ابوہریرہ ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میں مومنوں کا ان کے نفسوں سے بھی زیادہ حقدار ہوں ، جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر قرض ہو اور اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کوئی چیز بھی نہ چھوڑی ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے اور جس نے کوئی مال چھوڑا ہو تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’ جو شخص قرض یا پسماندگان چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں میں ان کا حامی و مددگار ہوں ۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’ جس نے مال چھوڑا تو اس کے وارثوں کے لیے ہے اور جو شخص بوجھ (یعنی قرض یا اولاد) چھوڑ جائے تو وہ ہماری طرف آئیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَمَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ وَلَمْ يَتْرُكْ وَفَاءً فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ. وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ» . وَفِي رِوَايَة: «من ترك دينا أَو ضيَاعًا فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلَاهُ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ وَمَنْ تَرَكَ كَلًّا فَإِلَيْنَا»
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مقررہ حصے ان کے مستحقین کو دو اور جو باقی بچے وہ (میت کے) قریب ترین مرد (رشتے دار) کا حصہ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذكر»
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مسلمان کافر کا ، اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ»
انس ؓ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قوم کا آزاد کردہ غلام انہی میں سے ہوتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قوم کا بھانجا انہی میں شمار ہوتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔ وَذْکِرَ حَدِیثُ عَائِشَۃَ : ((اِنَّمَا الْوَلَاءُ .....)) فِیْ بَابِ قَبْلَ بَابِ السَّلَمِ وَ سَنَذْکُرُ حَدِیْثَ الْبَرَاءِ : ((الْخَالَۃُ بِمَنْزِلَۃِ الْاُمِّ)) فِیْ بَابِ بُلُوْعِ الصَّغِیْرِ وَ حَضَانَتِہِ اِنْ شَاءَ اللہُ تَعَالیٰ ۔ عائشہ ؓ سے مروی حدیث : ((اِنَّمَا الْوَلَاءُ .....)) باب السلم سے پہلے باب میں ذکر ہو چکی ہے ، اور براء ؓ سے مروی حدیث :’’ خالہ ، ماں کے مقام پر ہوتی ہے ۔‘‘ ہم باب بلوغ الصغیر و حضانتہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ ذکر کریں گے ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُم» وَذُكِرَ حَدِيثُ عَائِشَةَ: «إِنَّمَا الْوَلَاءُ» فِي بَابٍ قبل «بَاب السّلم»
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ دو مختلف دین کے حامل افراد باہم وارث نہیں ہو سکتے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ شَتَّى» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْن مَاجَه
امام ترمذی نے اسے جابر ؓ سے روایت کیا ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
وَرَوَاهُ التِّرْمِذِيّ عَن جَابر
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قاتل (مقتول کا) وارث نہیں ہو سکتا ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْقَاتِلُ لَا يَرِثُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
بُریدہ ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (میت کی) ماں نہ ہونے کی صورت میں دادی نانی کے لیے چھٹا حصہ مقرر فرمایا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
وَعَنْ بُرَيْدَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ لِلْجَدَّةِ السُّدُسَ إِذَا لَمْ تَكُنْ دونهَا أم. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب بچہ پیدائش کے وقت آواز نکالے (چیخے اور پھر فوت ہو جائے) تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کی وراثت بھی تقسیم ہو گی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا و الحدیث ضعیف ، رواہ ابن ماجہ و الدارمی ۔
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ صُلِّيَ عَلَيْهِ وَورث» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه والدارمي
کثیر بن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قوم کا آزاد کردہ غلام انہیں میں سے ہے ، قوم کا حلیف انہی میں سے ہے اور قوم کا بھانجا انہی میں سے ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الدارمی ۔
وَعَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْهُمْ وَحَلِيفُ الْقَوْمِ مِنْهُمْ وَابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ» . رَوَاهُ الدَّارمِيّ
مقدام ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میں ہر مومن سے خود اس سے بھی زیادہ تعلق رکھتا ہوں ، جو شخص قرض یا پسماندگان چھوڑ جائے تو ان کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ، اور جو شخص مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے ۔ اور جس کا کوئی مولیٰ (حمایتی و مددگار) نہ ہو ۔ اس کا میں مولیٰ ہوں ، اس کے مال کا میں وارث بنوں گا ، اس کے قیدی کو میں چھڑاؤں گا ، جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے ، وہ اس کے مال کا وارث ہو گا اور اس کے قیدی کو چھڑائے گا ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا میں وارث ہوں ، اس کی طرف سے دیت بھی دوں گا اور اس کا وارث بھی بنوں گا ، اور جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا ماموں وارث ہے ، وہ اس کی طرف سے دیت دے گا اور اس کا وارث بنے گا ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
وَعَن الْمِقْدَام قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيْعَةً فَإِلَيْنَا وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ وَأَنَا مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ أَرِثُ مَالَهُ وَأَفُكُّ عَانَهُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ يَرِثُ مَالَهُ وَيَفُكُّ عَانَهُ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «وَأَنَا وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ أَعْقِلُ عَنْهُ وَأَرِثُهُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ يَعْقِلُ عَنْهُ ويرثه» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
واثلہ بن اسقع ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ عورت تین وراثتیں پا سکتی ہے ، اپنے آزاد کیے ہوئے غلام کی ، اپنے پالے ہوئے بچے کی اور اپنے اس بچے کی جس کے متعلق اس نے لعان کیا ہو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
وَعَن وائلة بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَحُوزُ الْمَرْأَةُ ثَلَاثَ مَوَارِيثَ عَتِيقَهَا وَلَقِيطَهَا وَوَلَدَهَا الَّذِي لَاعَنَتْ عَنْهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے کسی آزاد یا غلام عورت سے زنا کیا ، (اور بچہ پیدا ہوا) تو وہ بچہ ، ولد زنا ہے ، وہ (اپنے زانی باپ کا) وارث ہو گا نہ اس کا باپ اس کا وارث ہو گا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَيُّمَا رَجُلٍ عَاهَرَ بِحُرَّةٍ أَوْ أَمَةٍ فَالْوَلَد ولد زنى لَا يَرث وَلَا يُورث» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آزاد کردہ غلام فوت ہو گیا ، اور اس نے کچھ مال چھوڑا ، اور اس نے کوئی قریبی رشہ دار چھوڑا نہ اولاد ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس کی میراث اس کی بستی کے کسی آدمی کو دے دو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ مَوْلًى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَتَرَكَ شَيْئًا وَلَمْ يَدَعْ حَمِيمًا وَلَا وَلَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْطُوا مِيرَاثَهُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ قَرْيَتِهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ
بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، خزاعہ قبیلے کا ایک آدمی فوت ہو گیا تو اس کی میراث نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس کا کوئی وارث یا کوئی رشتہ دار تلاش کرو ۔‘‘ انہوں نے اس کا کوئی وارث پایا نہ کوئی رشتہ دار ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ خزاعہ قبیلے کے کسی عمر رسیدہ شخص کو دے دو ۔‘‘ ابوداؤد ، اور ابوداؤد ہی کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ خزاعہ قبیلے کا کوئی بڑا آدمی دیکھو ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
وَعَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنْ خُزَاعَةَ فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِيرَاثِهِ فَقَالَ: «الْتَمِسُوا لَهُ وَارِثًا أَوْ ذَا رَحِمٍ» فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ وَارِثًا وَلَا ذَا رَحِمٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أعْطوا الْكُبْرَ مِنْ خُزَاعَةَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: قَالَ: «انْظُرُوا أَكْبَرَ رَجُلٍ مِنْ خُزَاعَة»
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو :’’ وصیت پوری کرنے کے بعد جو تم وصیت کرتے ہو یا قرض کی ادائیگی کے بعد ۔‘‘ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرض کو وصیت سے پہلے ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا ، اور سگے بھائی وارث ہوتے ہیں ، سوتیلے بھائی وارث نہیں ہوتے ، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہو گا سوتیلے بھائی کا وارث نہیں ہو گا ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ۔ اور دارمی کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ سگے بھائی (ایک ہی ماں کی اولاد) وارث ہوں گے اور مختلف ماؤں کی اولاد (یعنی سوتیلے بھائی) وارث نہیں ہوں گے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: إِنَّكُمْ تقرؤون هَذِهِ الْآيَةَ: (مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَو دين) وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالدّينِ قبل الْوَصِيَّةِ وَأَنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ الرَّجُلُ يَرِثُ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ دُونَ أَخِيهِ لِأَبِيهِ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَفِي رِوَايَةِ الدَّارِمِيِّ: قَالَ: «الْإِخْوَةُ مِنَ الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ. . .» إِلَى آخِره
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، سعد بن ربیع ؓ کی اہلیہ سعد بن ربیع سے اپنی دونوں بیٹیاں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئی تو عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دونوں سعد بن ربیع ؓ کی بیٹیاں ہیں ، ان کا والد غزوہ احد میں آپ کے ساتھ شریک ہو کر شہید ہو گیا ۔ ان دونوں کے چچا نے ان کا مال لے لیا ہے اور ان کے لیے کوئی مال نہیں چھوڑا ، اگر مال ہو گا تو ان کی شادی ہو جائے گی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس کے متعلق اللہ فیصلہ فرمائے گا ۔‘‘ پس آیتِ میراث نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے چچا کو پیغام بھیجا کہ سعد ؓ کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی دو اور ان دونوں کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو ، اور جو باقی بچے وہ تمہارا ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْهَا مِنْ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا وَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالًا وَلَا تُنْكَحَانِ إِلَّا وَلَهُمَا مَالٌ قَالَ: «يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ» فَنَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا فَقَالَ: «أَعْطِ لِابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غريبٌ
ہُذیل بن شرحبیل بیان کرتے ہیں ، ابوموسیٰ اشعری ؓ سے بیٹی ، پوتی اور بہن کے حصے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : بیٹی کے لیے نصف ، بہن کے لیے نصف ، اور تم ابن مسعود ؓ کے پاس جاؤ وہ بھی میرے موافق فتویٰ دیں گے ، عبداللہ بن مسعود ؓ سے مسئلہ دریافت کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ ابوموسی ؓ نے یہ فتوی دیا ہے ، تو انہوں نے فرمایا : تب تو میں گمراہ ہو گیا ، اور میں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہیں ہوں ، میں اس کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا ، بیٹی کے لیے نصف ، پوتی کے لیے چھٹا حصہ اسی طرح دو تہائی مکمل ہوا اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے ، ہم ابوموسی ؓ کے پاس آئے تو انہیں ابن مسعود ؓ کے فتویٰ کے بارے میں بتایا تو انہوں نے فرمایا : جب تک یہ علاّمہ تم میں موجود ہے مجھ سے مسئلہ نہ پوچھا کرو ۔ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ: سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنِ ابْنَةٍ وَبِنْتِ ابْنٍ وَأُخْتٍ فَقَالَ: للْبِنْت النّصْف وَللْأُخْت النّصْف وائت ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنِي فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَأُخْبِرَ بقول أبي مُوسَى فَقَالَ: لقد ضللت إِذن وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِلْبِنْتِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ» فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ: لَا تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الحبر فِيكُم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا ، میرا پوتا فوت ہو گیا ہے ، اس کی میراث میں میرا کتنا حصہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تمہارے لیے چھٹا حصہ ہے ۔‘‘ جب وہ واپس مڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا :’’ تمہارے لیے ایک اور چھٹا حصہ ہے ۔‘‘ جب وہ واپس مڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا :’’ دوسرا چھٹا حصہ (زیادہ حق دار نہ ہونے کی وجہ سے) تمہارے لیے رزق ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔
وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِن ابْنِي مَاتَ فَمَا لِي مِنْ مِيرَاثِهِ؟ قَالَ: «لَكَ السُّدُسُ» فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ قَالَ: «لَكَ سُدُسٌ آخَرُ» فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ قَالَ: «إِنَّ السُّدُسَ الْآخَرَ طُعْمَةٌ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
قبیصہ بن ذُویب بیان کرتے ہیں ، دادی ، نانی ، ابوبکر ؓ کے پاس آئی اور اس نے اپنی میراث کے بارے میں آپ سے مسئلہ دریافت کیا ، تو انہوں نے اس سے کہا : تمہارے لیے اللہ کی کتاب میں کوئی حصہ ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں ، آپ جائیں حتی کہ میں لوگوں سے پوچھ لوں : انہوں نے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ ؓ نے فرمایا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے اسے (یعنی دادی / نانی کو) چھٹا حصہ دیا ، ابوبکر ؓ نے فرمایا : کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ تو محمد بن مسلمہ نے بھی ویسے ہی کہا جیسے مغیرہ نے کہا تھا ، تو ابوبکر ؓ نے اس (دادی / نانی) کے متعلق اسے نافذ کر دیا ، پھر ایک اور دادی / نانی عمر ؓ کے پاس آئی اور اپنی میراث کے متعلق دریافت کیا ، تو انہوں نے فرمایا : وہ چھٹا حصہ ہی ہے ، اگر تم دونوں اکٹھی ہوں تو وہ تم دونوں کے درمیان تقسیم ہو گا ، اور تم دونوں میں سے جو بھی اکیلی ہو گی تو وہ حصہ اسے ملے گا ۔‘‘ صحیح ، رواہ مالک و احمد و الترمذی و ابوداؤد و الدارمی و ابن ماجہ ۔
وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ: جَاءَتِ الْجَدَّةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا فَقَالَ لَهَا: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ شَيْءٌ وَمَا لَكِ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ فَارْجِعِي حَتَّى أَسْأَلَ النَّاسَ فَسَأَلَ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهَا السُّدُسَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ الله عَنهُ هَل مَعَك غَيره؟ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ مِثْلَ مَا قَالَ الْمُغيرَة فأنفذه لَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثُمَّ جَاءَتِ الْجدّة الْأُخْرَى إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا فَقَالَ: هُوَ ذَلِك السُّدس فَإِن اجْتمعَا فَهُوَ بَيْنَكُمَا وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا. رَوَاهُ مَالِكٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ وَابْن مَاجَه
ابن مسعود ؓ اس دادی کے بارے میں جسے اپنے بیٹے کے ساتھ حصہ ملا ، فرمایا : وہ پہلی دادی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹے کی موجودگی میں چھٹا حصہ عطا کیا جبکہ اس کا بیٹا زندہ تھا ۔ ترمذی ، دارمی ۔ امام ترمذی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ فِي الْجَدَّةِ مَعَ ابْنِهَا: أَنَّهَا أَوَّلُ جَدَّةٍ أَطْعَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُدُسًا مَعَ ابْنِهَا وَابْنُهَا حَيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ ضَعَّفَهُ
ضحاک بن سفیان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے نام خط لکھا کہ اَشیَم الضبابی کی اہلیہ کو اس کے خاوند کی دیت سے میراث دو ۔‘‘ ترمذی ، ابوداؤد ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
وَعَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ سُفْيَانَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَيْهِ: «أَنْ ورث امْرَأَة أَشْيَم الضبابِي مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيح
تمیم داری ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا کہ اہل شرک میں سے اس آدمی کے بارے میں ، جو کسی مسلمان شخص کے ہاتھوں پر اسلام قبول کر لے ، شرعی حکم کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ اس کی حیات و ممات کے بارے میں تمام لوگوں سے زیادہ حق دار ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
وَعَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ: سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا السُّنَةُ فِي الرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ يُسْلِمُ عَلَى يَدَيْ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ؟ فَقَالَ: «هُوَ أَوْلَى النَّاسِ بِمَحْيَاهُ وَمَمَاتِهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی فوت ہو گیا تو اس نے صرف ایک غلام چھوڑا جس کو اس نے آزاد کیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا اس کا کوئی وارث ہے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : نہیں ، صرف وہ ایک غلام ہے جسے اس نے آزاد کیا تھا ، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی میراث اس کو دے دی ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و الترمذی و ابن ماجہ ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلًا مَاتَ وَلَمْ يَدَعْ وَارِثًا إِلَّا غُلَامًا كَانَ أَعْتَقَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ لَهُ أَحَدٌ؟» قَالُوا: لَا إِلَّا غُلَامٌ لَهُ كَانَ أَعْتَقَهُ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِيرَاثَهُ لَهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه