکہ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں : فرمایا کہ کسی آدمی نے نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا ، کون سا مسلمان بہتر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۰) و مسلم
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ» هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ وَلِمُسْلِمٍ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ من لِسَانه وَيَده
انسؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ میں اسے اس کے والد ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۵) و مسلم
وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ»
انسؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص میں تین خصلتیں ہوں اس نے ان کے ذریعے ایمان کی لذت و حلاوت کو پا لیا ، جس کو اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں ، جو شخص کسی سے محض اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہو ، اور جو شخص دوبارہ کافر بننا ، اس کے بعد کہ اللہ نے اسے اس سے بچا لیا ، ایسے ناپسند کرتا ہو جیسے وہ آگ میں ڈالا جانا ناپسند کرتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۲۱) و مسلم
وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ كَمَا يكره أَن يلقى فِي النَّار
عباس بن عبدالمطلبؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص اللہ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا اس نے ایمان کی لذت کو پا لیا ۔‘‘ رواہ مسلم
وَعَن الْعَبَّاس بن عبد الْمطلب قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے ، اس امت کے جس یہودی اور عیسائی نے میرے متعلق سن لیا اور پھر وہ مجھ پر اتارے گئے دین و شریعت پر ایمان لائے بغیر فوت ہو جائے تو وہ جہنمی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يسمع بِي أحدق مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ من أَصْحَاب النَّار» . رَوَاهُ مُسلم
ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تین قسم کے لوگوں کے لیے دو اجر ہیں ، اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا ، مملوک غلام جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا بھی حق ادا کرے ، اور ایک وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو ، وہ اس سے ہم بستری کرتا ہو ، پس وہ اسے آداب سکھائے اور اچھی طرح سے مؤدب بنائے ، اس کو بہترین زیور تعلیم سے آراستہ کرے ۔ پھر اس کو آزاد کر دے اور اس کے بعد اس سے شادی کر لے تو اس کے لئے دو اجر ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۹۷ والادب المفرد : ۲۰۳) و مسلم
وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمِهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ
ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مجھے لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ حتیٰ کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اور وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں ، جب ان کا یہ طرز عمل ہو گا تو انہوں نے حدودِ اسلام کے علاوہ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو مجھ سے بچا لیا ، اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ البتہ امام مسلم نے ’’حدود اسلام ‘‘ کا ذکر نہیں کیا ۔ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۲۵) و مسلم
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَق الْإِسْلَام وحسابهم على الله. إِلَّا أَنَّ مُسْلِمًا لَمْ يَذْكُرْ» إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَام
انسؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص ہماری نماز کی طرح نماز پڑھے ، ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ ایسا مسلمان ہے جسے اللہ اور اس کے رسول کی امان حاصل ہے ، سو تم اللہ کی امان اور ذمہ کو نہ توڑو ۔‘‘ رواہ البخاری (۳۹۱) ۔
وَعَن أنس أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذمَّته» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا ، مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ آپ نے فرمایا :’’ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرو ، فرض نماز قائم کرو ۔ فرض زکوۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو ۔‘‘ اس نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا ، جب وہ چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص کو پسند ہو کہ وہ جنتی شخص کو دیکھے تو وہ اسے دیکھ لے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۳۹۷) و مسلم
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَى أَعْرَابِيٌّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ. قَالَ: «تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ» . قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا شَيْئًا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ. فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجنَّة فَلْينْظر إِلَى هَذَا»
سفیان بن عبداللہ ثقفی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بتائیں کہ میں اس کے متعلق آپ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں ، اور ایک روایت میں ہے ۔ آپ کے سوا کسی سے نہ پوچھوں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کہو میں اللہ پر ایمان لایا ۔ پھر ثابت قدم ہو جاؤ ۔‘‘ رواہ مسلم
وَعَن سُفْيَان بن عبد الله الثَّقَفِيّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قُلْ لِي فِي الْإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ وَفِي رِوَايَةٍ: غَيْرَكَ قَالَ: قُلْ: آمَنْتُ بِاللَّه ثمَّ اسْتَقِم. رَوَاهُ مُسلم
