عبداللہ عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میری طرف سے پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی ہو ، بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں ، اور جو شخص عمداً مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ۔‘‘ رواہ البخاری (۳۴۶۱) ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
سمرہ بن جندب اور مغیرہ بن شعبہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص مجھ سے حدیث بیان کرے ، وہ جانتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ بھی جھوٹوں (حدیث وضع کرنے والوں) میں سے ایک ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَن سَمُرَة بن جُنْدُب وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ» . رَوَاهُ مُسلم
معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کے متعلق سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے ، میں تو صرف (علم) تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ (فہم) اللہ عطا کرتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۷۱) و مسلم ۔
وَعَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهِ يُعْطِي»
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ انسان بھی سونے اور چاندی کی کانوں کی طرح ایک کان ہیں ، ان میں سے جو دور جاہلیت میں اچھے تھے ، وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں بشرطیکہ وہ (دین میں) سمجھ بوجھ پیدا کریں ۔‘‘ رواہ مسلم و البخاری (۳۴۹۳ ، ۳۴۹۶) ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النَّاسُ مَعَادِنُ كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا» . رَوَاهُ مُسلم
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ دو قسم کے لوگوں پر رشک کرنا جائز ہے ، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال عطا کیا ، اور پھر اس کو راہ حق میں اسے خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ، اور ایک وہ آدمی جسے اللہ نے حکمت عطا کی اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور اسے (دوسروں کو) سکھاتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۷۳) و مسلم ۔
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ لْحِكْمَة فَهُوَ يقْضِي بهَا وَيعلمهَا)
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین کاموں ، صدقہ جاریہ ، وہ علم جس سے استفادہ کیا جائے اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے ، کے سوا اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أوعلم ينْتَفع بِهِ أوولد صَالح يَدْعُو لَهُ) رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے کسی مومن سے دنیا کی کوئی تکلیف دور کی ، تو اللہ اس سے قیامت کے دن کی کوئی تکلیف دور فرما دے گا ، جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی تو اللہ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرمائے گا ، جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی تو اللہ اس کی دنیا و آخرت میں عیب پوشی فرمائے گا ، اللہ بندے کی مدد فرماتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے ، اور جس شخص نے طلب علم کے لیے کوئی سفر کیا تو اللہ اس وجہ سے اس کے لیے راہ جنت آسان فرما دیتا ہے ، اور جب کچھ لوگ اللہ کے کسی گھر میں اکٹھے ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے ، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ اپنے پاس فرشتوں میں ان کا تذکرہ فرماتا ہے ، اور جس کے عمل نے اسے پیچھے کر دیا تو اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمِنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نسبه» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ روز قیامت سب سے پہلے شہید کا فیصلہ سنایا جائے گا ، اسے پیش کیا جائے گا ، تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا اور وہ ان کا اعتراف کرے گا ، پھر اللہ فرمائے گا : تو نے ان کے بدلے میں (شکر کے طور پر) کیا کیا ؟ وہ عرض کرے گا : میں نے تیری خاطر جہاد کیا حتیٰ کہ مجھے شہید کر دیا گیا ، اللہ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا ، کیونکہ تو نے داد شجاعت حاصل کرنے کے لیے جہاد کیا تھا ، پس وہ کہہ دیا گیا ۔ پھر اس کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا ، اور اسے دوسروں کو سکھایا ، اور قرآن کریم کی تلاوت کی ، اسے بھی پیش کیا جائے گا ، تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا ، وہ ان کا اعتراف کرے گا اللہ پوچھے گا کہ تو نے ان کے بدلے میں کیا کیا ؟ وہ عرض کرے گا : میں نے علم سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا ، اور میں تیری رضا کی خاطر قرآن کی تلاوت کرتا رہا ، اللہ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا ، البتہ تو نے علم اس لیے حاصل کیا تھا کہ تمہیں عالم کہا جائے اور قرآن پڑھا تاکہ تمہیں قاری کہا جائے ، وہ کہہ دیا گیا ، پھر اس کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، اور تیسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال و زر کی جملہ اقسام سے خوب نوازا ہو گا ، اسے پیش کیا جائے گا ، تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا ، وہ انہیں پہچان لے گا ، تو اللہ پوچھے گا : تو نے ان کے بدلے میں کیا کیا ؟ وہ عرض کرے گا : میں نے ان تمام مواقع پر جہاں خرچ کرنا تجھے پسند تھا ، خرچ کیا ، اللہ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا ، تو نے تو اس لیے خرچ کیا کہ تجھے بڑا سخی کہا جائے ، پس وہ کہہ دیا گیا ، پھر اس کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن أول النَّاس يقْضى عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ جَرِيءٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أَمر بِهِ فسحب على وَجهه حَتَّى ألقِي فِي النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعلم ليقال عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ هُوَ قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ هُوَ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ علم کو بندوں کے سینوں سے نہیں نکالے گا بلکہ وہ علماء کی روحیں قبض کر کے علم کو اٹھا لے گا ، حتیٰ کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جہلا کو رئیس بنا لیں گے ، جب ان سے مسئلہ دریافت کیا جائے گا تو وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے ، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو گمراہ کریں گے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۰۰) و مسلم ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فضلوا وأضلوا»
شقیق ؒ بیان کرتے ہیں ، عبداللہ بن مسعود ؓ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے ، کسی آدمی نے ان سے کہا : ابوعبدالرحمن ! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہر روز ہمیں وعظ و نصیحت کیا کریں ، انہوں نے فرمایا : سن لو ! ہر روز وعظ و نصیحت کرنے سے مجھے یہی امر مانع ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں ڈالنا ناپسند کرتا ہوں ، میں وعظ و نصیحت کے ذریعے تمہارا ویسے ہی خیال رکھتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس اندیشے کے پیش نظر کے ہم اکتا نہ جائیں ، ہمارا خیال رکھا کرتے تھے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۶۸) و مسلم ۔
وَعَن شَقِيق: كَانَ عبد الله يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذكرتنا كُلِّ يَوْمٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا
انس ؓ بیان کرتے ہیں ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی گفتگو فرماتے تو آپ ایک جملے کوتین مرتبہ دہراتے حتیٰ کہ اسے سمجھ اور یاد کر لیا جائے ، اور جب آپ کسی قوم کے پاس تشریف لاتے اور انہیں سلام کرنے کا ارادہ فرماتے تو تین مرتبہ سلام کرتے ۔‘‘ رواہ البخاری (۹۵) ۔
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
ابومسعود انصاری ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا : میری سواری ہلاک ہو گئی ہے ، آپ مجھے سواری عنایت فرما دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میرے پاس تو کوئی سواری نہیں ۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اسے ایسے آدمی کے متعلق بتاتا ہوں جو اسے سواری دے دے گا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ خیرو بھلائی کی طرف راہنمائی کرنے والے کو ، اس بھلائی کو سرانجام دینے والے کی مثل اجرو ثواب ملے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عَن أبي مَسْعُود الْأَنْصَارِيِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي أُبْدِعَ بِي فَاحْمِلْنِي فَقَالَ مَا عِنْدِي فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَدُلُّهُ عَلَى مَنْ يَحْمِلُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مثل أجر فَاعله» . رَوَاهُ مُسلم
جریر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم دن کے پہلے پہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک قوم آپ کے پاس آئی ان کے بدن ننگے تھے ، انہوں نے اونی دھاری دار یا عام چادریں پہن رکھی تھیں اور وہ تلواریں حمائل کیے ہوئے تھے ۔ ان میں سے ایک زیادہ تر ، بلکہ سب کے سب مضر قبیلہ کے تھے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر فاقہ کے آثار دیکھے تو غم کی وجہ سے آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا ، آپ گھر تشریف لے گئے پھر باہر آئے ۔ آپ نے بلال ؓ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان دی اور اقامت کہی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر خطبہ ارشاد فرمایا :’’ لوگو ! اپنے رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں نفس واحد سے پیدا فرمایا ، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں کی نسل سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ، اور اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابت داری (کے تعلقات منقطع کرنے) سے ڈرو ، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگران ہے ۔‘‘ اور سورۃ الحشر کی آیت تلاوت فرمائی :’’ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، اور چاہیے کہ ہر متنفس دیکھ لے کہ وہ کل کے لیے کیا کچھ آگے بھیجتا ہے ، اور تم اللہ سے ڈرو ، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔‘‘ پس کسی نے دینار صدقہ کیا ، کسی نے درہم ، کسی نے کپڑا ، کسی نے گندم کا صاع اور کسی نے ایک صاع کھجوریں صدقہ کیں ، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ خواہ کھجور کا ٹکڑا صدقہ کرو ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں : انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی اٹھائے ہوئے آیا قریب تھا کہ اس کا ہاتھ اسے اٹھانے سے عاجز آ جاتا ، بلکہ عاجز ہی آ گیا ، پھر لوگ مسلسل آنے لگے ، حتیٰ کہ میں نے اناج اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے ، حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ چہرہ مبارک کو سونے کی طرح دمکتا ہوا دیکھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا تو اسے اس کا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ملتا ہے ، اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ، اور جس شخص نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کو اس کا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ملتا ہے اور ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَن جرير قَالَ: (كُنَّا فِي صدر النهارعند رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ قَوْمٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ) إِلَى آخَرِ الْآيَةِ (إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رقيبا) وَالْآيَةُ الَّتِي فِي الْحَشْرِ (اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ حَتَّى قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجَزُ عَنْهَا بل قد عجزت قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْء» . رَوَاهُ مُسلم
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص کو ناجائز قتل کیا جاتا ہے تو اس کے قتل کا کچھ حصہ آدم ؑ کے پہلے بیٹے پر ہوتا ہے ، کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ ایجاد کیا تھا ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۳۳۳۵) و مسلم ۔ حدیث معاویۃ ، یأتی (۶۲۷۶) ۔ ہم حدیث معاویہ ؓ ((لا یزال من امتی )) باب ثواب ھذا الامۃ میں ذکر کریں گے ، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ» . وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ مُعَاوِيَةَ: «لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي» فِي بَابِ ثَوَابِ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِنْ شَاءَ الله تَعَالَى
کثیر بن قیس بیان کرتے ہیں ، میں ابودرداء ؓ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا : ابودرداء ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر سے ایک حدیث کی خاطر تمہارے پاس آیا ہوں ، مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (براہ راست) بیان کرتے ہیں ۔ میں کسی اور کام کے لیے نہیں آیا ، انہوں نے بیان کیا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص طلب علم کے لیے سفر کرتا ہے تو اللہ اسے جنت کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے ، فرشتے طالب علم کی رضامندی کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں ، زمین و آسمان کی ہر چیز اور پانی کی گہرائی میں مچھلیاں طالب علم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں ، بے شک عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو باقی ستاروں پر برتری ہے ، بے شک علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں ۔ اور انبیاء علیہم السلام درہم و دینار نہیں چھوڑ کر جاتے بلکہ وہ تو صرف علم چھوڑ کر جاتے ہیں ، پس جس نے اسے حاصل کر لیا اس نے وافر حصہ حاصل کر لیا ۔‘‘ امام ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر ذکر کیا ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ احمد (۵/ ۱۹۶ ح ۲۲۰۵۸) و الترمذی (۲۶۸۲) و ابوداؤد (۳۶۴۱) و ابن ماجہ (۲۲۳) و الدارمی (۱/ ۹۹ ح ۳۴۹) و ابن حبان (۸۰) ۔
عَن كثير بن قيس قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِد دمشق فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ يسْتَغْفر لَهُ من فِي السَّمَوَات وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ وَسَمَّاهُ التِّرْمِذِيُّ قَيْسَ بن كثير
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ، ان میں سے ایک عابد اور دوسرا عالم ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر ہے ۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ بے شک اللہ ، اس کے فرشتے ، زمین و آسمان کی مخلوق حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں ، لوگوں کو خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی (۲۶۸۵) ۔
وَعَن أبي أُمَامَة الْبَاهِلِيّ قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالْآخَرُ عَالِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى معلم النَّاس الْخَيْر» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ حسن غَرِيب
دارمی نے مکحول سے مرسل روایت بیان کی ہے ۔ اور انہوں نے ’’ دو آدمیوں ‘‘ کا ذکر نہیں کیا اور انہوں (مکحول) نے کہا : عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر ہے ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی !’’ اس کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ اور پھر مکمل حدیث بیان کی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۸۸ ح ۲۹۵) ۔
وَرَوَاهُ الدَّارِمِيُّ عَنْ مَكْحُولٍ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ: رَجُلَانِ وَقَالَ: فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: (إِنَّمَا يخْشَى الله من عباده الْعلمَاء) وسرد الحَدِيث إِلَى آخِره
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ بے شک لوگ تمہارے تابع ہیں ، کیونکہ لوگ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے زمین کے اطراف و اکناف سے تمہارے پاس آئیں گے ، پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ خیر و بھلائی کے ساتھ پیش آنا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۶۵۰) و ابن ماجہ (۲۴۹) ۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ فَإِذَا أَتَوْكُمْ فَاسْتَوْصُوا بهم خيرا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ دانائی کی بات ، دانا شخص کی گم شدہ چیز ہے ، پس وہ اسے جہاں پائے تو وہاں وہی اس کا زیادہ حق دار ہے ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ، اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ، اور ابراہیم بن فضل راوی حدیث کے معاملے میں ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی (۲۶۸۷) و ابن ماجہ (۴۱۶۹) ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْحَكِيمِ فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ الْفَضْلِ الرَّاوِي يضعف فِي الحَدِيث
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ایک فقیہ ، شیطان پر ، ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ سخت ہوتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی (۲۶۸۱) و ابن ماجہ (۲۲۲) ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْن مَاجَه)
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے ، کسی ایسے شخص کو ، جو اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو ، پڑھانے والا ، خنزیروں کے گلے میں ہیرے جواہرات اور سونے کے ہار ڈالنے والے کی طرح ہے ۔‘‘ ابن ماجہ ، جبکہ بیہقی نے ((مسلم)) تک شعب الایمان میں روایت کیا ہے ، اور انہوں نے فرمایا : اس حدیث کا متن مشہور ہے جبکہ سند ضعیف ہے ، اور یہ روایت متعدد طریق سے مروی ہے ، لیکن وہ سب ضعیف ہیں ۔ اسنادہ ضعیف جداً و الحدیث ضعیف ، رواہ ابن ماجہ (۲۲۴) و البیھقی فی شعب الایمان (۱۵۴۳) ۔
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غير أَهله كمقلد الْخَنَازِير الْجَوْهَر واللؤلؤ وَالذَّهَبَ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ إِلَى قَوْلِهِ مُسْلِمٍ. وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ مَتْنُهُ مَشْهُورٌ وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ وَقَدْ رُوِيَ من أوجه كلهَا ضَعِيف
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ دو خصلتیں کسی منافق میں اکٹھی نہیں ہو سکتی ، اچھے اخلاق اور دین میں سمجھ بوجھ ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۶۸۴) ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُنَافِقٍ: حُسْنُ سَمْتٍ وَلَا فِقْهٌ فِي الدّين . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص طلب علم کے لیے سفر کرتا ہے تو وہ واپس آنے تک اللہ کی راہ میں رہتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۶۴۷) و الدارمی (لم اجدہ) ۔
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يرجع» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي
سخرہ ازدی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص علم حاصل کرتا ہے تو یہ اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ۔‘‘ امام ترمذی نے اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس روایت میں ابوداود راوی ضعیف ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا موضوع ، رواہ الترمذی (۲۶۴۸) و الدارمی (۱/ ۱۳۹ ح ۵۶۷) ۔
وَعَن سَخْبَرَة الْأَزْدِيّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنْ طَلَبَ الْعِلْمَ كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفُ الْإِسْنَادِ وَأَبُو دَاوُدَ الرَّاوِي يُضَعَّفُ
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مومن خیر (کی باتیں) سن سن کر سیر نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس کی غایت و انتہا جنت ہو جاتی ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی (۲۶۸۶) ابن حبان (۲۳۸۵) و الحاکم (۴/ ۱۳۰) ۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ يَشْبَعَ الْمُؤْمِنُ مِنْ خَيْرٍ يَسْمَعُهُ حَتَّى يَكُونَ مُنْتَهَاهُ الْجنَّة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