حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطاب فرمانے کے لیے ایک جگہ کھڑے ہوئے تو آپ نے اس وقت سے لے کر قیام قیامت تک ہونے والے تمام واقعات بیان فرمائے ، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا ، اور بھولنے والے نے اسے بھلا دیا ، اور میرے یہ ساتھی اس سے خوب آگاہ ہیں ، اور ان (مذکورہ چیزوں) میں سے جب وہ چیز رونما ہوتی ہے جسے میں بھول چکا تھا تو اسے دیکھ کر میری یاد تازہ ہو جاتی ہے ، جس طرح آدمی کسی غائب ہو جانے والے آدمی کے چہرے کو یاد کرتا ہے ، پھر جب وہ اسے دیکھتا ہے تو وہ اسے پہچان لیتا ہے ۔ متفق علیہ ۔
عَن حُذَيْفَة قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامًا مَا تَرَكَ شَيْئًا يَكُونُ فِي مقَامه إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ قَدْ عَلِمَهُ أَصْحَابِي هَؤُلَاءِ وَإِنَّهُ لَيَكُونُ مِنْهُ الشَّيْءُ قَدْ نَسِيتُهُ فَأَرَاهُ فَأَذْكُرُهُ كَمَا يَذْكُرُ الرَّجُلُ وَجْهَ الرَّجُلِ إِذَا غَابَ عَنْهُ ثُمَّ إِذَا رَآهُ عرفه. مُتَّفق عَلَيْهِ
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ دلوں پر فتنے اس طرح مسلسل پیش کیے جائیں گے جس طرح چٹائی کے تنکے مسلسل ہوتے ہیں ، جس میں وہ پیوست کر دیا گیا ، اس پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے ، اور جس دل نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا ، اس پر ایک سفید نکتہ لگا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ دل دو قسم کے ہو جائیں گے ، ان میں سے ایک دل سفید پتھر کی طرح چمک دار ہو جائے گا جسے قیام قیامت تک کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا ، جبکہ دوسرا دل سیاہ راکھ کی مانند ہو گا جیسے الٹا برتن ہو ، وہ نہ تو نیکی کو پہچانتا ہے اور نہ برائی کو ، وہ صرف وہی جانتا ہے جو اس کی خواہشات سے اس میں پیوست کر دیا جائے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا فَأَيُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نَكَتَتْ فِيهِ نُكْتَةً سَوْدَاءَ وَأَيُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا نُكِتَتْ فيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ حَتَّى يَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ: أَبْيَضُ بِمثل الصَّفَا فَلَا تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَالْآخَرُ أَسْوَدُ مِرْبَادًّا كَالْكُوزِ مُجْخِيًّا لَا يَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلَا يُنْكِرُ مُنْكَرًا إِلَّا مَا أشْرب من هَوَاهُ رَوَاهُ مُسلم
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں ، میں نے ان میں سے ایک تو دیکھ لی جبکہ دوسری کا انتظار ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حدیث بیان کی کہ امانت (ایمان داری) آدمیوں کے دلوں کی جڑ (فطرت) میں اتری ، پھر انہوں نے قرآن سے سیکھا ، پھر سنت سے ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (ایمان) کے اٹھ جانے کے متعلق ہمیں حدیث بیان کی ، فرمایا :’’ آدمی غافل ہو گا تو ایمان اس کے دل سے اٹھا لیا جائے گا ، اس کا نشان نقطے کی طرح رہ جائے گا ، پھر وہ دوبارہ غافل ہو گا تو اس (ایمان) کو اٹھا لیا جائے گا تو آبلے کی طرح اس پر نشان رہ جائے گا جیسے تو نے اپنے پاؤں پر انگارہ لڑھکایا ہو ، وہ آبلہ بن جائے اور تو اسے پھولا ہوا دیکھے حالانکہ اس میں کوئی چیز نہیں ، اور لوگ صبح کریں گے اور کوئی ایک بھی امانت ادا نہیں کرے گا ، کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار شخص ہے ، اور کسی اور آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ کس قدر عقل مند ہے ، اس کا کتنا ظرف ہے اور وہ کس قدر برداشت والا ہے ، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ: حَدَّثَنَا: «إِنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ» . وَحَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ أَثَرُهَا مِثْلُ أَثَرِ الْوَكْتِ ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ قتقبض فَيَبْقَى أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ وَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ وَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ فَيُقَالُ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا وَيُقَالُ لِلرَّجُلِ: مَا أَعْقَلَهُ وَمَا أَظْرَفَهُ وَمَا أَجْلَدُهُ وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شر کے متعلق ، اس اندیشے کے پیش نظر پوچھا کرتا تھا کہ وہ کہیں مجھے اپنی گرفت میں نہ لے لے ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت اور شر میں مبتلا تھے ، اللہ نے ہمیں اس خیر سے نواز دیا ، تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر بھی آئے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ میں نے عرض کیا اس شر کے بعد کوئی خیر بھی آئے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ! لیکن اس میں کمزوری ہو گی ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اس کی کمزوری کیا ہو گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کچھ لوگ میری سنت اور میرے طریق کے خلاف چلیں گے ، ان کی بعض باتوں کو تم اچھا سمجھو گے اور بعض کو برا ۔‘‘ میں نے عرض کیا : کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ، ابواب جہنم پر دعوت دینے والے ہوں گے ، جس نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا تو وہ اس کو اس میں پھینک دیں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کا تعارف کرا دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ ہمارے ہی قبیلے سے ہوں گے اور وہ ہماری زبان میں کلام کریں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر اس (زمانے) نے مجھے پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امیر کے ساتھ لگ جانا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر ان کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا امام (تو پھر کیا کروں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ان تمام فرقوں سے الگ ہو جانا خواہ تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑیں حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے ۔‘‘ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ میرے بعد حکمران ہوں گے جو نہ تو میری ہدایت و طریق سے راہنمائی لیں گے اور نہ میری سنت کے مطابق عمل کریں گے اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے ، جن کے ڈھانچے انسانی اور دل شیطان ہوں گے ۔‘‘ حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اگر میں یہ صورت حال دیکھوں تو میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ، اگرچہ تجھے مارا جائے اور تمہارا مال لے لیا جائے ، تم سنو اور اطاعت کرو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: «نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ» . قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ» . قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا» . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا. قَالَ: «هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا» . قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ» . قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: «فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَتِي وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ» . قَالَ حُذَيْفَةُ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ الْأَمِيرَ وَإِنْ ضَرَبَ ظهرك وَأخذ مَالك فاسمع وأطع
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے ، نیک اعمال کرنے میں جلدی کر لو ، جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے ، آدمی صبح کے وقت مومن ہو گا تو شام کے وقت کافر جبکہ شام کے وقت مومن ہو گا تو صبح کے وقت کافر وہ دنیا کے مال و متاع کے عوض اپنا دین بیچ دے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «بَادرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتناً كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعرْض من الدُّنْيَا» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ عنقریب ایسے فتنے پیدا ہوں گے کہ ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا ، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ۔ جس نے ان کی طرف جھانک کر دیکھا تو وہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے ، جو شخص کوئی پناہ گا یا بچاؤ کی جگہ پائے تو وہ وہاں پناہ حاصل کر لے ۔‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ فتنے پیدا ہوں گے ، ان میں سونے والا جاگنے والے سے بہتر ہو گا جبکہ ان میں جاگنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا اور کھڑا ہونے والا ان میں دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ، جو شخص کوئی پناہ گاہ یا بچاؤ کی جگہ پائے تو وہ وہاں پناہ حاصل کر لے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ من الْمَاشِي والماشي فِيهِ خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ فَمن وجد ملْجأ أَو معَاذًا فليَعُذْ بِهِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: قَالَ: «تَكُونُ فِتْنَةٌ النَّائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْيَقْظَانِ واليقظانُ خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي فَمن وجد ملْجأ أومعاذا فليستعذ بِهِ»
ابوبکرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ عنقریب فتنے برپا ہوں گے ، سن لو ! پھر بڑے فتنے ہوں گے ، سن لو ! پھر ایسے عظیم فتنے ہوں گے کہ ان میں بیٹھنے والا ، چلنے والے سے بہتر ہو گا ، ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ، سن لو ! جب یہ واقع ہو جائیں تو جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اپنے اونٹوں کے ساتھ مشغول ہو جائے ، جس کی بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں کے ساتھ مشغول ہو جائے اور جس کی زمین ہو تو وہ اپنی زمین کے ساتھ مشغول ہو جائے ۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بتائیں کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں نہ بکریاں اور نہ ہی زمین (تو وہ کیا کرے ؟) ، فرمایا :’’ وہ اپنی تلوار کا قصد کرے اور اسے پتھر پر مار کر کند کر دے (اس کی تیزی ختم کر دے)، پھر اگر استطاعت ہو (وہاں سے) بھاگ نکلے (کہ فتنے اسے اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں) تا کہ وہ بچ سکے ، اے اللہ ! کیا میں نے (پیغام الٰہی) پہنچا دیا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا ، تو ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں اگر مجھے مجبور کر دیا جائے حتیٰ کہ مجھے دو صفوں (جماعتوں ، گروہوں) میں سے کسی ایک کے ساتھ لے جایا جائے تو کوئی اپنی تلوار سے مجھے مارے یا کوئی تیر آئے اور وہ مجھے قتل کر دے (تو قاتل و مقتول کے بارے میں کیا حکم ہے ؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ (قاتل) اپنے اور تمہارے گناہ کا (بوجھ) لے کر واپس آئے گا اور وہ جہنمی ہو گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتَنٌ أَلَا ثُمَّ تَكُونُ فِتنٌ أَلا ثمَّ تكونُ فتنةٌ القاعدُ خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي فِيهَا وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي إِلَيْهَا أَلَا فَإِذَا وَقَعَتْ فَمَنْ كَانَ لَهُ إِبل فَلْيَلْحَقْ بِإِبِلِهِ وَمَنْ كَانَ لَهُ غَنَمٌ فَلْيَلْحَقْ بغنمه وَمن كَانَت لَهُ أرضٌ فَلْيَلْحَقْ بِأَرْضِهِ» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ إِبِلٌ وَلَا غَنَمٌ وَلَا أَرْضٌ؟ قَالَ: «يَعْمِدُ إِلَى سَيْفِهِ فَيَدُقُّ عَلَى حَدِّهِ بِحَجَرٍ ثُمَّ لِيَنْجُ إِنِ اسْتَطَاعَ النَّجَاءَ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟» ثَلَاثًا فَقَالَ: رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ أُكْرِهْتُ حَتَّى ينْطَلق بِي إِلَى أحدالصفين فَضَرَبَنِي رَجُلٌ بِسَيْفِهِ أَوْ يَجِيءُ سَهْمٌ فَيَقْتُلُنِي؟ قَالَ: «يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ وَيَكُونُ مِنْ أَصْحَابِ النَّار» رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں ، وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے ان بکریوں کو لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں پر بھاگ جائے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خيرَ مالِ المسلمِ غنمٌ يتبع بهَا شغف الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے کے کسی بلند مکان پر چڑھے تو فرمایا :’’ کیا تم دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نہیں ، فرمایا :’’ بے شک میں فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں میں بارش کے قطروں کی طرح داخل ہو رہے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ: هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟ قَالُوا: لَا. قَالَ: «فَإِنِّي لأرى الْفِتَن خلال بُيُوتكُمْ كوقع الْمَطَر» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میری امت کی ہلاکت و تباہی قریش کے چند نوجوان لڑکوں کے ہاتھوں ہو گی ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلَكَةُ أُمَّتِي عَلَى يَدَي غِلْمةٍ مِنْ قُرْيشٍ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ زمانہ (قیامت کے) قریب ہوتا جائے گا ، علم ختم کر دیا جائے گا ، فتنے ظاہر ہوں گے ، (دلوں میں) بخل ڈال دیا جائے گا اور ہرج زیادہ ہو جائے گا ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، ہرج کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قتل ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيُقْبَضُ الْعِلَمُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ وَيُلْقَى الشُّحُّ وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ» قَالُوا: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ: «الْقَتْلُ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! دنیا ختم نہیں ہو گی حتیٰ کہ لوگوں پر ایک ایسا دن بھی آئے گا کہ قاتل کو معلوم نہیں ہو گا کہ اس نے کس وجہ سے قتل کیا اور مقتول کو معلوم نہیں ہو گا کہ اسے کس وجہ سے قتل کیا گیا ؟‘‘ عرض کیا گیا ، یہ کس وجہ سے ہو گا ؟ فرمایا :’’ فتنے کی وجہ سے ، قاتل اور مقتول (دونوں) جہنمی ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَأْتِي يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيمَ قَتَلَ؟ وَلَا الْمَقْتُولُ فِيمَ قُتِلَ؟ فَقِيلَ: كَيْفَ يَكُونُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «الْهَرْجُ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ مُسلم
معقل بن یسار ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ فتنے کے (زمانے) میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کی طرح ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إِلَيَّ» . رَوَاهُ مُسلم
زبیر بن عدی بیان کرتے ہیں ، ہم انس بن مالک ؓ کے پاس آئے تو ہم نے حجاج کی طرف سے ہم پر ہونے والے ظلم کے متعلق ان سے شکایت کی تو انہوں نے فرمایا : صبر کرو ، کیونکہ تم پر جو وقت بھی آ رہا ہے ، اس کے بعد آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ برا ہو گا حتیٰ کہ تم اپنے رب سے جا ملو ۔‘‘ میں نے یہ بات تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے ۔ رواہ البخاری ۔
وَعَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ قَالَ: أَتَيْنَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَلْقَى مِنَ الْحَجَّاجِ. فَقَالَ: «اصْبِرُوا فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكُمْ زمَان إِلَّا الَّذِي بعده أشرمنه حَتَّى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ» . سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھی بھول گئے یا انہوں نے نسیان کا اظہار کیا ، اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائے دنیا تک ہونے والے داعیان فتنہ ، جن کی تعداد تین سو سے زائد تک پہنچے گی ، کے متعلق بتایا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام ، اس کے والد کا نام اور اس کے قبیلے کے نام کے متعلق ہمیں بتایا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَنَسِيَ أَصْحَابِي أَمْ تَنَاسَوْا؟ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَائِدِ فِتْنَةٍ إِلَى أَنْ تَنْقَضِيَ الدُّنْيَا يَبْلُغُ مَنْ مَعَهُ ثَلَاثَمِائَةٍ فَصَاعِدًا إِلَّا قَدْ سَمَّاهُ لَنَا بِاسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيهِ واسمِ قبيلتِه. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مجھے اپنی امت کے متعلق گمراہ حکمرانوں کا اندیشہ ہے ، جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو وہ روز قیامت تک ان سے نہیں اٹھائی جائے گی ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔
وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد والترمذيُّ
سفینہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ خلافت تیس سال تک ہو گی ، پھر بادشاہت ہو گی ۔‘‘ پھر سفینہ بیان کرتے ہیں : ابوبکر ؓ کی خلافت دو سال شمار کر ، عمر ؓ کی دس سال ، عثمان ؓ کی بارہ سال اور علی ؓ کی خلافت چھ سال شمار کر ۔ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔
وَعَن سفينة قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا» . ثُمَّ يَقُولُ سَفِينَةُ: أَمْسِكْ: خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ سَنَتَيْنِ وَخِلَافَةَ عُمَرَ عَشْرَةً وَعُثْمَانَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ وَعَلِيٍّ سِتَّةً. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس خیر (یعنی اسلام) کے بعد شر ہو گا جس طرح اس سے پہلے شر (یعنی کفر) تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں !‘‘ میں نے عرض کیا : بچاؤ کا کوئی راستہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تلوار ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، کیا تلوار کے بعد (اہل اسلام میں سے) کوئی باقی ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ امارت کے نتیجہ میں فساد ہو گا ، صلح نفاق پر ہو گی اور اتحاد مفاد پرستی پر ہو گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا :’’ داعیان گمراہی ظاہر ہوں گے ، اگر اللہ کے لیے زمین پر کوئی خلیفہ ہو وہ (از راہ ظلم) تیری پشت پر مارے اور تیرا مال لے لے تو تو اس کی اطاعت کر ، بصورت دیگر (اگر خلیفہ نہ ہو) تو اس طرح فوت ہو کہ تو درخت کی جڑ پکڑے ہوئے ہو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا :’’ پھر اس کے بعد دجال کا ظہور ہو گا اس کے ساتھ نہر اور آگ ہو گی ، جو شخص اس کی آگ میں داخل ہو گیا تو اس کا اجر واجب ہو گیا اور اس کے گناہ مٹا دیے گئے ، اور جو شخص اس کی نہر میں داخل ہو گیا تو اس کا گناہ واجب ہو گیا اور اس کا اجر ختم کر دیا گیا ۔