طلحہ بن عبیداللہؓ بیان کرتے ہیں اہل نجد سے پریشان حال بکھرے بالوں والا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ سن رہے تھے لیکن ہم اس کی بات نہیں سمجھ رہے تھے حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوا ، اور وہ اسلام کے متعلق پوچھنے لگا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ دن اور رات میں پانچ نمازیں ۔‘‘ اس نے عرض کیا ، کیا ان کے علاوہ بھی کوئی چیز مجھ پر فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ نہیں ، مگر یہ کہ تم نفل پڑھو ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔’’ اور ماہ رمضان کے روزے ۔‘‘ اس نے پوچھا : کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی چیز لازم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ نہیں ، الا یہ کہ تم نفلی روزہ رکھو ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے زکوۃ کے متعلق بتایا تو اس نے کہا : کیا اس کے علاوہ مجھ پر کوئی چیز فرض ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ نہیں ، الا یہ کہ تم نفلی صدقہ کرو ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں : وہ آدمی یہ کہتے ہوئے واپس چلا گیا : اللہ کی قسم ! میں اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں کروں گا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔’’ اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ کامیاب ہو گیا ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۴۶) و مسلم
وَعَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرُ الرَّأْسِ نَسْمَعُ دَوِيَّ صَوْتِهِ وَلَا نَفَقَهُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ» . فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ فَقَالَ: لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ . قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ: «لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ» . قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ فَقَالَ: لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ. قَالَ: فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفْلح الرجل إِن صدق»
ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں ، کہ جب عبدالقیس کا وفد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔’’ یہ کون لوگ ہیں یا کون سا وفد ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : ہم ربیعہ قبیلہ کے لوگ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قوم یا وفد ! خوش آمدید ، تم کشادہ جگہ آئے اور تم رسوا ہوئے نہ نادم ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم صرف حرمت والے مہینوں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں ، ہمارے اور آپ کے مابین مضر کے کفار کا یہ قبیلہ آباد ہے ، آپ کسی فیصلہ کن امر کے متعلق حکم فرما دیں تاکہ ہم اپنے پچھلے ساتھیوں کو اس کے متعلق بتائیں اور ہم سب اس کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جائیں ۔ اور انہوں نے آپ سے مشروبات کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے چار چیزوں کے متعلق انہیں حکم فرمایا اور چار چیزوں سے انہیں منع فرمایا ، آپ نے ایک اللہ پر ایمان لانے کے متعلق انہیں حکم دیا :’’ فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے سے کیا مراد ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ نماز قائم کرنا ۔ زکوۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ، اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو ۔‘‘ اور آپ نے انہیں چار چیزوں سے منع فرمایا ، آپ نے بڑے مٹکوں ، کدو سے بنے ہوئے پیالوں ، لکڑی سے تراشے ہوئے لگن اور تارکول سے رنگے ہوئے روغنی برتنوں سے منع فرمایا ، اور فرمایا :’’ انہیں یاد رکھو اور اپنے پچھلے ساتھیوں کو ان کے متعلق بتا دو ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں ۔ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۵۳) و مسلم
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ الْقَوْمُ؟ أَوْ: مَنِ الْوَفْدُ؟ قَالُوا: رَبِيعَةُ. قَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ: بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى . قَالُوا: يَا رَسُول الله إِنَّا لَا نستطيع أَن نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فصل نخبر بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا وَنَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ وَسَأَلُوهُ عَنِ الْأَشْرِبَةِ. فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ» وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنِ الْحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ وَقَالَ: «احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ» وَلَفظه للْبُخَارِيّ
عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبکہ آپ کے صحابہ کرام کی ایک جماعت آپ کے اردگرد تھی ۔ فرمایا :’’ تم اس بات پر میری بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناؤ گے ، تم چوری کرو گے نہ زنا کرو گے ، تم اپنی اولاد کو قتل کرو گے نہ اپنی طرف سے کسی پر بہتان لگاؤ گے اور نہ ہی معروف میں نافرمانی کرو گے ، پس تم میں سے جو شخص (یہ عہد) وفا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ، اور جس نے ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کیا اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو اس کے لیے کفارہ ہے ۔ اور جس نے ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کیا پھر اللہ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔ اگر وہ چاہے تو اس سے درگزر فرمائے اور اگر چاہے تو اسے سزا دے ۔‘‘ پس ہم نے اس پر آپ کی بیعت کر لی ۔ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۸) و مسلم
وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: بَايَعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ بِهِ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ إِلَى اللَّهِ: إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِك
ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدالاضحی یا عیدالفطر کے موقع پر عید گاہ کی طرف تشریف لائے تو آپ خواتین کے پاس سے گزرے تو فرمایا :’’ خواتین کی جماعت ! صدقہ کرو ، کیونکہ میں نے جہنم میں تمہاری اکثریت دیکھی ہے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کس وجہ سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو ، میں نے تم سے زیادہ کسی کو دین اور عقل میں نقص رکھنے کے باوجود پختہ رائے مرد کی عقل کو لے جانے والا نہیں پایا ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے دین اور ہماری عقل کا کیا نقصان ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف نہیں ؟‘‘ انہوں نے کہا : جی ہاں ، کیوں نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ اس کی عقل کا نقص ہے ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا جب اسے حیض آتا ہے تو اس وقت وہ نماز اور روزہ ترک نہیں کرتی ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں ، ایسے ہی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ اس کے دین کے نقص میں سے ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۳۰۴) و مسلم
