ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ نبوت میں صرف ’’ مبشرات ‘‘ باقی رہ گئے ہیں ۔‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا : مبشرات سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اچھے خواب ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ» قَالُوا: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: «الرُّؤْيَا الصالحةُ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
امام مالک ؒ نے عطاء بن یسار کی روایت کے حوالے سے یہ اضافہ کیا ہے :’’ (وہ خواب) جسے مسلمان شخص دیکھتا ہے ، یا اس کی خاطر (کسی دوسرے شخص کو) دکھایا جاتا ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ مالک ۔
وَزَادَ مَالِكٌ بِرِوَايَةِ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ: «يَرَاهَا الرجل الْمُسلم أَو ترى لَهُ»
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اچھے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ»
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میرا روپ نہیں دھار سکتا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: «من رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي»
ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس نے مجھے دیکھا تو اس نے حق (حقیقت میں مجھے) دیکھا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ رَآنِي فَقَدْ رَأَى الْحَقَّ»
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو وہ مجھے عنقریب حالت بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «من رَآنِي فِي الْمَنَام فيسراني فِي الْيَقَظَةِ وَلَا يَتَمَثَّلُ الشَّيْطَانُ بِي»
ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہیں ، اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہیں ، جب تم میں سے کوئی پسندیدہ چیز دیکھے تو وہ اس کا اظہار اسی سے کرے جسے وہ پسند کرتا ہے ، اور اگر کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو وہ اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور تین بار (اپنی بائیں جانب) تھتکارے اور اس کے متعلق کسی سے بات نہ کرے ، اس طرح وہ اس کے لیے مضر نہیں ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللَّهِ وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ فَلَا يُحَدِّثُ بِهِ إِلَّا مَنْ يُحِبُّ وَإِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَلْيَتْفُلْ ثَلَاثًا وَلَا يُحَدِّثْ بِهَا أحدا فَإِنَّهَا لن تضره»
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی ایک ناپسندیدہ خواب دیکھے تو وہ اپنے بائیں طرف تین بار تھوکے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور وہ جس پہلو پر تھا اسے بدل لے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يَكْرَهُهَا فَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا وَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ثَلَاثًا وَلْيَتَحَوَّلْ عَنْ جَنْبِهِ الَّذِي كانَ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب (قیامت کا) زمانہ قریب آ جائے گا تو قریب نہیں کہ مومن کا خواب جھوٹا ہو گا ، مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ، اور جو چیز نبوت سے ہو وہ جھوٹی نہیں ہوتی ۔‘‘ متفق علیہ ۔ محمد بن سرین بیان کرتے ہیں ، میں کہتا ہوں : خواب تین قسم کے ہیں : نفسیاتی خیال ، شیطان کا ڈرانا اور اللہ کی طرف سے بشارت ۔ لہذا جو شخص کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو وہ اسے کسی سے بیان نہ کرے ، اور کھڑا ہو کر نماز پڑھے ۔ انہوں نے فرمایا : وہ خواب میں طوق دیکھنے کو ناپسند کرتے تھے اور پاؤں میں بیڑیاں انہیں پسند تھیں ، اور کہا جاتا ہے کہ بیڑیوں سے مراد دین پر ثابت قدمی ہے ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ يَكَدْ يَكْذِبُ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ وَرُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ وَمَا كَانَ مِنَ النُّبُوَّةِ فَإِنَّهُ لَا يَكْذِبُ» . قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ: وَأَنَا أَقُولُ: الرُّؤْيَا ثَلَاثٌ: حَدِيثُ النَّفْسِ وَتَخْوِيفُ الشَّيْطَانِ وَبُشْرَى مِنَ اللَّهِ فَمَنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلَا يَقُصَّهُ عَلَى أَحَدٍ وَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ قَالَ: وَكَانَ يُكْرَهُ الْغُلُّ فِي النَّوْمِ وَيُعْجِبُهُمُ الْقَيْدُ وَيُقَال: الْقَيْد ثبات فِي الدّين
امام بخاری ؒ نے فرمایا : اسے قتادہ ، یونس ، ہشیم اور ابو ہلال نے ابن سرین کی سند سے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے ، اور یونس نے کہا : میں فی القید کے الفاظ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے شمار کرتا ہوں ۔ اور امام مسلم ؒ نے فرمایا : مجھے معلوم نہیں کہ وہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں یا ابن سرین کے ہیں اور اسی مثل ایک روایت میں ہے اور اس نے ’’ آپ ناپسند کرتے طوق .....‘‘ سے آخر حدیث تک کے الفاظ حدیث میں داخل کیے ہیں ۔ متفق علیہ ۔
قَالَ البُخَارِيّ: رَوَاهُ قَتَادَة وَيُونُس وَهِشَام وَأَبُو هِلَالٍ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَقَالَ يُونُسُ: لَا أَحْسَبُهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَيْدِ وَقَالَ مُسْلِمٌ: لَا أَدْرِي هُوَ فِي الْحَدِيثِ أَمْ قَالَهُ ابْنُ سِيرِينَ؟ وَفِي رِوَايَةٍ نَحْوُهُ وَأَدْرَجَ فِي الْحَدِيثِ قَوْلَهُ: «وَأَكْرَهُ الْغُلَّ. . .» إِلَى تَمام الْكَلَام
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا ، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرا سر کاٹ دیا گیا ہے ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیے اور فرمایا :’’ جب شیطان کسی سے اس کی نیند میں کھیلے تو وہ لوگوں کو نہ بتائے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَن جَابر قَالَ: جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ رَأْسِي قُطِعَ قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «إِذَا لَعِبَ الشَّيْطَانُ بِأَحَدِكُمْ فِي مَنَامِهِ فَلَا يُحَدِّثْ بِهِ النَّاس» . رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں اور ہمارے پاس ابن طاب کی کھجوریں لائی گئیں ، میں نے یہ تاویل کی کہ دنیا میں ہمارے لیے رفعت ہے اور آخرت میں نیک عاقبت ہمارے لیے ہے ، اور ہمارا دین یقیناً کامل و احسن ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ كَأَنَّا فِي دَارِ عُقْبَةَ بْنِ رَافِعٍ فَأُوتِينَا بِرُطَبٍ مِنْ رُطَبِ ابْنِ طَابٍ فَأَوَّلْتُ أَنَّ الرِّفْعَةَ لَنَا فِي الدُّنْيَا وَالْعَاقِبَةَ فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ دِينَنَا قَدْ طَابَ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوموسی ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے کھجوروں کی سرزمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں ، میرا خیال تھا کہ وہ یمامہ ہے یا ہجر ہے ، لیکن وہ (سر زمین) مدینہ ہے جس کا نام یثرب تھا ، اور میں نے اپنے اسی خواب میں دیکھا کہ میں نے اپنی تلوار ہلائی تو اس کا وسط ٹوٹ گیا ، اس سے مراد وہ ہے جو مومنوں کو غزوۂ احد میں تکلیف اٹھانا پڑی ، پھر میں نے دوبارہ اسے ہلایا تو وہ اپنی پہلی حالت سے بھی بہتر ہو گئی ، اس سے مراد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے (مکہ کی) فتح عطا فرمائی اور مومنوں کو اکٹھا کر دیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ فَذَهَبَ وَهْلِي إِلَى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوْ هَجَرُ فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ: أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ ثُمَّ هَزَزْتُهُ أُخْرَى فعادَ أحسنَ مَا كانَ فإِذا هوَ جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسی اثنا میں کہ میں سو رہا تھا کہ مجھ پر زمین کے خزانے پیش کیے گئے ، میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھ دیے گئے تو وہ مجھ پر گراں گزرے ، پھر میری طرف وحی کی گئی کہ میں انہیں پھونک ماروں ، میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں جاتے رہے ، میں نے ان کی یہ تعبیر کی کہ اس سے مراد وہ دو جھوٹے شخص ہیں ، میں ان کے درمیان ہوں ، ایک (اسود عنسی) صنعاء سے اور ایک (مسیلمہ کذاب) یمامہ سے ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ ان دونوں میں سے ایک مسیلمہ یمامہ کا رہنے والا اور عنسی صنعاء کا رہنے والا ۔‘‘ لیکن میں نے یہ روایت صحیحین میں نہیں پائی اور صاحب الجامع نے اسے ترمذی سے روایت کیا ہے ۔ متفق علیہ و الترمذی ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ بِخَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَ فِي كَفَّيَّ سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ فَكَبُرَا عَلَيَّ فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنِ انْفُخْهُمَا فَنَفَخْتُهُمَا فَذَهَبَا فَأَوَّلْتُهُمَا الْكَذَّابَيْنِ اللَّذَيْنِ أَنَا بَيْنَهُمَا صَاحِبَ صَنْعَاءَ وَصَاحِبَ الْيَمَامَةِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ: «يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا مُسَيْلِمَةُ صَاحِبُ الْيَمَامَةِ وَالْعَنْسِيُّ صَاحِبُ صَنْعَاءَ» لَمْ أَجِدْ هَذِهِ الرِّوَايَةَ فِي (الصَّحِيحَيْنِ) وَذكرهَا صَاحب الْجَامِع عَن التِّرْمِذِيّ
ام علاء انصاریہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے خواب میں عثمان بن مظعون ؓ کے لیے ایک بہتا چشمہ دیکھا ، میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ اس کا عمل ہے جو اس کے لیے جاری کیا گیا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أُمِّ الْعَلَاءِ الْأَنْصَارِيَّةِ قَالَتْ: رَأَيْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ فِي النَّوْمِ عَيْنًا تَجْرِي فَقَصَصْتُهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «ذَلِكِ عَمَلُهُ يُجْرَى لَهُ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
سمرہ بن جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ لیتے تو آپ اپنا رخ انور ہماری طرف کر لیتے اور فرماتے :’’ آج رات تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو وہ اسے بیان کر دیتا ، اور آپ جو اللہ چاہتا ، اس کی تعبیر بیان فرما دیتے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز ہم سے پوچھا :’’ کیا تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟‘‘ ہم نے عرض کیا ، نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ لیکن میں نے آج رات دو آدمی دیکھے ، وہ میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھے ہاتھوں سے پکڑا اور مجھے عرض مقدس کی طرف لے گئے ، وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور ایک کھڑا تھا ، اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک ٹکڑا تھا ، وہ اس کو اس کے جبڑے میں داخل کرتا تھا ، اور اس کو اس کی گدی تک چیر دیتا تھا ، پھر وہ اسی طرح دوسرے جبڑے کے ساتھ کرتا تھا ، اور اتنے میں یہ (پہلا) جبڑا ٹھیک ہو جاتا تھا ، اور وہ اس عمل کو دہراتا تھا ، میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ ان دونوں نے کہا : (آگے) چلو ، ہم چلے حتی کہ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو چت لیٹا ہوا تھا اور ایک آدمی چھوٹا یا بڑا پتھر لیے اس کے سرہانے کھڑا تھا اور وہ اس کے ساتھ اس کے سر کو کچل رہا تھا ، جب وہ اسے مارتا تھا ، تو پتھر لڑھک جاتا تھا ، وہ اسے لینے جاتا لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے اس کا سر پھر ٹھیک ہو جاتا تھا ، اور وہ آدمی اس کے ساتھ پھر ویسے ہی کرتا تھا اور یہ عمل جاری رہتا ہے ، میں نے کہا : یہ کیا ہے ؟ ان دونوں نے کہا : (آگے) چلیں ، ہم چلے حتی کہ تندور جیسے سوراخ کے پاس آئے جس کا اوپر کا حصہ تنگ ہے جبکہ اس کا نچلا حصہ کھلا ہے ، اس کے نیچے آگ جل رہی تھی ، جب وہ اوپر اٹھتی تو اس میں موجود افراد بھی اوپر بلند ہوتے حتی کہ ایسے لگتا کہ وہ اس سے نکل جائیں گے ، اور جب وہ بجھ جاتی تو وہ اس میں واپس آ جاتے اور اس میں مرد اور عورتیں برہنہ تھیں ، میں نے کہا ، یہ کیا ہے ؟ ان دونوں نے کہا : (آگے) چلیں ، ہم چلے حتی کہ ہم خون کی نہر پر پہنچے ، وہاں نہر کے سامنے پتھر ہیں ، وہ شخص جو نہر میں ہے جب وہ باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تھا تو باہر کنارے پر کھڑا آدمی اس کے منہ پر پتھر پھینکتا اور اسے اپنی پہلی جگہ پر پہنچا دیتا ہے ، وہ جب بھی نکلنے کے لیے آتا تھا پھر وہ اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے تو وہ واپس وہیں چلا جاتا تھا ، میں نے کہا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : (آگے) چلیں ، ہم چلے حتی کہ ہم سر سبز و شاداب باغ میں پہنچ گئے ، اس میں ایک بڑا درخت تھا اور اس کے تنے کے پاس ایک عمر رسیدہ شخص اور کچھ بچے تھے ، اور درخت کے قریب ایک آدمی تھا اس کے آگے آگ تھی جسے وہ جلا رہا تھا ، وہ مجھے درخت پر لے گئے ، انہوں نے مجھے درخت کے وسط میں ایک گھر میں داخل کر دیا ، میں نے اس سے خوبصورت گھر کبھی نہیں دیکھا ، اس میں بوڑھے مرد ، نوجوان ، خواتین اور بچے تھے ، پھر وہ مجھے وہاں سے باہر لے آئے اور درخت پر لے چڑھے ، اور مجھے اس سے بھی احسن و افضل گھر میں لے گئے ، اس میں بوڑھے اور جوان تھے ، میں نے ان دونوں سے کہا : تم رات بھر مجھے لیے پھرتے رہے ہو ، لہذا میں نے جو کچھ دیکھا اس کے متعلق مجھے بتاؤ ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! رہا وہ شخص جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کے جبڑے کو چیرا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا شخص تھا ، وہ جھوٹ بیان کرتا تھا ، پھر اس سے نقل کیا جاتا تھا حتی کہ وہ آفاق تک پہنچ جاتا ، آپ نے جو دیکھا وہ روزِ قیامت تک اس کے ساتھ کیا جائے گا ، وہ آدمی جو آپ نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا ، یہ وہ شخص تھا جس نے قرآن کا علم سیکھا لیکن اس نے رات کا قیام نہ کیا اور نہ دن کے وقت اس کے مطابق عمل کیا ، آپ نے جو دیکھا اس کے ساتھ یہ سلوک قیامت تک جاری رہے گا ، آپ نے جنہیں سوراخ میں دیکھا وہ زنا کار تھے ، آپ نے جسے نہر میں دیکھا تھا وہ سود خور تھا ، آپ نے درخت کے تنے کے ساتھ جس بزرگ شخص کو دیکھا وہ ابراہیم ؑ تھے اور ان کے اردگرد جو بچے تھے وہ لوگوں کی اولاد تھی ، جو شخص آگ جلا رہا تھا وہ جہنم کا دروغہ مالک تھا ، آپ جس پہلے گھر میں داخل ہوئے تھے وہ عام مومنوں کا گھر تھا ، رہا یہ گھر تو یہ شہداء کا گھر ہے ، میں جبریل ہوں اور یہ میکائیل ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر اٹھائیں ، جب میں نے سر اٹھایا تو میرے اوپر بادلوں کی مانند تھا ، ان دونوں نے کہا : یہ آپ کی منزل ہے ، میں نے کہا : مجھے چھوڑ دو ، میں اپنی منزل میں داخل ہو جاؤں انہوں نے کہا : ابھی آپ کی عمر باقی ہے جو آپ نے مکمل نہیں کی ، جب آپ اسے مکمل کر لیں گے تو آپ اپنی منزل میں داخل ہو جائیں گے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث ’’ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں مدینہ دکھائی دینا ‘‘ باب حرم المدینۃ میں ذکر کی گئی ہے ۔
وَعَن سُمرةَ بنِ جُندب قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ: «مَنْ رَأَى مِنْكُمُ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا؟» قَالَ: فَإِنْ رَأَى أَحَدٌ قَصَّهَا فَيَقُولُ: مَا شَاءَ اللَّهُ فَسَأَلَنَا يَوْمًا فَقَالَ: «هَلْ رَأَى مِنْكُمْ أَحَدٌ رُؤْيَا؟» قُلْنَا: لَا قَالَ: لَكِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخَذَا بِيَدَيَّ فَأَخْرَجَانِي إِلَى أَرْضٍ مُقَدَّسَةٍ فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ وَرَجُلٌ قَائِمٌ بِيَدِهِ كَلُّوبٌ مِنْ حَدِيدٍ يُدْخِلُهُ فِي شِدْقِهِ فَيَشُقُّهُ حَتَّى يَبْلُغَ قَفَاهُ ثُمَّ يَفْعَلُ بِشِدْقِهِ الْآخَرِ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَلْتَئِمُ شِدْقُهُ هَذَا فَيَعُودُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ. قُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَا: انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ عَلَى قَفَاهُ وَرَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِهِ بِفِهْرٍ أَوْ صَخْرَةٍ يَشْدَخُ بِهَا رَأْسَهُ فَإِذَا ضَرَبَهُ تَدَهْدَهَ الْحَجَرُ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ لِيَأْخُذَهُ فَلَا يَرْجِعُ إِلَى هَذَا حَتَّى يَلْتَئِمَ رَأْسُهُ وَعَادَ رَأْسُهُ كَمَا كَانَ فَعَادَ إِلَيْهِ فَضَرَبَهُ فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَا: انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا إِلَى ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّورِ أَعْلَاهُ ضَيِّقٌ وَأَسْفَلَهُ وَاسِعٌ تَتَوَقَّدُ تَحْتَهُ نَارٌ فَإِذَا ارْتَفَعَتِ ارْتَفَعُوا حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا وَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوا فِيهَا وَفِيهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَا: انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى وَسْطِ النَّهَرِ وَعَلَى شَطِّ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ فَقُلْتُ مَا هَذَا؟ قَالَا: انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ فِيهَا شَجَرَةٌ عَظِيمَةٌ وَفِي أَصْلِهَا شَيْخٌ وَصِبْيَانٌ وَإِذَا رَجُلٌ قَرِيبٌ مِنَ الشجرةِ بَيْنَ يَدَيْهِ نَارٌ يُوقِدُهَا فَصَعِدَا بِيَ الشَّجَرَةَ فأدخلاني دَار أوسطَ الشَّجَرَةِ لَمْ أَرَ قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهَا فِيهَا رِجَالٌ شُيُوخٌ وَشَبَابٌ وَنِسَاءٌ وَصِبْيَانٌ ثُمَّ أَخْرَجَانِي مِنْهَا فصعدا بِي الشَّجَرَة فأدخلاني دَار هِيَ أَحْسَنُ وَأَفْضَلُ مِنْهَا فِيهَا شُيُوخٌ وَشَبَابٌ فَقُلْتُ لَهُمَا: إِنَّكُمَا قَدْ طَوَّفْتُمَانِي اللَّيْلَةَ فَأَخْبِرَانِي عَمَّا رَأَيْتُ قَالَا: نَعَمْ أَمَّا الرَّجُلُ الَّذِي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ فَكَذَّابٌ يُحَدِّثُ بِالْكَذْبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الْآفَاقَ فَيُصْنَعُ بِهِ مَا تَرَى إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ يُشْدَخُ رَأْسُهُ فَرَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَنَامَ عَنْهُ بِاللَّيْلِ وَلَمْ يَعْمَلْ بِمَا فِيهِ بِالنَّهَارِ يُفْعَلُ بِهِ مَا رَأَيْتَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي الثَّقْبِ فَهُمُ الزُّنَاةُ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُ الرِّبَا وَالشَّيْخُ الَّذِي رَأَيْتَهُ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ إِبْرَاهِيمُ وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهُ فَأَوْلَادُ النَّاسِ وَالَّذِي يُوقِدُ النَّارَ مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ وَالدَّارُ الْأُولَى الَّتِي دَخَلْتَ دَارُ عَامَّةِ الْمُؤْمِنِينَ وَأَمَّا هَذِهِ الدَّارُ فَدَارُ الشُّهَدَاءِ وَأَنَا جِبْرِيلُ وَهَذَا مِيكَائِيلُ فَارْفَعْ رَأْسَكَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا فَوْقِي مِثْلُ السَّحَابِ وَفِي رِوَايَةٍ مِثْلُ الرَّبَابَةِ الْبَيْضَاءِ قَالَا: ذَلِكَ مَنْزِلُكَ قُلْتُ: دَعَانِي أَدْخُلْ مَنْزِلِي قَالَا: إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوِ اسْتَكْمَلْتَهُ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ «. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَذَكَرَ حَدِيثَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي رُؤْيَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَدِينَةِ فِي» بَاب حرم الْمَدِينَة
ابو رزین عقیلی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ، جب تک وہ اس کو بیان نہیں کرتا تو وہ پرندے کے پاؤں پر ہے ، لیکن جب وہ اسے بیان کر دیتا ہے تو وہ واقع ہو جاتا ہے ۔‘‘ اور میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسے کسی عزیز دوست یا عقل مند شخص کے سوا کسی اور سے بیان نہ کرو ۔‘‘ ترمذی ۔ اور ابوداؤد کی روایت میں ہے : فرمایا :’’ جب تک خواب کی تعبیر نہ کی جائے تو وہ پرندے کے پاؤں پر ہوتا ہے ، لیکن جب اس کی تعبیر بیان کی جاتی ہے تو وہ واقع ہو جاتا ہے ۔‘‘ اور میرا خیال ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسے کسی عزیز دوست یا عقل مند شخص کے سوا کسی اور سے بیان نہ کر ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
عَن أبي رزين العقيليِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ وَهِيَ عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ يُحَدِّثْ بِهَا فَإِذَا حَدَّثَ بِهَا وَقَعَتْ» . وَأَحْسِبُهُ قَالَ: «لَا تُحَدِّثْ إِلَّا حَبِيبًا أَوْ لَبِيبًا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَفِي رِوَايَةِ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: «الرُّؤْيَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ تُعْبَرْ فَإِذَا عُبِرَتْ وَقَعَتْ» . وَأَحْسِبُهُ قَالَ: «وَلَا تَقُصَّهَا إِلَّا عَلَى وَادٍّ أَوْ ذِي رأيٍ»
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ورقہ بن نوفل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو خدیجہ ؓ نے فرمایا : اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کر دی تھی لیکن وہ آپ کے اعلانِ نبوت سے پہلے فوت ہو گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسے مجھے خواب میں دکھایا گیا اس پر سفید کپڑے تھے ، اور اگر وہ جہنمی ہوتا تو اس پر کوئی اور لباس ہوتا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَن وَرَقَةَ. فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: إِنَّهُ كَانَ قَدْ صَدَّقَكَ وَلَكِنْ مَاتَ قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُرِيتُهُ فِي الْمَنَامِ وَعَلَيْهِ ثِيَابٌ بِيضٌ وَلَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَكَانَ عَلَيْهِ لِبَاسٌ غَيْرُ ذَلِك» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ
ابن خزیمہ بن ثابت اپنے چچا ابو خزیمہ سے بیان کرتے ہیں ، انہوں نے خواب دیکھا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی پر سجدہ کیا ہے ، اس نے آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی خاطر لیٹ گئے اور فرمایا :’’ اپنا خواب سچا کر دکھاؤ ۔‘‘ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی پر سجدہ کیا ۔ سندہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔ اور ہم ابوبکرہ ؓ سے مروی حدیث :’’ گویا وہ میزان ہے جو آسمان سے نازل ہوئی ۔‘‘ باب مناقب ابی بکر و عمر ؓ میں ذکر کریں گے ۔
وَعَنِ ابْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ عَمِّهِ أَبِي خُزَيْمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّهُ رَأَى فِيمَا يَرَى النَّائِمُ أَنَّهُ سَجَدَ عَلَى جَبْهَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ فَاضْطَجَعَ لَهُ وَقَالَ: «صَدِّقْ رُؤْيَاكَ» فَسَجَدَ عَلَى جَبْهَتِهِ. رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ أَبِي بَكْرَةَ: كَأَنَّ مِيزَانًا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ فِي بَابِ «مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا»
سمرہ بن جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ سے اکثر یوں فرمایا کرتے تھے :’’ کیا تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟‘‘ وہ آپ سے ، جو اللہ چاہتا ، بیان کرتا ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز ہمیں فرمایا :’’ دو آنے والے میرے پاس آئے انہوں نے مجھے اٹھایا اور انہوں نے مجھے کہا : چلو ، اور میں ان کے ساتھ چلا ۔‘‘ اور پھر فصل اول میں مذکور حدیث مکمل طور پر بیان کی ، اور اِس میں اضافہ ہے جو کہ حدیث مذکور میں نہیں ، اور وہ یہ ہے : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہم ایک انتہائی سر سبز باغ میں آئے ، اس میں موسم بہار کے تمام پھول ، اور باغ کے وسط میں ایک طویل آدمی تھا اور اس کے درازئ قد کی وجہ سے میں اس کا سر نہیں دیکھ سکتا تھا ، جبکہ اس آدمی کے اردگرد بہت سے بچے ہیں ، جنہیں میں نے (اتنی کثرت میں پہلے) ہرگز نہیں دیکھا ، میں نے ان دونوں آدمیوں سے کہا : یہ کون ہیں ؟ آپ فرماتے ہیں ، انہوں نے مجھے کہا : (آگے) چلیں ! ہم چلے اور ایک بڑے باغ کے پاس پہنچے ، میں نے اس ے بڑا اور اس سے زیادہ بہتر باغ کبھی نہیں دیکھا ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :’’ انہوں نے مجھے کہا : اس میں اوپر چڑھو ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہم اس میں چڑھے اور ایک شہر میں پہنچے جس کی تعمیر اس طرح ہوئی تھی کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی تھی ، ہم شہر کے دروازے پر پہنچے اور دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، اور وہ ہمارے لیے کھول دیا گیا تو ہم اس میں داخل ہو گئے ، ہم اس میں کچھ آدمیوں سے ملے ان کا آدھا دھڑ اتنا خوبصورت تھا کہ تم نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا اور ان کا آدھا دھڑ اس قدر قبیح تھا کہ تم نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا ، ان دونوں نے انہیں کہا : جاؤ اور اس نہر میں گر جاؤ ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہاں ایک چوڑی نہر جاری تھی گویا اس کا پانی خالص سفید ہے ، وہ گئے اور اس میں گر گئے ، پھر ہماری طرف واپس آئے تو ان کی وہ خرابی ختم ہو چکی تھی اور وہ خوبصورت بن گئے تھے ۔‘‘ اور حدیث کے ان زائد الفاظ میں فرمایا :’’ وہاں وہ طویل آدمی جو باغ میں تھا وہ ابراہیم ؑ تھے ، اور وہ بچے جو ان کے اردگرد تھے ، یہ وہ بچے تھے جو دین فطرت پر فوت ہوئے تھے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں : بعض مسلمانوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مشرکوں کے بچے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مشرکوں کے بچے بھی ، اور لوگ جن کا آدھا دھڑ اچھا اور آدھا دھڑ قبیح تھا تو یہ لوگ وہ تھے جنہوں نے اچھے عمل بھی کیے تھے اور برے عمل بھی ، اللہ نے ان سے درگزر فرمایا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عَن سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَكْثُرُ أَنْ يَقُولَ لِأَصْحَابِهِ: «هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْ رُؤْيَا؟» فَيَقُصُّ عَلَيْهِ مَنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُصَّ وَإِنَّهُ قَالَ لَنَا ذَاتَ غَدَاةٍ: إِنَّهُ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ وَإِنَّهُمَا ابْتَعَثَانِي وَإِنَّهُمَا قَالَا لِي: انْطَلِقْ وَإِنِّي انْطَلَقْتُ مَعَهُمَا . وَذَكَرَ مِثْلَ الْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ فِي الْفَصْلِ الْأَوَّلِ بِطُولِهِ وَفِيهِ زِيَادَةٌ لَيْسَتْ فِي الْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ وَهِيَ قَوْلُهُ: فَأَتَيْنَا عَلَى رَوْضَةٍ مُعْتِمَةٍ فِيهَا مِنْ كُلِّ نَوْرِ الرَّبِيعِ وَإِذَا بَيْنَ ظَهْرَيِ الرَّوْضَةِ رَجُلٌ طَوِيلٌ لَا أَكَادُ أَرَى رَأْسَهُ طُولًا فِي السَّمَاءِ وَإِذَا حَوْلَ الرَّجُلِ مِنْ أَكْثَرِ وِلْدَانٍ رَأَيْتُهُمْ قَطُّ قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَا مَا هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: قَالَا لِيَ: انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا فَانْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ عَظِيمَةٍ لَمْ أَرَ رَوْضَةً قَطُّ أَعْظَمَ مِنْهَا وَلَا أَحْسَنَ . قَالَ: قَالَا لِيَ: ارْقَ فِيهَا . قَالَ: «فَارْتَقَيْنَا فِيهَا فَانْتَهَيْنَا إِلَى مَدِينَةٍ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ وَلَبِنِ فِضَّةٍ فَأَتَيْنَا بَابَ الْمَدِينَةِ فَاسْتَفْتَحْنَا فَفُتِحَ لَنَا فَدَخَلْنَاهَا فَتَلَقَّانَا فِيهَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ وَشَطْرٌ مِنْهُمْ كَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاءٍ» . قَالَ: قَالَا لَهُمُ: اذْهَبُوا فَقَعُوا فِي ذَلِكَ النَّهَرِ قَالَ: «وَإِذَا نَهَرٌ مُعْتَرِضٌ يَجْرِي كَأَنَّ مَاءَهُ الْمَحْضُ فِي الْبَيَاضِ فَذَهَبُوا فَوَقَعُوا فِيهِ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيْنَا قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ فَصَارُوا فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» وَذَكَرَ فِي تَفْسِير هَذِه الزِّيَادَة: «وَأما الرجلُ الطويلُ الَّذِي فِي الرَّوْضَةِ فَإِنَّهُ إِبْرَاهِيمُ وَأَمَّا الْوِلْدَانُ الَّذِينَ حَوْلَهُ فَكُلُّ مَوْلُودٍ مَاتَ عَلَى الْفِطْرَةِ» قَالَ: فَقَالَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَوْلَادُ الْمُشْرِكِينَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَوْلَادُ الْمُشْرِكِينَ وَأَمَّا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَانُوا شطرٌ مِنْهُم حسن وَشطر مِنْهُمْ حَسَنٌ وَشَطْرٌ مِنْهُمْ قَبِيحٌ فَإِنَّهُمْ قَوْمٌ قَدْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا تَجَاوَزَ الله عَنْهُم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے (یعنی جھوٹا خواب بیان کرے) جو انہوں نے نہیں دیکھی ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مِنْ أَفْرَى الْفِرَى أَنْ يُرِيَ الرَّجُلُ عَيْنَيْهِ مَا لم تريا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوسعید ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ سحری (یعنی پچھلی رات کے) وقت کا خواب سچ ہونے میں قریب تر ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَصْدَقُ الرُّؤْيَا بِالْأَسْحَارِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي نِهَايَة الْجُزْء الثَّانِي