‘‘ حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، پھر کیا ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ پھر گھوڑے کا بچہ پیدا ہو گا اور وہ ابھی سواری کے قابل نہیں ہو گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی ۔‘‘ ایک روایت میں ہے ، فرمایا :’’ کدورت پر صلح ، اور مفاد پر اعتماد ہو گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کدورت پر صلح سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ لوگوں کے دل (محبت کی) اس حالت پر نہیں آئیں گے جس پر وہ پہلے تھے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اس خیر کے بعد شر ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اندھا بہرا فتنہ ، اس (فتنے) پر داعیان ہوں گے (گویا) وہ ابواب جہنم پر (کھڑے) ہیں ، حذیفہ ! اگر تم درخت کی جڑ کو پکڑے ہوئے فوت ہوئے تو وہ تیرے لیے اس سے بہتر ہے کہ تو ان میں سے کسی (فتنے) کی اتباع کرے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَكُونُ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ كَمَا كَانَ قَبْلَهُ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: فَمَا الْعِصْمَةُ؟ قَالَ: «السَّيْفُ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ السَّيْفِ بَقِيَّةٌ؟ قَالَ: «نعمْ تكونُ إِمارةٌ على أَقْذَاءٍ وَهُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ» . قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: «ثُمَّ يَنْشَأُ دُعَاةُ الضَّلَالِ فَإِنْ كَانَ لِلَّهِ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ جَلَدَ ظَهْرَكَ وَأَخَذَ مَالَكَ فَأَطِعْهُ وَإِلَّا فَمُتْ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جَذْلِ شَجَرَةٍ» . قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: «ثُمَّ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ بَعْدَ ذَلِكَ مَعَهُ نَهْرٌ وَنَارٌ فَمَنْ وَقَعَ فِي نَارِهِ وَجَبَ أَجْرُهُ وَحُطَّ وِزْرُهُ وَمَنْ وَقَعَ فِي نَهْرِهِ وَجَبَ وِزْرُهُ وحظ أَجْرُهُ» . قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: «ثُمَّ يُنْتَجُ الْمُهْرُ فَلَا يُرْكَبُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ» وَفِي رِوَايَة: «هُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ وَجَمَاعَةٌ عَلَى أَقْذَاءٍ» . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الْهُدْنَةُ عَلَى الدَّخَنِ مَا هِيَ؟ قَالَ: «لَا ترجع قُلُوب أَقوام كَمَا كَانَتْ عَلَيْهِ» . قُلْتُ: بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ صَمَّاءُ عَلَيْهَا دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ النَّارِ فَإِنْ مُتَّ يَا حُذَيْفَةُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جَذْلٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تتبع أحدا مِنْهُم» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گدھے پر سوار تھا ، جب ہم مدینہ کے گھروں سے آگے نکل گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ابوذر ! اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہو گی جب مدینہ میں بھوک ہو گی ، تم اپنے بستر سے اٹھو گے اور اپنی نماز کی جگہ تک نہیں پہنچ سکو گے حتیٰ کہ بھوک تمہیں مشقت میں مبتلا کر دے گی ۔‘‘ وہ کہتے ہیں ، میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ابوذر ! سوال کرنے سے بچنا ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ابوذر ! تمہاری کیا کیفیت ہو گی جب مدینہ میں موت عام ہو گی حتیٰ کہ قبر کی جگہ غلام کی قیمت کو پہنچ جائے گی ؟‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ابوذر ! تم صبر کرنا ۔‘‘ فرمایا :’’ ابوذر ! تمہاری کیا کیفیت ہو گی جب مدینہ میں قتل عام ہو گا خون احجارزیت (مدینہ میں ایک محلے یا جگہ کا نام ہے) تک پھیل جائے گا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم ان کے پاس چلے جانا جن کے ساتھ تیرا (دینی یا خونی) تعلق ہے ۔‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، میں مسلح ہو جاؤں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تب تو آپ ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تلوار کی تیزی تم پر غالب آ جائے گی تو پھر تم اپنے کپڑے کا کنارہ اپنے چہرے پر ڈال لینا تا کہ وہ (قاتل) تیرے اور اپنے گناہ کے ساتھ لوٹے ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
وَعَن أبي ذَر قَالَ: كُنْتُ رَدِيفًا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا علىحمار فَلَمَّا جَاوَزْنَا بُيُوتَ الْمَدِينَةِ قَالَ: «كَيْفَ بِكَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ جُوعٌ تَقُومُ عَنْ فِرَاشِكَ وَلَا تَبْلُغُ مَسْجِدَكَ حَتَّى يُجْهِدَكَ الْجُوعُ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «تَعَفَّفْ يَا أَبَا ذَرٍّ» . قَالَ: «كَيْفَ بِكَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ مَوْتٌ يَبْلُغُ الْبَيْتَ الْعَبْدُ حَتَّى إِنَّهُ يُبَاعُ الْقَبْرُ بِالْعَبْدِ؟» . قَالَ: قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «تَصْبِرُ يَا أَبَا ذَرٍّ» . قَالَ: «كَيْفَ بِكَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ قَتْلٌ تَغْمُرُ الدِّمَاءُ أَحْجَارَ الزَّيْتِ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «تَأْتِي مَنْ أَنْتَ مِنْهُ» . قَالَ: قُلْتُ: وَأَلْبَسُ السِّلَاحَ؟ قَالَ: «شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذًا» . قُلْتُ: فَكَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ فَأَلْقِ نَاحِيَةَ ثَوْبِكَ عَلَى وَجْهِكَ لِيَبُوءَ بإِثمك وإِثمه» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تمہاری اس وقت کیا حالت ہو گی جب تم نکمے لوگوں میں باقی رہ جاؤ گے ، ان کے وعدے اور ان کی امانتیں خراب ہو جائیں گی اور وہ اختلاف کا شکار ہو جائیں گے ، وہ اس طرح ہو جائیں گے ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں ، انہوں نے عرض کیا ، آپ مجھے کس چیز کا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم جس چیز کو جانتے ہو اسے لازم پکڑو اور جسے نہیں جانتے اسے چھوڑ دو ، اور تم اپنا خیال رکھو اور عام لوگوں (کے عمل) کو چھوڑ دو ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ اپنے گھر میں رہو ، اپنی زبان پر قابو رکھو ، جو چیز پہچانتے ہو اسے پکڑو ، جسے نہیں پہچانتے اسے چھوڑ دو ، تم اپنی فکر کرو اور عام لوگوں کے معاملے کو ترک کر دو ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كَيْفَ بِكَ إِذَا أُبْقِيتَ فِي حُثَالَةٍ مِنَ النَّاسِ مَرَجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ؟ وَاخْتَلَفُوا فَكَانُوا هَكَذَا؟» وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ. قَالَ: فَبِمَ تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: «عَلَيْكَ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْكِرُ وَعَلَيْكَ بِخَاصَّةِ نَفْسِكَ وَإِيَّاكَ وَعَوَامِّهِمْ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «الْزَمْ بَيْتَكَ وَأَمْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَخُذْ مَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْكِرُ وَعَلَيْكَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِكَ ودع أَمر الْعَامَّة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَصَححهُ
ابوموسی ؓ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قیامت سے پہلے شب تاریک کے ٹکڑوں کی طرح (لگاتار) فتنے ہوں گے ، ان میں آدمی صبح کے وقت مومن ہو گا تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مومن ہو گا تو صبح کے وقت کافر ، ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا ، اور ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ، تم ان میں اپنی کمانیں توڑ ڈالو اور (اپنی کمانوں کے) تانت کاٹ ڈالو اور اپنی تلواروں کو پتھر پر دے مارو ، اور اگر وہ (فتنہ) تم میں سے کسی پر داخل ہو گیا تو اسے چاہیے کہ وہ آدم ؑ کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے (ہابیل) کی طرح ہو جائے ۔‘‘ اور ابوداؤد کی انہی سے مروی حدیث میں :’’ بہتر ہے دوڑنے والے سے ‘‘ تک مروی ہے ، پھر انہوں نے عرض کیا ، آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم اپنے گھروں میں جم جانا ۔‘‘ اور ترمذی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنے کے دور کے متعلق فرمایا :’’ ان میں اپنی کمانوں کو توڑ دینا ، ان میں اپنے تانت کاٹ ڈالنا اور ان فتنوں کے وقت اپنے گھر کی چار دیواری کو لازم پکڑنا ، اور ابن آدم (ہابیل) کی طرح ہو جانا ۔‘‘ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث صحیح غریب ہے ۔ سنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔
وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا الْقَاعِد خير من الْقَائِم والماشي خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي فَكَسِّرُوا فِيهَا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا فِيهَا أَوْتَارَكُمْ وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ فَإِنْ دُخِلَ عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد. وَفِي رِوَايَة لَهُ (ضَعِيف) : «ذَكَرَ إِلَى قَوْلِهِ» خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي ثُمَّ قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: كُونُوا أَحْلَاسَ بُيُوتِكُمْ . وَفِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْفِتْنَةِ: «كَسِّرُوا فِيهَا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا فِيهَا أَوْتَارَكُمْ وَالْزَمُوا فِيهَا أَجْوَافَ بُيُوتِكُمْ وَكُونُوا كَابْنِ آدَمَ» . وَقَالَ: هَذَا حديثٌ صحيحٌ غريبٌ
ام مالک بہزیہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنے کا ذکر کیا تو آپ نے اسے قریب قرار دیا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس (فتنے) میں بہترین شخص کون ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ آدمی جو اپنے مویشیوں میں ہے وہ ان کا بھی حق (یعنی زکوۃ) ادا کرتا ہے اور اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے ، اور وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑتا ہے اور وہ اپنے دشمن (کافروں) کو ڈراتا ہے اور وہ اسے ڈراتے ہیں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
وَعَن أم مَالك البهزية قَالَتْ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً فَقَرَّبَهَا. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ خَيْرُ النَّاسِ فِيهَا؟ قَالَ: «رَجُلٌ فِي مَاشِيَتِهِ يُؤَدِّي حَقَّهَا وَيَعْبُدُ رَبَّهُ وَرَجُلٌ أَخَذَ برأسٍ فرأسه يخيف الْعَدو ويخوفونه» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ عنقریب ایک بڑا فتنہ ہو گا جو کہ تمام عربوں پر محیط ہو گا ، اس کے مقتولین جہنمی ہیں ، اس بارے میں زبان درازی کرنا تلوار زنی کرنے سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبَ قَتْلَاهَا فِي النَّارِ اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ مِنْ وَقْعِ السَّيْفِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْن مَاجَه
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ عنقریب بہرا ، گونگا اور اندھا فتنہ ہو گا ، جو شخص اس کے قریب جائے گا ، تو وہ اسے اپنی لپیٹ میں لے لے گا ، اس بارے میں زبان درازی کرنا شمشیر زنی کرنے کی طرح ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَتَكُونُ فِتْنَةٌ صَمَّاءُ بكماء عمياءُ مَنْ أَشْرَفَ لَهَا اسْتَشْرَفَتْ لَهُ وَإِشْرَافُ اللِّسَانِ فِيهَا كوقوع السَّيْف» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے فتنوں کا ذکر کیا اور آپ نے ان کے متعلق بہت بیان فرمایا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا ، کسی نے عرض کیا ، فتنہ احلاس کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ بھاگنا اور لوٹنا ہے ، پھر فتنہ خوشحالی ہے اس کا ابھرنا میرے اہل بیت کے ایک آدمی کے پاؤں کے نیچے سے ہو گا ، وہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے ، حالانکہ وہ مجھ میں سے نہیں ، میرے دوست تو متقی لوگ ہی ہیں ، پھر لوگ ایک ایسے شخص (کی امامت و حکمرانی) پر راضی ہو جائیں گے جیسے سرین ایک پسلی پر ہو (یعنی نا اہل شخص کو حکمران بنا لیں گے) پھر فتنہ دہیماء اس امت کے ہر فرد پر اثر انداز ہو گا ، جب کہا جائے گا کہ وہ ختم ہو گیا ہے تو وہ دراز ہو جائے گا ، اس (فتنے) میں آدمی صبح کے وقت مومن ہو گا تو شام کو کافر حتیٰ کہ لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے ، ایمان کا گروہ جس میں کوئی نفاق نہیں ، اور نفاق کا گروہ جس میں ایمان نہیں ، جب یہ صورت ہو تو پھر دجال کا انتظار کرو آج ظاہر ہوا یا کل ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ فَقَالَ قَائِلٌ: وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ. قَالَ: هِيَ هَرَبٌ وَحَرَبٌ ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي وَلَيْسَ مِنِّي إِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كورك على ضلع ثمَّ فتْنَة الدهماء لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطْمَتْهُ لَطْمَةً فَإِذَا قِيلَ: انْقَضَتْ تَمَادَتْ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ: فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ. فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ مِنْ يَوْمِهِ أَوْ من غده . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد