ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ دو نعمتیں ایسی ہیں ، جن کے بارے میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں : صحت اور فراغت ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
مستورد بن شداد ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ کی قسم ! آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال بس ایسے ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے ، پھر وہ دیکھے کہ وہ (انگلی پانی کی) کتنی مقدار کے ساتھ لوٹتی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «وَاللَّهِ مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يجعلُ أحدُكم إصبعَه فِي اليمِّ فَلْينْظر بِمَ يرجع» . رَوَاهُ مُسلم
جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکری کے ایک چھوٹے کانوں والے مردار بچے کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے کون اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا ؟‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہم تو اسے کسی معمولی چیز کے بدلے میں لینا بھی پسند نہیں کرتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ (بکری کا مردہ بچہ) تمہارے نزدیک حقیر ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِجَدْيٍ أَسَكَّ مَيِّتٍ. قَالَ: «أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ بِدِرْهَمٍ؟» فَقَالُوا: مَا نحبُّ أَنه لنا بشيءقال: «فَوَاللَّهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذَا عَلَيْكُم» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ دنیا مومن کے لیے قید خانہ جبکہ کافر کے لیے جنت ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدُّنْيَا سِجْنُ المؤمنِ وجنَّةُ الكافرِ» . رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ کسی مومن کی کوئی نیکی ضائع نہیں کرتا ، اس کو اس (نیکی) کے بدلے میں دنیا میں عطا کیا جاتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے آخرت میں جزا دی جائے گی ، اور کافر کو اس کی دنیا میں اللہ کے لیے کی گئی نیکیوں کے بدلے میں کھلایا جاتا ہے ، حتیٰ کہ جب وہ آخرت کو پہنچے گا تو اس کی کوئی نیکی نہیں ہو گی جس کی اسے جزا دی جائے ۔ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً يُعْطَى بِهَا فِي الدُّنْيَا وَيُجْزَى بِهَا فِي الْآخِرَةِ وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلَّهِ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الْآخِرَةِ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَة يجزى بهَا» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جہنم کو شہوات کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنت کو ناگوار چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ البتہ صحیح مسلم میں ((حجبت)) کے بدلے ((حفت)) کے الفاظ ہیں ۔ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. إِلَّا أَنْ عِنْدَ مُسْلِمٍ: «حُفَّتْ» . بَدَلَ «حُجِبَتْ»
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ دینار و درہم اور دوشالے کا (پرستار) بندہ ہلاک ہوا ، اگر اسے دیا جائے تو خوش اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہوتا ہے ، وہ ہلاک ہوا اور ذلیل ہوا ، جب اسے کانٹا چبھے تو وہ نکالا نہ جائے ، خوش حالی ہو اس شخص کے لیے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے ، اس کے بال پراگندہ اور پاؤں گرد آلود ہیں ، اگر وہ پہرے پر مامور ہے تو وہ پہرے پر ڈٹا ہوا ہے اور اگر لشکر کے آخری دستے میں ہے تو وہ وہاں بھی ڈٹا ہوا ہے ، اگر وہ (محفل میں شرکت کے لیے) اجازت طلب کرے تو اسے اجازت نہ دی جائے اور اگر وہ سفارش کرے تو سفارش قبول نہ کی جائے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ وَإِنْ لَمْ يُعْطَ سَخِطَ تَعِسَ وَانْتَكَسَ وَإِذَا شِيكَ فَلَا انْتُقِشَ. طُوبَى لِعَبْدٍ أَخَذَ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَشْعَثُ رَأْسُهُ مُغْبَرَّةٌ قَدَمَاهُ إِنْ كَانَ فِي الْحِرَاسَةِ كَانَ فِي الْحِرَاسَةِ وَإِنْ كَانَ فِي السَّاقَة كَانَ فِي السَّاقَة وَإِن اسْتَأْذَنَ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ وَإِنْ شَفَعَ لَمْ يشفع» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مجھے اپنے بعد تمہارے متعلق جس چیز کا اندیشہ ہے وہ یہ ہے کہ تم پر دنیا کی رونق اور اس کی زینت کا دروازہ کھول دیا جائے گا ۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا خیر ، برائی کو ساتھ لائے گی ؟ آپ خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ پر وحی اتاری جا رہی ہے ، راوی بیان کرتے ہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے (چہرے مبارک) سے پسینہ صاف کیا ، اور فرمایا :’’ وہ سائل کہاں ہے ؟‘‘ گویا آپ نے اس کی تعریف کی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ خیر ، شر کو ساتھ نہیں لائے گی ، بے شک موسم ربیع جو چارہ اگاتا ہے ، اس سے وہ بعض چارہ جانور کو مار ڈالتا ہے ، اپھارہ کر دیتا ہے یا ہلاکت کے قریب کر دیتا ہے ، البتہ سبز گھاس کھانے والا جانور کھاتا ہے حتیٰ کہ اس کے کوکھ نکل آتے ہیں ، وہ سورج کی طرف رخ کر کے جگالی کرتا ہے ، گوبر کرتا ہے اور پیشاب کرتا ہے ، اور وہ دوبارہ (چرنے) چلا جاتا ہے اور دوبارہ (سبز گھاس) کھاتا ہے ، یہ مال سرسبز و شاداب ، شیریں ہے جس نے اسے اپنی ضرورت کے مطابق لیا اور اسے اس کے حق کے مطابق خرچ کیا تو وہ بہترین مددگار ہے ، اور جس نے اسے اپنی ضرورت کے بغیر حاصل کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اور وہ (مال) روز قیامت اس کے خلاف گواہی دے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا» . فَقَالَ رجلٌ: يَا رَسُول الله أوَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يُنَزَّلُ عَلَيْهِ قَالَ: فَمَسَحَ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ وَقَالَ: «أَيْنَ السَّائِلُ؟» . وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ فَقَالَ: «إِنَّهُ لَا يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ مَا يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ أكلت حَتَّى امتدت خاصرتاها اسْتقْبلت الشَّمْسِ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ. وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ وَيَكُونُ شَهِيدًا عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
عمرو بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ کی قسم ! میں تمہارے متعلق فقر سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے تمہارے متعلق اس بات کا اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر فراخ کر دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فراخ کی گئی تھی ، پھر تم اس کے متعلق ویسے ہی رغبت رکھو گے جیسے انہوں نے اس کے متعلق رغبت رکھی ، اور وہ تمہیں ہلاک کر دے گی جیسے اس نے انہیں ہلاک کر دیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «فَوَاللَّهِ لَا الْفَقْرُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وتهلككم كَمَا أهلكتهم» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی :’’ اے اللہ ! آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اتنا رزق عطا فرما کہ ان کے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکے ۔‘‘ متفق علیہ ۔ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ بقدر کفاف ‘‘ (گزارہ لائق روزی عطا فرما)
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا» وَفِي رِوَايَةٍ «كفافا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس شخص نے فلاح پائی جس نے (اپنے رب کی) اطاعت کر لی اور اسے بقدر ضرورت رزق عطا کیا گیا اور اللہ نے جو اسے عطا کیا اس پر اس نے قناعت اختیار کی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ بندہ کہتا ہے ، میرا مال ، میرا مال ، حالانکہ اس کا مال فقط تین صورتوں میں ہے جو اس نے کھا کر ختم کر دیا ، یا پہن کر بوسیدہ کر دیا یا (اللہ کی راہ میں) دے کر ذخیرہ کر لیا ، اور جو ان کے علاوہ ہے وہ تو اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر جانے والا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ الْعَبْدُ: مَالِي مَالِي. وَإِن مَاله مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ: مَا أَكَلَ فَأَفْنَى أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى. وَمَا سِوَى ذَلِك فَهُوَ ذاهبٌ وتاركهُ للنَّاس . رَوَاهُ مُسلم
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں ، ان میں سے دو واپس آ جاتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ باقی رہتی ہے ، اس کے گھر والے ، اس کا مال اور اس کے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں ، اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس آ جاتے ہیں ، اور اس کے اعمال (اس کے ساتھ) باقی رہ جاتے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَاثَةٌ: فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَيَبْقَى عمله . مُتَّفق عَلَيْهِ
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارثوں کا مال اپنے مال سے زیادہ پسند ہے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مال اپنے وارثوں کے مال سے زیادہ پسند ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ بے شک اس کا مال تو وہ ہے جو اس نے آگے بھیجا جبکہ وہ مال جو اس نے پیچھے چھوڑا وہ اس کے وارثوں کا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّكُمْ مَالُ وَارِثِهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا مَنَّا أَحَدٌ إِلَّا مَالُهُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِ وَارِثِهِ. قَالَ: «فَإِنَّ مَالَهُ مَا قَدَّمَ وَمَالَ وَارِثِهِ مَا أخر» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ (اس وقت) سورۂ تکاثر کی تلاوت فرما رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ابن آدم کہتا ہے : میرا مال ، میرا مال ، اے ابن آدم ! حالانکہ تیرا مال تو صرف وہ ہے جو تو نے کھایا اور ختم کر دیا ، یا پہن لیا اور بوسیدہ کر دیا یا صدقہ کر کے (آخرت کے لیے) آگے بھیج دیا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَن مُطرّف عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يقْرَأ: (آلهاكم التكاثر) قَالَ: يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي . قَالَ: «وَهَلْ لَكَ يَا ابْنَ آدَمَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تصدَّقت فأمضيت؟ ؟» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مال داری ، مال اور سازو سامان کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی ، بلکہ مال داری تو نفس کی مال داری (یعنی قناعت) ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفس» مُتَّفق عَلَيْهِ.
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھے اور ان پر عمل کرے یا کسی ایسے شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں ، چنانچہ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ ااور پانچ چیزیں شمار کیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ محارم (اللہ کی حرام کردہ چیزوں) سے بچ جاؤ ، اس طرح تم سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزرا بن جاؤ گے ، اللہ نے جو تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے اس پر راضی ہو جاؤ اس طرح تم سب لوگوں سے زیادہ غنی بن جاؤ گے ، اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو گے تو مومن بن جاؤ گے ، لوگوں کے لیے وہی چیز پسند کرو جو تم اپنی ذات کے لیے پسند کرتے ہو ، تو مسلمان بن جائے گا ، زیادہ مت ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، اور امام ترمذی ؒ نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم: «من أَخذ عَنِّي هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ؟» قُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ الله فَأخذ بيَدي فَعَدَّ خَمْسًا فَقَالَ: «اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا وَلَا تُكْثِرِ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكَ تُمِيتُ الْقَلْبَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ بے شک اللہ فرماتا ہے : انسان ! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا ، میں تیرے دل کو مال داری (قناعت) سے بھر دوں گا ، تیری محتاجی ختم کر دوں گا اور اگر تو (ایسے) نہیں کرے گا تو میں تمہیں کاموں میں مصروف کر دوں گا اور تیری محتاجی ختم نہیں کروں گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و ابن ماجہ ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: ابْنَ آدَمَ تَفْرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسِدَّ فَقْرَكَ وَإِنْ لَا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَكَ شُغُلًا وَلَمْ أسُدَّ فقرك . رَوَاهُ أَحْمد وَابْن مَاجَه
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک آدمی کی عبادت اور اس میں بھرپور انہماک کا ذکر کیا گیا اور دوسرے آدمی کا تقویٰ و احتیاط برتنے کا ذکر کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تقویٰ کے ساتھ (اس عبادت و اجتہاد کا) موازنہ نہ کرو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: ذُكِرَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعِبَادَةٍ وَاجْتِهَادٍ وَذُكِرَ آخَرُ بِرِعَّةٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَعْدِلْ بِالرِّعَّةِ» . يَعْنِي الْوَرَعَ. رَوَاهُ الترمذيُّ
عمرو بن میمون اودی ؒ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو ، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ، اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے ، اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے ، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔‘‘ امام ترمذی نے اسے مرسل روایت کیا ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ مُرْسلا
ابوہریرہ ؓ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی حد سے تجاوز کر دینے والی تونگری کا انتظار کرتا ہے ، یا (عبادت و اطاعت سے) بھلا دینے والی محتاجی کا انتظار کرتا ہے ، یا خراب کر دینے والے مرض کا ، یا بے ہودہ گوئی کرانے والے بڑھاپے کا ، یا اچانک آ جانے والی موت کا ، یا دجال کا ، دجال تو پوشیدہ فتنہ ہے جس کا انتظار ہے ، یا قیامت کا اور قیامت بڑی آفت اور ناگوار چیز ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی و النسائی ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا يَنْتَظِرُ أَحَدُكُمْ إِلَّا غِنًى مُطْغِيًا أَوْ فَقْرًا مُنْسِيًا أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا أَوِ الدَّجَّالَ فَالدَّجَّالُ شَرٌّ غَائِبٌ يُنْتَظَرُ أَوِ السَّاعَةَ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ سن لو ! دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہیں ، ہاں ! البتہ اللہ کا ذکر ، اللہ کے پسندیدہ اعمال اور عالم و متعلم اس سے مستثنیٰ ہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلا ذكرُ الله وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اگر دنیا (کی اہمیت) اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے پانی کا گھونٹ بھی نہ پلاتا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ ۔
وَعَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شربة» رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جاگیریں مت بناؤ ورنہ تم دنیا میں منہمک ہو جاؤ گے ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و البیھقی فی شعب الایمان ۔
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شعب الْإِيمَان»
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس نے دنیا کو پسند کیا ، اس نے آخرت کا نقصان کیا اور جس نے آخرت کو پسند کیا تو اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا ، تم باقی رہنے والی چیز کو فنا ہونے والی چیز پر ترجیح دو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔
وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحَبَّ دُنْيَاهُ أَضَرَّ بِآخِرَتِهِ وَمَنْ أَحَبَّ آخِرَتَهُ أَضَرَّ بِدُنْيَاهُ فَآثِرُوا مَا يَبْقَى عَلَى مَا يَفْنَى» . رَوَاهُ أَحْمد وَالْبَيْهَقِيّ فِي «شعب الْإِيمَان»