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرجل الحازم من إحداكن قُلْنَ وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَان عقلهَا أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تَصِلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا
ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم نے میری تکذیب کی حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں ، اور اس نے مجھے برا بھلا کہا ، حالانکہ یہ اس کے لائق نہیں تھا ۔ رہا اس کا مجھے جھٹلانا ، تو وہ اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا جیسے اس نے شروع میں مجھے پیدا کیا تھا ، حالانکہ پہلی بار پیدا کرنا میرے لیے دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ؟ اور رہا اس کا مجھے برا بھلا کہنا ، تو وہ اس کا یہ کہنا ہے : اللہ کی اولاد ہے ، حالانکہ میں یکتا ، بے نیاز ہوں جس کی اولاد ہے نہ والدین اور نہ کوئی میرا ہم سر ہے ۔‘‘ رواہ البخاری (۴۹۷۴ ، ۴۹۷۵)
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ كَذبَنِي ابْن آدم وَلم يكن لَهُ ذَلِك وَشَتَمَنِي وَلم يكن لَهُ ذَلِك أما تَكْذِيبه إيَّايَ أَن يَقُول إِنِّي لن أُعِيدهُ كَمَا بَدأته وَأما شَتمه إيَّايَ أَن يَقُول اتخذ الله ولدا وَأَنا الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ وَلَمْ يكن لي كُفؤًا أحد (لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفؤًا أحد) كُفؤًا وكفيئا وكفاء وَاحِد
ابن عباسؓ سے مروی حدیث میں ہے :’’ اور رہا اس کا مجھے گالی دینا ، تو وہ اس کا یہ کہنا ہے : میری اولاد ہے ، حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ میری بیوی ہو یا میری اولاد ہو ۔‘‘ رواہ البخاری (۴۴۸۲) ۔
وَفِي رِوَايَة عَن ابْنِ عَبَّاسٍ: وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ: لِي وَلَدٌ وَسُبْحَانِي أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا
ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ابن آدم زمانے کو گالی دینے کے باعث مجھے تکلیف پہنچاتا ہے ، حالانکہ میں زمانہ ہوں ، تمام معاملات میرے ہاتھ میں ہیں ، میں ہی دن رات کو بدلتا ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۴۸۲۶ ، ۷۴۹۱) و مسلم
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ
ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تکلیف دہ بات سن کر اس پر صبر کرنے والا اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ، وہ اس کے لیے اولاد کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن وہ پھر بھی ان سے درگزر کرتا ہے اور انہیں رزق بہم پہنچاتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۷۳۷۸) و مسلم
وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى يَسْمَعُهُ مِنَ اللَّهِ يَدْعُونَ لَهُ الْوَلَدَ ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ»
معاذ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گدھے پر سوار تھا ، میرے اور آپ کے درمیان صرف پالان کی ایک لکڑی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ معاذ ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ اس شخص کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرتا ہو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ انہیں بشارت نہ دو ورنہ وہ (اس بات پر) توکل کر لیں گے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۲۸۵۶) و مسلم
وَعَن معَاذ رَضِي الله عَنهُ قَالَ كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم على حمَار يُقَال لَهُ عفير فَقَالَ يَا معَاذ هَل تَدْرِي حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرُهُمْ فَيَتَّكِلُوا
انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری پر تھے جبکہ معاذ ؓ آپ کے پیچھے بیٹھے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ معاذ !‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں ۔ آپ نے پھر فرمایا :’’ معاذ !‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں ، آپ نے پھر فرمایا :’’ معاذ !‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں ، تین مرتبہ ایسے ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص صدق دل سے یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، تو اللہ ا س پر جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں اس کے متعلق لوگوں کو نہ بتا دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تب تو وہ توکل کر لیں گے ۔‘‘ پھر معاذ ؓ نے گناہ سے بچنے کے لیے اپنی موت کے قریب اس کے متعلق بتایا ۔
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذٌ رديفه على الرحل قَالَ: «يَا معَاذ بن جبل قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ قَالَ يَا مُعَاذُ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْديك ثَلَاثًا قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاس فيستبشروا قَالَ إِذا يتكلوا وَأخْبر بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا»
ابوذرؓ بیان کرتے ہیں ۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے ۔ میں پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے یہ اقرار کیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ پھر وہ اسی پر فوت ہو گیا ۔ تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ۔‘‘ میں نے پھر عرض کیا ، اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ۔ خواہ ابوذر کو ناگوار ہو ۔‘‘ ابوذرؓ جب یہ حدیث بیان کرتے تو یہ الفاظ بھی بیان کرتے تھے ۔ اگرچہ ابوذر کو ناگوار گزرے ۔ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۵۸۲۷) و مسلم
وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ وَهُوَ نَائِمٌ ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ فَقَالَ: «مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا قَالَ وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَر»