ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس (دین یا خلافت) کے معاملے میں لوگ قریش کے تابع ہیں ، ان (لوگوں) کے مسلمان ، قریشی مسلمانوں کے تابع ہیں ، اور ان (عام لوگوں) کے کافر ، ان (قریش کے) کافروں کے تابع ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَيْشٍ فِي هَذَا الشَّأْن مسلمهم تبع مسلمهم وكافرهم تبع لكافرهم» . مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ لوگ خیر (اسلام) اور شر (کفر) میں قریش کے تابع ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَيْشٍ فِي الْخَيْرِ وَالشَّر» . رَوَاهُ مُسلم
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ معاملہ (خلافت) قریش میں رہے گا جب تک ان میں دو آدمی بھی باقی رہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَزَالُ هَذَا الْأَمْرُ فِي قُرَيْشٍ مَا بَقِيَ مِنْهُمُ اثْنَان» . مُتَّفق عَلَيْهِ
معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :’’ یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے ، اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ اسے چہرے کے بل اوندھا کر کے ذلیل کر دے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ لَا يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجهه مَا أَقَامُوا الدّين» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بارہ خلیفوں تک اسلام غالب رہے گا اور وہ سب قریش سے ہوں گے ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ لوگوں کے معاملات صحیح اور درست چلتے رہیں گے جب تک بارہ آدمی ان کے حکمران رہیں گے ، وہ سب قریش سے ہوں گے ۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے :’’ قیامت تک دین قائم رہے گا اور ان پر بارہ خلیفے ہوں گے اور وہ سب قریش سے ہوں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَزَالُ الْإِسْلَامُ عَزِيزًا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «لَا يَزَالُ أَمْرُ النَّاسِ مَاضِيًا مَا وَلِيَهُمُ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَة أَو يَكُونُ عَلَيْهِمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْش» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قبیلہ غفار جو ہے ، اللہ نے انہیں معاف فرما دیا ، قبیلہ اسلم کو اللہ نے سلامت رکھا اور جو قبیلہ عصیہ ہے اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ وَعُصَيَّةُ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قریش ، انصار ، جہینہ ، مزینہ ، اسلم ، غفار اور اشجع قبیلے میرے حمایتی ہیں ، اور اللہ اور اس کے رسول کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ وَجُهَيْنَةُ وَمُزَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ وَأَشْجَعُ مَوَالِيَّ لَيْسَ لَهُمْ مَوْلًى دُونَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوبکرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسلم ، غفار ، مزینہ ، اور جہینہ قبیلے ، بنو تمیم اور بنو عامر قبیلوں سے بہتر ہیں ، اور وہ دو حلیفوں بنو اسد اور غطفان سے بھی بہتر ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَسْلَمُ وَغِفَارُ وَمُزَيْنَةُ وَجُهَيْنَةُ خَيْرٌ مِنْ بني تَمِيم وَبني عَامِرٍ وَالْحَلِيفَيْنِ بَنِي أَسْدٍ وَغَطَفَانَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے بنو تمیم کے متعلق جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین خصلتیں سنی ہیں ، تب سے میں انہیں محبوب رکھتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میری امت میں سے وہ دجال پر سب سے زیادہ سخت ہوں گے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، ان کے صدقات آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں ۔‘‘ اور عائشہ ؓ کے پاس ان کے کچھ قیدی تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ انہیں آزاد کر دو کیونکہ وہ اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَن أبي هُرَيْرَة قَالَ: مَا زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثلاثٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِيهِمْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ» قَالَ: وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا» وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَ: «اعْتِقِيهَا فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
سعد ؓ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص قریش کی اہانت کرنا چاہے گا اللہ اس کی اہانت و تذلیل کرے گا ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی ۔
عَنْ سَعْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ يُرِدْ هَوَانَ قُرَيْشٍ أَهَانَهُ الله» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! تو نے (بدر و احزاب میں) قریش کے پہلے افراد کو عذاب میں مبتلا کیا ، تو ان کے بعد والوں کو انعام عطا فرما ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ أَذَقْتَ أَوَّلَ قُرَيْشٍ نَكَالًا فَأَذِقْ آخِرَهُمْ نَوَالًا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
ابوعامر اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسد اور اشعر قبیلے اچھے ہیں ، وہ میدان جہاد سے فرار ہوتے ہیں نہ خیانت کرتے ہیں ، وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
وَعَن أبي عَامر الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعْمَ الْحَيُّ الْأَسْدُ وَالْأَشْعَرُونَ لَا يَفِرُّونَ فِي الْقِتَالِ وَلَا يَغُلُّونَ هُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ازد قبیلہ زمین پر اللہ کا لشکر ہے ، لوگ چاہتے ہیں کہ وہ انہیں نیچا دکھائیں لیکن اللہ نے اس بات کا انکار فرما دیا ہے ، وہ انہیں رفعت ہی عطا فرماتا ہے ، لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ آدمی خواہش کرے گا کہ کاش میرا والد ازدی ہوتا اور کاش میری والدہ ازدی ہوتی ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْأَزْدُ أَزْدُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ يُرِيدُ النَّاسُ أَنْ يَضَعُوهُمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يَرْفَعَهُمْ وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَقُولُ الرَّجُلُ: يَا لَيْتَ أَبِي كَانَ أَزْدِيًا وَيَا لَيْتَ أُمِّي كَانَتْ أَزْدِيَّةً رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو وہ تین قبیلوں کو ناپسند فرماتے تھے ، ثقیف ، بنو حنیفہ اور بنو امیہ ۔ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
وَعَن عمرَان بن حُصَيْن قَالَ: مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَكْرَهُ ثَلَاثَةَ أَحْيَاءٍ: ثَقِيفٌ وَبَنِي حَنِيفَةَ وَبَنِي أُمَيَّةَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيب
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ثقیف (قبیلے) میں ایک شخص کذاب اور ایک ظالم ہو گا ۔‘‘ عبداللہ بن عصمہ نے کہا : کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید اور ظالم سے مراد حجاج بن یوسف ہے ، ہشام بن حسان نے کہا : حجاج نے جن افراد کو باندھ کر قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچتی ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ يُقَالُ: الْكَذَّابُ هُوَ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ وَالْمُبِيرُ هُوَ الْحَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ وَقَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ: أَحْصَوْا مَا قَتَلَ الْحَجَّاجُ صَبْرًا فَبَلَغَ مِائَةَ ألفٍ وَعشْرين ألفا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
امام مسلم ؒ نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے ، جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر ؓ کو قتل کیا تو اسماء ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حدیث بیان کی کہ ثقیف قبیلے میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا ۔ رہا کذاب تو ہم نے اسے دیکھ لیا اور رہا ظالم تو میرا خیال ہے کہ یہ وہی ہے ۔ رواہ مسلم ۔ اور مکمل حدیث تیسری فصل میں آئے گی ۔
وَرَوَى مُسْلِمٌ فِي «الصَّحِيحِ» حِينَ قَتَلَ الْحَجَّاجُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَتْ أَسْمَاءَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» فَأَما الْكذَّاب فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ. وَسَيَجِيءُ تَمام الحَدِيث فِي الْفَصْل الثَّالِث
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، صحابہ ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ثقیف قبیلے کے تیروں نے ہمیں جلا کر رکھ دیا ہے ، آپ ان کے لیے اللہ سے بددعا فرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اے اللہ ! ثقیف قبیلے کو ہدایت عطا فرما ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
وَعَن جَابر قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحْرَقَتْنَا نِبَالُ ثَقِيفٍ فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ. قَالَ: «اللَّهُمَّ اهْدِ ثقيفا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبدالرزاق ، اپنے والد سے ، وہ میناء سے اور وہ ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے کہ آدمی آپ کے پاس آیا میرا خیال ہے قیس قبیلے سے تھا ، اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! حمیر قبیلے پر لعنت فرمائیں ، آپ نے اس سے اعراض فرمایا ، پھر وہ دوسری جانب سے آیا تو آپ نے اس سے اعراض فرمایا ، پھر وہ دوسری جانب سے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اعراض فرمایا ، نیز فرمایا :’’ اللہ حمیر پر رحم فرمائے ، ان کے منہ سلام کرتے ہیں ، ان کے ہاتھ کھانا کھلاتے ہیں ، اور وہ امن و امان والے ہیں ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ، اور ہم اسے صرف عبدالرزاق کے طریق سے پہچانتے ہیں ، اور اس میناء سے منکر احادیث روایت کی جاتی ہیں ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔
وَعَن عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مِينَاءَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فجَاء رَجُلٌ أَحْسَبُهُ مِنْ قَيْسٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الْعَنْ حِمْيَرًا فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ جَاءَهُ من الشقّ الآخر فَأَعْرض عَنهُ ثمَّ جَاءَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَحِمَ اللَّهُ حِمْيَرًا أَفْوَاهُهُمْ سَلَامٌ وَأَيْدِيهِمْ طَعَامٌ وَهُمْ أَهْلُ أَمْنٍ وَإِيمَانٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ويُروى عَن ميناءَ هَذَا أَحَادِيث مَنَاكِير
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا :’’ تم کس قبیلے سے ہو ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، دوس سے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میں نہیں سمجھتا تھا کہ دوس قبیلے کے کسی شخص میں بھلائی ہو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ دَوْسٍ. قَالَ: «مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ فِي دَوْسٍ أحدا فِيهِ خير» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سلمان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا :’’ مجھے ناراض نہ کرنا ورنہ تم اپنے دین سے نکل جاؤ گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو کیسے ناراض کر سکتا ہوں ، آپ کی وجہ سے اللہ نے ہمیں ہدایت نصیب فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم عربوں سے دشمنی رکھو گے تو تم مجھ سے دشمنی رکھو گے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
وَعَن سلمَان قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُبْغِضُنِي فَتُفَارِقَ دِينَكَ» قَلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أُبْغِضُكَ وَبِكَ هَدَانَا اللَّهُ؟ قَالَ: «تُبْغِضُ الْعَرَبَ فَتُبْغِضُنِي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
عثمان بن عفان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جس نے عربوں کو فریب دیا تو وہ میری شفاعت میں داخل ہو گا نہ اسے میری مودّت نصیب ہو گی ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ ہم اس حدیث کو صرف حصین بن عمر کے طریق سے پہچانتے ہیں ، اور وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔
وَعَن عُثْمَان بن عَفَّان قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ غَشَّ الْعَرَبَ لَمْ يَدْخُلْ فِي شَفَاعَتِي وَلَمْ تَنَلْهُ مَوَدَّتِي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حُصَيْنِ بْنِ عُمَرَ وَلَيْسَ هُوَ عِنْدَ أهل الحَدِيث بِذَاكَ الْقوي
طلحہ بن مالک کی آزاد کردہ لونڈی ام الحریر بیان کرتی ہیں ، میں نے اپنے مالک کو بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ عربوں کی ہلاکت قرب قیامت کی علامت ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
وَعَن أم حَرِير مولاة طَلْحَة بن مَالك قَالَتْ: سَمِعْتُ مَوْلَايَ يَقُولَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: «مِنِ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ هَلَاكُ الْعَرَبِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ خلافت قریش میں ہے ، قضاء انصار میں ، اذان حبشیوں میں اور امانت ازد یعنی یمن میں ہے ۔‘‘ یہ روایت موقوف ہے ، امام ترمذی نے اسے روایت کیا ، اور فرمایا : اس کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمُلْكُ فِي قُرَيْشٍ وَالْقَضَاءُ فِي الْأَنْصَارِ وَالْأَذَانُ فِي الْحَبَشَةِ وَالْأَمَانَةُ فِي الْأَزْدِ» يَعْنِي الْيَمَنَ. وَفِي رِوَايَةٍ مَوْقُوفًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: هَذَا أصح
عبداللہ بن مطیع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، میں نے فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اس روز کے بعد روز قیامت تک کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہ کیا جائے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: «لَا يُقْتَلُ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ هَذَا الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة» . رَوَاهُ مُسلم
ابو نوفل معاویہ بن مسلم بیان کرتے ہیں ، میں نے عبداللہ بن زبیر ؓ کو مدینے کی گھاٹی پر (سولی پر لٹکتے ہوئے) دیکھا ، قریشی اور دوسرے لوگ ان کے پاس سے گزرتے رہے حتیٰ کہ عبداللہ بن عمر ؓ ان کے پاس سے گزرے اور وہاں ٹھہر کر فرمایا : ابو خبیب ! تم پر سلام ، ابو خبیب ! تم پر سلام ، ابو خبیب ! تم پر سلام ، اللہ کی قسم ! کیا میں تمہیں اس (خلافت کے معاملے) سے منع نہیں کرتا تھا ، اللہ کی قسم ! کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ اللہ کی قسم ! میں تمہیں بہت روزے رکھنے والا ، بہت زیادہ قیام کرنے والا اور صلہ رحمی کرنے والا ہی جانتا ہوں ، سن لو ! اللہ کی قسم ! جو لوگ تجھے برا خیال کرتے ہیں حقیقت میں وہ خود برے ہیں ۔ ایک دوسری روایت میں ہے ، (جو تمہیں برا سمجھتے ہیں کیا) وہ لوگ اچھے ہیں ؟ پھر عبداللہ بن عمر ؓ چلے گئے ، حجاج کو عبداللہ کا مؤقف اور ان کی بات پہنچی تو اس نے انہیں بلا بھیجا ، ان (عبداللہ بن زبیر ؓ) کو سولی سے اتار دیا گیا اور انہیں یہودیوں کے قبرستان میں ڈال دیا گیا ۔ پھر حجاج نے ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ کو بلا بھیجا تو انہوں نے آنے سے انکار کر دیا ، پھر اس نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ آپ آ جائیں ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ لائے گا ، راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے انکار کیا اور کہا ، اللہ کی قسم ! میں تیرے پاس نہیں آؤں گی حتیٰ کہ تو اس شخص کو میرے پاس بھیجے جو میرے بالوں سے پکڑ کر مجھے گھسیٹے ، راوی بیان کرتے ہیں ، حجاج نے کہا : میرے جوتے مجھے دو ، اس نے اپنے جوتے پہنے اور تیز تیز چلتا ہوا ان تک پہنچ گیا ، اور کہا : بتاؤ ! اللہ کے دشمن کے ساتھ میں نے کیسا سلوک کیا ؟ اسماء ؓ نے فرمایا : میں سمجھتی ہوں کہ تو نے عبداللہ ؓ کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری آخرت برباد کر دی ۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ تو (توہین کے انداز میں) اسے ذات النطاقین (دو ازار والی) کا بیٹا کہتا ہے ، اللہ کی قسم ! میں ذات النطاقین ہوں ، ان (ازار بندوں) میں سے ایک کے ساتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر ؓ کے کھانے کو چوپایوں سے بچانے کے لیے ، اور رہا دوسرا تو اس سے کوئی بھی عورت بے نیاز نہیں ہو سکتی ، سن لو ! کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حدیث بیان فرمائی کہ ’’ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا ۔‘‘ رہا کذاب تو ہم اسے دیکھ چکے ، اور رہا ظالم تو میرا خیال ہے کہ وہ تم ہی ہو ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، وہ ان کے پاس سے چلا گیا اور پھر ان کے پاس دوبارہ نہیں آیا ۔ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي نَوْفَلٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ قَالَ فَجَعَلَتْ قُرَيْشٌ تَمُرُّ عَلَيْهِ وَالنَّاسُ حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَوقف عَلَيْهِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كُنْتَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا وَصُولًا لِلرَّحِمِ أَمَا وَاللَّهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ شَرُّهَا لَأُمَّةُ سَوْءٍ - وَفِي رِوَايَةٍ لَأُمَّةُ خَيْرٍ - ثُمَّ نَفَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَوْلُهُ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأُنْزِلَ عَنْ جِذْعِهِ فَأُلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَأَبَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكِ مَنْ يَسْحَبُكِ بِقُرُونِكِ. قَالَ: فَأَبَتْ وَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا آتِيكَ حَتَّى تَبْعَثَ إِلَيَّ من يسحبُني بقروني. قَالَ: فَقَالَ: أَرُونِي سِبْتِيَّ فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَذَّفُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ: كَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوِّ اللَّهِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُكَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ وَأَفْسَدَ عَلَيْكَ آخِرَتَكَ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقُولُ لَهُ: يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ أَنَا وَاللَّهِ ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكُنْتُ أَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَامَ أَبِي بَكْرٍ مِنَ الدَّوَابِّ وَأَمَّا الْآخَرُ فنطاق المرأةِ الَّتِي لَا تَسْتَغْنِي عَنهُ أما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدثنَا: «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» . فَأَما الْكَذَّابُ فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاه. قَالَ فَقَامَ عَنْهَا وَلم يُرَاجِعهَا. رَوَاهُ مُسلم