ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ دو مرتبہ صور پھونکے جانے کا درمیانی وقفہ چالیس ہو گا ۔‘‘ انہوں نے کہا : ابوہریرہ ! چالیس دن ؟ انہوں نے کہا : مجھے معلوم نہیں ، انہوں نے پوچھا : چالیس ماہ ؟ انہوں نے فرمایا : میں نہیں جانتا ، انہوں نے کہا : چالیس سال ؟ انہوں نے کہا : میں نہیں جانتا ۔‘‘ پھر اللہ آسمان سے پانی نازل فرمائے گا تو وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح سبزیاں اُگ آتی ہیں ۔‘‘ فرمایا :’’ انسان کی ایک ہڈی کے سوا باقی سارا جسم گل سڑ جائے گا ، وہ ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا ہے ، اور روز قیامت تمام مخلوق اسی سے دوبارہ بنائی جائے گی ۔‘‘ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ انسان کو مٹی کھا جائے گی ، البتہ ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا باقی رہ جائے گا ، اسی سے وہ پیدا کیا گیا اور اسی سے دوبارہ بنایا جائے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ» قَالُوا: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا؟ قَالَ: أَبَيْتُ. قَالُوا: أَرْبَعُونَ شَهْرًا؟ قَالَ: أَبَيْتُ. قَالُوا: أَرْبَعُونَ سَنَةً؟ قَالَ: أَبَيْتُ. «ثُمَّ يَنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءٌ فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ» قَالَ: «وَلَيْسَ مِنَ الْإِنْسَانِ شَيْءٌ لَا يَبْلَى إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ قَالَ: «كُلُّ ابْنِ آدَمَ يَأْكُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْهُ خُلِقَ وَفِيهِ يركب»
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ روزِ قیامت اللہ زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا ، پھر فرمائے گا : میں بادشاہ ہوں ، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ؟ . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ روزِ قیامت اللہ آسمانوں کو لپیٹ لے گا ، پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لے گا ، پھر فرمائے گا : میں بادشاہ ہوں ، جابر و متکبر کہاں ہیں ؟ پھر وہ زمینوں کو اپنے بائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا ، ایک دوسری روایت میں ہے :’’ ان کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا ، پھر فرمائے گا ، میں بادشاہ ہوں ، جابر و متکبر کہاں ہیں ؟‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَن عبد الله بن عَمْرو قَالَ: قا ل رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَطْوِي اللَّهُ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟ ثُمَّ يَطْوِي الْأَرَضِينَ بِشِمَالِهِ - وَفِي رِوَايَة: يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْأُخْرَى - ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أينَ الجبَّارونَ أينَ المتكبِّرونَ؟ . رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو اس نے کہا : محمد ! روزِ قیامت اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر روک لے گا ، زمینوں کو ایک انگلی پر ، پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی و مٹی کو ایک انگلی پر ، اور باقی ساری مخلوق کو ایک انگلی پر روک لے گا ، پھر انہیں بلائے گا اور فرمائے گا ، میں بادشاہ ہوں ، میں اللہ ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات پر تعجب کرتے ہوئے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے ہنس دیے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق تھا ، اور روزِ قیامت تمام زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ، پاک ہے وہ ذات اور بلند ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: جَاءَ حَبْرٌ مِنَ الْيَهُودِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى أُصْبُعٍ وَالْأَرَضِينَ عَلَى أُصْبُعٍ وَالْجِبَالَ وَالشَّجَرَ عَلَى أُصْبُعٍ وَالْمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى أُصْبُعٍ وَسَائِرَ الْخَلْقِ علىأصبع ثُمَّ يَهُزُّهُنَّ فَيَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَنَا اللَّهُ. فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَجُّبًا مِمَّا قَالَ الْحَبْرُ تَصْدِيقًا لَهُ. ثُمَّ قَرَأَ: (وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يشركُونَ) مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :’’ اس روز زمین کو دوسری زمین سے بدل دیا جائے گا ۔‘‘ کے متعلق دریافت کیا کہ اس روز لوگ کہاں ہوں گے ؟ فرمایا :’’ پل پر ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ: (يَوْمَ تُبَدَّلُ الأرضُ غيرَ الأَرْض والسَّماواتُ) فَأَيْنَ يَكُونُ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «عَلَى الصِّرَاطِ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ روزِ قیامت سورج اور چاند کو لپیٹ دیا جائے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ مُكَوَّرَانِ يَوْم الْقِيَامَة» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میں کیسے خوش رہ سکتا ہوں جبکہ صور (پھونکنے) والے نے اس (صور) کو اپنے منہ کے ساتھ لگا رکھا ہے ، اپنے کان اور اپنی پیشانی کو جھکا رکھا ہے اور وہ انتظار کر رہا ہے کہ اسے پھونک مارنے کا کب حکم ملتا ہے ۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کہو : ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الصُّورِ قَدِ الْتَقَمَهُ وَأَصْغَى سَمْعَهُ وَحَنَى جَبْهَتَهُ يَنْتَظِرُ مَتَى يُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ» . فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: قُولُوا: حَسْبُنَا اللَّهُ ونِعمَ الْوَكِيل . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبداللہ بن عمرو ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ صور ایک سینگ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و الدارمی ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الصُّورُ قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ
ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان (فَإِذَا نُقِرَ فِیْ النَّاقُوْرِ) کی تفسیر میں فرمایا : (الرَّاجِفَۃُ) سے پہلی بار صور پھونکا جانا جبکہ (الرَّادِفَۃُ) سے دوسری بار صور پھونکا جانا مراد ہے ۔ امام بخاری ؒ نے اسے ترجمۃ الباب میں روایت کیا ہے ۔ رواہ البخاری (کتاب الرقاق باب ۴۳ قبل ح ۶۵۱۷ تعلیقا) ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى (فإِذا نُقر فِي النَّاقور) : الصّور قَالَ: و (الرجفة) : النَّفْخَةُ الْأُولَى وَ (الرَّادِفَةُ) : الثَّانِيَةُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي تَرْجَمَة بَاب
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صور والے (اسرافیل ؑ) کا ذکر کیا اور فرمایا :’’ اس کے دائیں جبرائیل ؑ اور اس کے بائیں میکائیل ؑ ہوں گے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ رزین (لم اجدہ)
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاحِبُ الصُّورِ وَقَالَ: «عَن يَمِينه جِبْرِيل عَن يسَاره مِيكَائِيل»
ابو رزین عقیلی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اللہ مخلوق کو دوبارہ کیسے پیدا فرمائے گا ۔ اور اس کی مخلوق میں کون سی نشانی (موجود) ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم کبھی اپنی قوم کی خشک و سخت وادی سے گزرے ہو ؟ پھر تم وہاں سے گزرتے ہو تو وہ سرسبز و شاداب لہلہا رہی ہوتی ہے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ اللہ کی اس کی مخلوق میں نشانی ہے ، اللہ اسی طرح مردوں کو زندہ کرے گا ۔‘‘ دونوں احادیث رزین نے نقل کی ہیں ۔ اسنادہ حسن ، رواہ رزین (لم اجدہ) ۔
وَعَن أبي رزين الْعقيلِيّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ يُعِيدُ الله الْخلق؟ مَا آيَةُ ذَلِكَ فِي خَلْقِهِ؟ قَالَ: «أَمَا مَرَرْتَ بِوَادِي قَوْمِكَ جَدْبًا ثُمَّ مَرَرْتَ بِهِ يَهْتَزُّ خَضِرًا؟» قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَتِلْكَ آيَةُ اللَّهِ فِي خلقه (كَذَلِك يحيي اللَّهُ الْمَوْتَى) رَوَاهُمَا رزين
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ لوگوں کو روزِ قیامت سفید سرخی مائل زمین پر جمع کیا جائے گا ، وہ (زمین) میدے کی روٹی کی طرح ہو گی اس میں کسی کے لیے کوئی نشان نہیں ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى أَرْضٍ بَيْضَاءَ عَفْرَاءَ كَقُرْصَةِ النَّقِيِّ لَيْسَ فِيهَا عَلَمٌ لأحدٍ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ روزِ قیامت زمین ایک روٹی کی طرح ہو گی جسے الجبار (اللہ تعالیٰ) اہل جنت کی میزبانی کے لیے اپنے ہاتھ سے اس طرح الٹے پلٹے گا جس طرح تم میں سے کوئی دوران سفر اپنی روٹی الٹ پلٹ کرتا ہے ۔‘‘ اتنے میں ایک یہودی آیا اور اس نے کہا : ابو القاسم ! رحمن آپ پر برکت نازل فرمائے ، کیا میں آپ کو روزِ قیامت اہل جنت کی میزبانی کے متعلق نہ بتاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ضرور بتاؤ ۔‘‘ اس نے کہا : زمین ایک روٹی کی طرح ہو گی جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا اور ہنسنے لگے حتی کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں ، پھر اس (یہودی) نے کہا : کیا میں آپ کو ان کے سالن کے متعلق نہ بتاؤں ؟ (اس نے خود ہی بتایا) بالام اور نون ، صحابہ کرام ؓ نے کہا : یہ کیا چیز ہے ؟ اس نے کہا : بیل اور مچھلی ، ان دونوں کی کلیجی کے ساتھ ، گوشت کا ٹکڑا جو کہ علیحدہ لٹک رہا ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ستر ہزار افراد کھائیں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَكُونُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُبْزَةً وَاحِدَةً يَتَكَفَّؤُهَا الْجَبَّارُ بِيَدِهِ كَمَا يَتَكَفَّأُ أَحَدُكُمْ خُبْزَتَهُ فِي السّفر نُزُلاً لِأَهْلِ الْجَنَّةِ» . فَأَتَى رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ. فَقَالَ: بَارَكَ الرَّحْمَنُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ أَلَا أُخبرُك بِنُزُلِ أهل الجنةِ يومَ القيامةِ؟ قَالَ: «بَلَى» . قَالَ: تَكُونُ الْأَرْضُ خُبْزَةً وَاحِدَةً كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا ثُمَّ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِأَدَامِهِمْ؟ بَالَامٌ وَالنُّونُ. قَالُوا: وَمَا هَذَا؟ قَالَ: ثَوْرٌ وَنُونٌ يَأْكُلُ مِنْ زَائِدَةِ كَبِدِهِمَا سَبْعُونَ ألفا. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ لوگ تین فرقوں میں جمع کیے جائیں گے ، رغبت کرنے اور ڈرنے والے ایک اونٹ پر دو (سوار) ہوں گے ، ایک اونٹ پر تین ہوں گے ، ایک اونٹ پر چار ہوں گے اور ایک اونٹ پر دس ہوں گے ، جبکہ باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی ، جب وہ قیلولہ کریں گے تو وہ ان کے ساتھ قیلولہ کرے گی ، جب وہ رات گزاریں گے تو وہ بھی ان کے ساتھ رات گزارے گی ، جہاں وہ صبح کریں گے وہ صبح کرے گی اور جہاں وہ شام کریں گے وہ (شام کے وقت) ان کے ساتھ شام کرے گی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى ثَلَاثِ طَرَائِقَ: رَاغِبِينَ رَاهِبِينَ وَاثْنَانِ عَلَى بَعِيرٍ وَثَلَاثَةٌ عَلَى بَعِيرٍ وَأَرْبَعَةٌ عَلَى بَعِيرٍ وَعَشَرَةٌ عَلَى بَعِيرٍ وَتَحْشُرُ بَقِيَّتَهُمُ النَّارُ. تَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا وَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ باتو وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ يمسوا . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بے ختنہ اٹھائے جاؤ گے ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ جیسا کہ ہم نے پیدا کیا تھا پہلی مرتبہ ہم ایسے ہی لوٹائیں جائیں گے ، یہ ہماری طرف سے ایک وعدہ ہے جسے ہم پورا کر کے رہیں گے ۔‘‘ اور روزِ قیامت سب سے پہلے ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا ، اور میرے اصحاب سے بعض کو جہنم میں لے جانے کے لیے پکڑا جائے گا تو میں کہوں گا : یہ میرے اصحاب ہیں ، یہ میرے اصحاب ہیں ! تو وہ کہے گا : آپ کے بعد یہ لوگ اپنی ایڑھیوں کے بل پھر گئے تھے ، تو میں بھی وہی کہوں گا جو نیک بندے عیسیٰ ؑ نے کہا تھا :’’ جب تک میں ان میں تھا تو میں ان پر نگران تھا ..... العزیز الحکیم ۔‘‘ تک ۔ متفق علیہ ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا» ثُمَّ قَرَأَ: (كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فاعلين) وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ وَإِنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِي يُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ: أُصَيْحَابِي أُصَيْحَابِي فَيَقُولُ: إِنَّهُمْ لَنْ يَزَالُوا مرتدين على أَعْقَابهم مذْ فَارَقْتهمْ. فَأَقُول كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دمت فيهم) إِلى قَوْله (الْعَزِيز الْحَكِيم) مُتَّفق عَلَيْهِ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ لوگ روزِ قیامت ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے ، وہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ عائشہ ! وہ (قیامت کا) معاملہ اس سے بہت سنگین ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا» . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِيعًا يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ؟ فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ الْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ يَنْظُرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا ، اللہ کے نبی ! کافر کو روز قیامت اس کے چہرے کے بل کیسے چلایا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا وہ ذات جس نے اسے دنیا میں پاؤں پر چلایا اس پر قادر نہیں کہ وہ روزِ قیامت اسے اس کے چہرے کے بل چلائے ؟‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ كَيْفَ يُحْشَرُ الْكَافِرُ عَلَى وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: «أَلَيْسَ الَّذِي أَمْشَاهُ عَلَى الرِّجْلَيْنِ فِي الدُّنْيَا قَادِرًا عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُ عَلَى وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ابراہیم ؑ روزِ قیامت اپنے والد آزر سے ملیں گے تو آزر کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا ، ابراہیم ؑ اسے فرمائیں گے : کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کرو ، ان کا والد ان سے کہے گا : آج میں تمہاری مخالفت و نافرمانی نہیں کرتا ، ابراہیم ؑ عرض کریں گے : رب جی ! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تو روزِ قیامت مجھے رسوا نہیں کرے گا ؟ اس سے زیادہ رسوائی کیا ہے کہ میرا والد (تیری رحمت سے) سب سے زیادہ دور ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے جنت کافروں پر حرام کر دی ہے ، پھر ابراہیم ؑ سے کہا جائے گا : تمہارے قدموں تلے کیا ہے ؟ وہ دیکھیں گے تو وہاں (آزر کی بجائے) ایک گھنے بالوں والا بجو ہو گا ، جو اپنی غلاظت کے ساتھ لت پت ہو گا ، اس کو اس کے پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ: لَا تَعْصِنِي؟ فَيَقُولُ لَهُ أَبُوهُ: فَالْيَوْمَ لَا أَعْصِيكَ. فَيَقُول إِبراهيم: يَا رب إِنَّك وَعَدتنِي أَلا تخزني يَوْمَ يُبْعَثُونَ فَأَيُّ خِزْيٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الْأَبْعَدِ فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ ثُمَّ يُقَالُ لِإِبْرَاهِيمَ: مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ؟ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُتَلَطِّخٍ فَيُؤْخَذُ بقوائمه فَيُلْقى فِي النَّار . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ روزِ قیامت لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے حتی کہ ان کا پسینہ زمین پر ستر ہاتھ تک پھیل جائے گا ، اور وہ ان کے منہ تک ہوتا ہوا ان کے کانوں تک پہنچ جائے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَعْرَقُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَذْهَبَ عَرَقُهُمْ فِي الْأَرْضِ سَبْعِينَ ذِرَاعًا وَيُلْجِمُهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ آذَانَهُمْ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
مقداد ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ روزِ قیامت سورج مخلوق کے قریب ہو جائے گا حتی کہ وہ میل کی مسافت کے برابر ان کے قریب ہو گا ، اور لوگ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں (ڈوبے) ہوں گے ، ان میں سے کسی کے ٹخنوں تک ہو گا ، کسی کے گھٹنوں تک ہو گا ، کسی کے ازار باندھنے کی جگہ تک اور بعض کے منہ تک ہو گا ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا ۔ رواہ مسلم ۔
وَعَنِ الْمِقْدَادِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «تُدْنَى الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ حَتَّى تَكُونَ مِنْهُمْ كَمِقْدَارِ مِيلٍ فَيَكُونُ النَّاسُ عَلَى قَدْرِ أَعْمَالِهِمْ فِي الْعَرَقِ فَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى كَعْبَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَى حَقْوَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُمُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا» وَأَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى فِيهِ. رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم ! وہ عرض کریں گے : حاضر ہوں ، تیار ہوں ، اور ساری خیر تیرے ہاتھوں میں ہے ۔ وہ فرمائے گا : جہنم جانے والوں کو نکال دو ، وہ عرض کریں گے ، جہنم جانے والے کتنے ہیں ؟ وہ فرمائے گا : ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ، اس وقت بچے بوڑھے ہو جائیں گے ، ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی ، اور تم لوگوں کو مدہوشی کے عالم میں دیکھو گے ، حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے ، بلکہ اللہ کا عذاب شدید ہو گا ۔‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم میں سے وہ ایک کون ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تمہیں بشارت ہو ، کیونکہ وہ ایک آدمی تم میں سے ہو گا جبکہ یاجوج ماجوج ہزار ہوں گے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مجھے امید ہے کہ ایک چوتھائی جنتی تم ہو گے ۔‘‘ ہم نے (خوش ہو کر) نعرہ تکبیر بلند کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میں امید کرتا ہوں کہ تم جنت میں ایک تہائی ہو گے ۔‘‘ ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میں امید کرتا ہوں کہ نصف جنتی تم ہو گے ۔‘‘ ہم نے اللہ اکبر کہا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم تمام لوگوں میں اتنے ہو گے جتنے سفید بیل کی جلد پر ایک سیاہ بال ، یا کسی سیاہ بیل کی جلد پر ایک سفید بال ہوتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: يَا آدَمُ فَيَقُولُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ. قَالَ: أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ. قَالَ: وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ فَعِنْدَهُ يَشِيبُ الصَّغِيرُ (وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شديدٌ) قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَيُّنَا ذَلِكَ الْوَاحِدُ؟ قَالَ: «أَبْشِرُوا فَإِنَّ مِنْكُمْ رَجُلًا وَمِنْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ أَلْفٌ» ثُمَّ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ» فَكَبَّرْنَا. فَقَالَ: «أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ» فَكَبَّرْنَا فَقَالَ: «أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ» فَكَبَّرْنَا قَالَ: «مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَبْيَضَ أَوْ كشعرة بَيْضَاءَ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَسْوَدَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ ہمارا رب (روزِ قیامت) اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا تو ہر مومن مرد اور مومنہ عورت اس کے لیے سجدہ ریز ہو جائیں گے ، صرف وہی باقی رہ جائے گا جو دنیا میں ریا اور شہرت کی خاطر سجدہ کیا کرتا تھا ، وہ سجدہ کرنا چاہے گا لیکن اس کی کمر تختہ بن جائے گی (اور وہ سجدہ کے لیے جھک نہیں سکے گی) ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ وَيَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ روزِ قیامت ایک موٹا تازہ شخص آئے گا ، اللہ کے ہاں وہ مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہو گا ۔‘‘ اور فرمایا :’’ یہ آیت پڑھو : روزِ قیامت ہم ان کا کوئی وزن نہیں کریں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِي الرَّجُلُ الْعَظِيمُ السَّمِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَزِنُ عندَ الله جَناحَ بعوضة» . وَقَالَ: اقرؤوا (فَلَا نُقيمُ لَهُم يومَ القيامةِ وَزْناً) مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ جس روز وہ (زمین) اپنی خبریں بتا دے گی ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو اس کی خبریں کیا ہیں ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر مرد اور ہر عورت کے متعلق اس کے تمام اعمال کے متعلق گواہی دے گی جو اس نے اس کی پشت پر کیے ہوں گے ، وہ کہے گی : اس نے فلاں فلاں دن مجھ پر فلاں فلاں کام کیا تھا ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ اس کی خبریں ہیں ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ: (يَوْمَئِذٍ تُحدِّثُ أخبارَها) قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّ أَخْبَارَهَا أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كلِّ عَبْدٍ وَأَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا أَنْ تَقول: عمِلَ عَليَّ كَذَا وَكَذَا يومَ كَذَا وَكَذَا . قَالَ: «فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص بھی فوت ہوتا ہے تو وہ حسرت و افسوس کرتا ہے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس کی حسرت و افسوس کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اگر وہ نیکوکار تھا تو وہ افسوس کرتا ہے کہ اس نے زیادہ نیکیاں کیوں نہیں کیں ، اور اگر وہ گناہ گار تھا تو وہ افسوس کرتا ہے کہ اس نے گناہ کیوں نہ چھوڑے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُوتُ إِلَّا نَدِمَ» . قَالُوا: وَمَا نَدَامَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «إِنْ كَانَ مُحْسِنًا نَدِمَ أَنْ لَا يَكُونَ ازْدَادَ وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا نَدِمَ أَنْ لَا يكونَ نزع» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