عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو مسلمان شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے ، جان کے بدلے جان (قاتل کو قتل کرنا) شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے والا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالثَّيِّبُ الزَّانِي وَالْمَارِقُ لدينِهِ التَّارِكُ للجماعةِ
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مومن اپنے دین میں بڑھتا رہتا ہے جب تک کہ کسی حرام خون کا ارتکاب نہ کرے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ يَزَالَ الْمُؤْمِنُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِينِهِ مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاء»
مقدام بن اسود ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں اگر میرا کسی کافر شخص سے مقابلہ ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جائیں اور وہ تلوار کے ذریعے مجھ پر وار کرے اور میرے ایک ہاتھ کو کاٹ ڈالے ، پھر وہ مجھ سے بچنے کے لیے ایک درخت کے پیچھے چھپ جائے اور کہے میں اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں ، اور ایک روایت میں ہے : جب میں نے اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا :’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ تو کیا اس کے کلمہ پڑھنے کے بعد میں اسے قتل کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسے قتل نہ کرو ۔‘‘ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس نے میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا ، (اس کا کیا بنے گا ؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسے قتل نہ کرو اگر تم نے اسے قتل کیا تو وہ تیرے مقام و مرتبہ پر آ جائے گا جو کہ قتل کرنے سے پہلے تیرا تھا ، اور تم اس کے مقام و مرتبہ پر ہو جاؤ گے جو کلمہ پڑھنے سے پہلے اس کا تھا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنَ الْكُفَّارِ فَاقْتَتَلْنَا فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ فقطعهما ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ وَفِي رِوَايَةٍ: فَلَمَّا أَهْوَيْتُ لِأَقْتُلَهُ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَأَقْتُلُهُ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ: «لَا تَقْتُلْهُ» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَطَعَ إِحْدَى يَدَيَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ»
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہینہ قبیلے کی طرف روانہ فرمایا ، میں ان کے ایک آدمی کے مقابل آیا تو میں نے اس پر نیزے کا وار کرنا چاہا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا ، لیکن میں نے اس پر وار کر کے اسے قتل کر دیا ، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم نے اسے قتل کر دیا حالانکہ اس نے گواہی دے دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس نے تو محض جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم نے کیا اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا ؟‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُنَاسٍ مِنْ جُهَيْنَةَ فَأَتَيْتُ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ فَذَهَبْتُ أَطْعَنُهُ فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَطَعَنْتُهُ فَقَتَلْتُهُ فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: «أقَتلتَه وقدْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا فَعَلَ ذَلِكَ تَعَوُّذًا قَالَ: «فهَلاَّ شقَقتَ عَن قلبه؟»
اور جندب بن عبداللہ بجلی ؓ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب وہ قیامت کے روز ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کے ساتھ آئے گا تو تم اس کا سامنا کس طرح کرو گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات کئی بار فرمائی ۔ رواہ مسلم ۔
وَفِي رِوَايَةِ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟» . قَالَهُ مِرَارًا. رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس نے کسی معاھد (ذمی) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس کی جائے گی ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أربعينَ خَرِيفًا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر مار لیا تو وہ جہنم میں گرتا رہے گا اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔ اور جس نے زہر کے ذریعے خودکشی کی تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا جسے وہ جہنم کی آگ میں پیتا رہے گا ۔ اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ، اور جس نے لوہے (کے کسی آلے) کے ذریعے خودکشی کی تو اس کا ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ جہنم کی آگ میں اسے اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى فِيهَا خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ تَحَسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ فَحَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ يَتَوَجَّأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جهنَّمَ خَالِدا مخلَّداً فِيهَا أبدا»
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس نے اپنا گلا گھونٹ کر خودکشی کی تو وہ جہنم میں بھی گلا گھونٹے گا اور جو نیزہ مار کر خودکشی کرے گا تو وہ جہنم میں بھی اپنے آپ کو نیزہ مارتا رہے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الَّذِي يَخْنُقُ نَفْسَهُ يَخْنُقُهَا فِي النَّارِ وَالَّذِي يَطْعَنُهَا يَطْعَنُهَا فِي النَّارِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
جندب بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جو زخمی ہو گیا تو اس نے بے صبری کا مظاہرہ کیا ، اس نے چھری پکڑی اور اپنا (زخمی) ہاتھ کاٹ ڈالا ، اس کا خون بہتا رہا حتی کہ وہ فوت ہو گیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ میرے بندے نے خود کو قتل کرنے میں مجھ سے جلدی کی اس لیے میں نے اس پر جنت حرام کر دی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ بِهِ جُرْحٌ فجزِعَ فأخذَ سكيّناً فحزَّ بِهَا يَدَهُ فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتَّى مَاتَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: بَادَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ فَحَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجنَّة
جابر ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو طفیل بن عمرو دوسی ؓ نے آپ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک آدمی نے بھی ہجرت کی ، وہ شخص بیمار ہو گیا اور اس نے بے صبری کا مظاہرہ کیا اور اس نے اپنی چھری لی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا جس سے خون بہنے لگا حتی کہ وہ فوت ہو گیا ۔ طفیل بن عمرو ؓ نے اسے خواب میں دیکھا کہ اس کی ہیئت اچھی ہے اور اس نے اپنے ہاتھ ڈھانپ رکھے ہیں ، انہوں نے اس سے پوچھا : تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ تو اس نے کہا : اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف میری ہجرت کی وجہ سے مجھے معاف فرما دیا ، طفیل بن عمرو ؓ نے فرمایا : میں آپ کو ہاتھ ڈھانپے ہوئے کیوں دیکھ رہا ہوں ؟ اس نے کہا : مجھے کہا گیا کہ ہم تمہارے اس حصے کو درست نہیں کریں گے جسے تم نے خود خراب کیا ہے ، طفیل ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں یہ قصہ عرض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! اور اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی معاف فرما ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ جَابِرٍ: أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ عَمْرٍو الدَّوْسِيَّ لَمَّا هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ هَاجَرَ إِلَيْهِ وَهَاجَرَ مَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ فَمَرِضَ فَجَزِعَ فَأَخَذَ مَشَاقِصَ لَهُ فَقَطَعَ بِهَا بَرَاجِمَهُ فَشَخَبَتْ يَدَاهُ حَتَّى مَاتَ فَرَآهُ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فِي مَنَامِهِ وَهَيْئَتُهُ حسنةٌ ورآهُ مغطيّاً يدَيْهِ فَقَالَ لَهُ: مَا صنع بِكُل رَبُّكَ؟ فَقَالَ: غَفَرَ لِي بِهِجْرَتِي إِلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكَ مُغَطِّيًا يَدَيْكَ؟ قَالَ: قِيلَ لِي: لَنْ تصلح مِنْكَ مَا أَفْسَدْتَ فَقَصَّهَا الطُّفَيْلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ وَلِيَدَيْهِ فَاغْفِر» . رَوَاهُ مُسلم
ابوشریح الکعبی ؓ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ خزاعہ (قبیلے والو) ! تم نے ہذیل کے اس مقتول کو قتل کیا ، اور اللہ کی قسم ! میں اس کی دیت ادا کر دیتا ہوں ، جس نے اس کے بعد کسی کو قتل کیا تو اس کے وارثوں کو دو چیزوں کے درمیان اختیار ہے ، اگر وہ پسند کریں تو اسے قتل کریں اور اگر چاہیں تو دیت لے لیں ۔‘‘ اسے ترمذی اور امام شافعی نے روایت کیا ہے اور امام بغوی نے شرح السنہ میں اپنی سند سے روایت کیا ہے اور انہوں نے صراحت کی کہ ابوشریح کی سند سے یہ حدیث صحیحین میں نہیں ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و الشافعی ۔
وَعَن أبي شُرَيحٍ الكعبيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثُمَّ أَنْتُمْ يَا خُزَاعَةُ قَدْ قَتَلْتُمْ هَذَا الْقَتِيلَ مِنْ هُذَيْلٍ وَأَنَا وَاللَّهِ عَاقِلُهُ مَنْ قَتَلَ بَعْدَهُ قَتِيلًا فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ: عَن أَحبُّوا قتلوا وَإِن أَحبُّوا أخذا العقلَ . رَوَاهُ الترمذيُّ وَالشَّافِعِيّ. وَفِي شرح السنَّة بإِسنادِه وَصَرَّحَ: بِأَنَّهُ لَيْسَ فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ أَبِي شُرَيْح وَقَالَ:
اور انہوں (بغوی ؒ) نے فرمایا : ان دونوں (امام بخاری اور امام مسلم) نے ابوہریرہ ؓ سے اسی مفہوم کی روایت نقل کی ہے ۔ متفق علیہ ۔
وَأَخْرَجَاهُ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ يَعْنِي بِمَعْنَاهُ
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا ، اس سے پوچھا گیا ، تمہارے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ؟ کیا فلاں نے ؟ کیا فلاں نے ؟ حتی کہ اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا : ہاں ، اس یہودی کو پیش کیا گیا تو اس نے اعتراف کر لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اس کے سر کو پتھر کے ساتھ کچل دیا گیا ۔ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَنَسٍ: أَنَّ يَهُودِيًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ فَقِيلَ لَهَا: مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا؟ أَفُلَانٌ؟ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا فَجِيءَ بِالْيَهُودِيِّ فَاعْتَرَفَ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ان کی پھوپھی رُبیع ؓ نے انصار کی ایک لونڈی کے سامنے کے دانت توڑ دیے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کا حکم فرمایا تو انس بن مالک ؓ کے پھوپھا انس بن نضر ؓ نے عرض کیا ، اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول ! اس کے دانت نہیں توڑے جائیں گے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ انس ! اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم ہے ۔‘‘ وہ لوگ دیت لینے پر راضی ہو گئے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم اٹھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْهُ قَالَ: كَسَرَتِ الرُّبَيِّعُ وَهِيَ عَمَّةُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَأَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِالْقِصَاصِ فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ عَمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ لَا وَاللَّهِ لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ» فَرَضِيَ الْقَوْمُ وَقَبِلُوا الْأَرْشَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى الله لَأَبَره»
ابوجحیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے علی ؓ سے دریافت کیا ، کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں نہ ہو ؟ انہوں نے فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو پیدا فرمایا ! ہمارے پاس صرف وہی کچھ ہے جو قرآن میں ہے ، البتہ دین کا وہ فہم ہے جو بندے کو اللہ کی کتاب سے عطا کیا جاتا ہے اور جو کچھ صحیفہ میں لکھا ہوا ہے (وہ ہمارے پاس ہے) ۔ میں نے عرض کیا : صحیفہ میں کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا :’’ دیت ، قیدی چھڑانے اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے ، کے متعلق احکامات ۔ رواہ البخاری ۔ اور ابن مسعود ؓ سے مروی حدیث کہ ’’ کسی جان کو ناحق قتل نہ کیا جائے ۔‘‘ کتاب العلم میں ذکر کی گئی ہے ۔
وَعَن أبي جُحيفةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ؟ فَقَالَ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا عِنْدَنَا إِلَّا مَا فِي الْقُرْآنِ إِلَّا فَهْمًا يُعْطَى رَجُلٌ فِي كِتَابِهِ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: الْعَقْلُ وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَذَكَرَ حَدِيثَ ابْنِ مَسْعُودٍ: «لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا» فِي «كتاب الْعلم»
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں پوری دنیا کا تباہ و برباد ہو جانا ایک مسلمان آدمی کے قتل کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے ۔‘‘ ترمذی ، نسائی ۔ اور بعض نے اسے موقوف قرار دیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی و النسائی ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ ووقفَه بعضُهم وَهُوَ الْأَصَح
ابن ماجہ نے اسے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ ۔
وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ
ابوسعید ؓ اور ابوہریرہ ؓ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اگر زمین و آسمان کے تمام باسی ایک مومن کے قتل کرنے میں شریک پائے جائیں تو اللہ ان سب کو چہرے کے بل جہنم میں پھینک دے گا ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے کہا : یہ حدیث غریب ہے ۔ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
وَعَن أبي سعيدٍ وَأبي هريرةَ عَن رسولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَكَبَّهُمُ اللَّهُ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
ابن عباس ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس (قاتل) کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا ۔ اور وہ کہے گا : رب جی ! اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و النسائی و ابن ماجہ ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخُبُ دَمًا يَقُولُ: يَا رَبِّ قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنَ العرشِ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ وَابْن مَاجَه
ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان ؓ نے ’’ یوم الدار ‘‘ (جن دنوں باغیوں نے عثمان ؓ کو محصور کر رکھا تھا) لوگوں کو دیکھ کر فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں : کیا تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے آگاہ نہیں ہو ؟ کہ ’’ کسی مسلمان شخص کا خون تین میں سے کسی ایک وجہ پر درست ہے : شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرنا یا اسلام کے بعد کفر کرنا یا کسی جان کو ناحق قتل کرنا ، اور وہ اس کے باعث قتل کیا جائے گا ۔‘‘ اللہ کی قسم ! میں نے نہ تو دورِ جاہلیت میں زنا کیا اور نہ زمانہ اسلام میں ، میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی اس وقت سے آج تک کبھی مرتد نہیں ہوا ، اور میں نے کسی ایسی جان کو قتل نہیں کیا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، تو پھر تم مجھے کیوں قتل کرتے ہو ؟ ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ۔ اور دارمی میں صرف حدیث کے الفاظ ہیں ۔ صحیح ، رواہ الترمذی و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَشْرَفَ يَوْمَ الدَّارِ فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثلاثٍ: زِنىً بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ كُفْرٌ بَعْدَ إِسْلَامٍ أَوْ قتْلِ نفْسٍ بِغَيْر حق فَقتل بِهِ ؟ فو الله مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ بَايَعْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَتَلْتُ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ فَبِمَ تَقْتُلُونَنِي؟ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وللدارمي لفظ الحَدِيث
ابودرداء ؓ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب تک مومن کسی خونِ حرام کا ارتکاب نہیں کرتا تو وہ اطاعت گزاری اور اعمالِ صالحہ کی بجا آوری میں مستعد رہتا ہے اور جب وہ کسی خون حرام کا ارتکاب کر لیتا ہے تو وہ سستی و تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ مُعْنِقًا صَالِحًا مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا فَإِذَا أَصَابَ دَمًا حَرَامًا بَلَّحَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابودرداءؓ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے بجز اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہو ، اور جس نے عمداً کسی مومن کو قتل کیا ہو ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
وَعَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ إِلَّا مَنْ مَاتَ مُشْرِكًا أَوْ مَنْ يقتُلُ مُؤمنا مُتَعَمدا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
امام نسائی نے اسے معاویہ ؓ سے روایت کیا ہے ۔ صحیح ، رواہ النسائی ۔
وَرَوَاهُ النَّسَائِيّ عَن مُعَاوِيَة
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مساجد میں حدود قائم نہ کی جائیں اور نہ اولاد کا والد سے قصاص لیا جائے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَامُ الْحُدُودُ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَا يُقَادُ بِالْوَلَدِ الْوَالِدُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي