Prayer - Hadiths

564

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جب کبیرہ گناہوں سے بچا جائے تو پانچ نمازیں ، جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ہونے والے صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ لَمَّا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِر» . رَوَاهُ مُسلم

565

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی شخص کے گھر کے سامنے نہر ہو اور وہ ہر روز اس میں پانچ مرتبہ غسل کرتا ہوتو کیا اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہ جائے گی ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، اس کے جسم پر کوئی میل باقی نہیں رہے گی ، آپ نے فرمایا :’’ یہی پانچ نماز وں کی مثال ہے ، اللہ ان کے ذریعے خطائیں مٹا دیتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔

وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا هَلْ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ؟ قَالُوا: لَا يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ. قَالَ: فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اللَّهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا

566

ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، کسی آدمی نے کسی عورت کا بوسہ لے لیا پھر اس نے آ کر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتایا ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’ دن کے دونوں اطراف اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کریں ، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔‘‘ اس آدمی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہ میرے لیے خاص ہے ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ میری ساری امت کے لیے ہے ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ جس نے میری امت میں سے اس پر عمل کیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنِ امْرَأَةٍ قُبْلَةً فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْل إِن الْحَسَنَات يذْهبن السَّيِّئَات) فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِي هَذَا؟ قَالَ: «لِجَمِيعِ أُمَّتِي كُلِّهِمْ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي»

567

انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی آیا ، اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں موجب حد والا عمل کر بیٹھا ہوں ، لہذا آپ مجھ پر حد قائم فرمائیں ، راوی بیان کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے اس (عمل) کے متعلق کچھ دریافت نہ کیا ، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا ، تو اس نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ، جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز ادا کر چکے تو وہ آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں (نے ایسا کام کیا ہے کہ) حد کو پہنچ چکا ہوں ، لہذا آپ میرے متعلق اللہ کا حکم نافذ فرمائیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، جی ہاں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ نےتمہارے گناہ یا تمہاری حد کو معاف فرما دیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فأقمه عَليّ قَالَ وَلم يسْأَله عَنهُ قَالَ وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاة قَامَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فأقم فِي كتاب الله قَالَ أَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ مَعَنَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ أَو قَالَ حدك

568

ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ وقت پر نماز ادا کرنا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، پھر کون سا ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ والدین سے اچھا سلوک کرنا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، پھر کون سا ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔‘‘ ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، آپ نے مجھے یہ باتیں بتائیں ، اگر میں مزید دریافت کرتا تو آپ مجھے اور زیادہ بتاتے ۔ متفق علیہ ۔

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَي الْأَعْمَال أحب إِلَى الله قَالَ: «الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا» قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ: «بِرُّ الْوَالِدَيْنِ» قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ: «الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» قَالَ حَدَّثَنِي بِهِنَّ وَلَوِ استزدته لزادني

569

جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ (مومن) بندے اور کفر کے درمیان فرق نماز کا ترک کرنا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ ترك الصَّلَاة» . رَوَاهُ مُسلم

570

عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، جس شخص نے ان کے لیے اچھی طرح وضو کیا ، انہیں ان کے وقت پر ادا کیا ، اور ان کے رکوع و خشوع کو مکمل کیا تو اللہ کا اس کے لیے عہد ہے کہ وہ اسے معاف فرما دے گا اور جس نے ایسے نہ کیا تو اس سے اللہ کا کوئی عہد نہیں ، اگر وہ چاہے تو اسے معاف فرما دے ، اور اگر چاہے تو اسے سزا دے ۔‘‘ احمد ، ابوداؤد ۔ جبکہ مالک اور امام نسائی نے بھی اس کی مانند روایت کیا ہے ۔ اسنادہ حسن ۔

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لوقتهن وَأتم ركوعهن خشوعهن كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَرَوَى مَالك وَالنَّسَائِيّ نَحوه

571

ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اپنی پانچ (فرض) نمازیں پڑھو ، اپنے ماہ (رمضان) کے روزے رکھو ، اپنے اموال کی زکو ۃ دو ، اور امیر کی اطاعت کرو تو اس طرح تم اپنے رب کی جت میں داخل ہو جاؤ گے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی ۔

وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلُّوا خَمْسَكُمْ وَصُومُوا شَهْرَكُمْ وَأَدُّوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ تدْخلُوا جنَّة ربكُم» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ

572

عمرو بن شعیب ؒ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جب تمہارے بچے سات برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز کے متعلق حکم دو ، اور جب وہ دس برس کے ہو جائیں (اور وہ اس میں کوتاہی کریں) تو انہیں اس پر سزا دو ، اور ان کے بستر الگ کر دو ۔‘‘ ابوداؤد ، اور شرح السنہ میں بھی اس طرح روایت کیا ہے ۔ صحیح ۔

وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِين وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَكَذَا رَوَاهُ فِي شرح السّنة عَنهُ

573

مصابیح میں سبرہ بن معبد ؓ سے مروی ہے ۔ صحیح ۔

وَفِي المصابيح عَن سُبْرَة بن معبد

574

بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ہمارے اور ان (منافقین) کے مابین نماز عہد ہے پس جس نے اسے ترک کیا تو اس نے کفر کیا ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ ۔

وَعَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ وَابْن مَاجَه

575

عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں نے مدینہ کے دوسرے کنارے ایک عورت سے طبع آزمائی کی ، میں نے جماع کے علاوہ اس کے ساتھ سب کچھ کیا ، چنانچہ میں حاضر ہوں ، آپ میرے متعلق جو چاہیں فیصلہ فرمائیں ، عمر ؓ نے اسے کہا ، اللہ نے تمہاری پردہ پوشی کی تھی کاش کہ تم بھی اپنی پردہ پوشی کرتے ، راوی بیان کرتے ہیں ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ، اور وہ آدمی کھڑا ہوا اور چلا گیا ، چنانچہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی آدمی کو اس کے پیچھے بھیجا تو اسے بلا کر یہ آیت سنائی :’’ دن کے دونوں اطراف اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کریں ، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں اور یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے ۔‘‘ حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! یہ اس کے لیے خاص ہے ؟ تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ تمام لوگوں کے لیے ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي عَالَجْتُ امْرَأَةً فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَإِنِّي أَصَبْتُ مِنْهَا مَا دُونَ أَنْ أَمَسَّهَا فَأَنَا هَذَا فَاقْضِ فِيَّ مَا شِئْتَ. فَقَالَ عُمَرَ لَقَدْ سَتَرَكَ اللَّهُ لَو سترت نَفْسِكَ. قَالَ وَلَمْ يَرُدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ شَيْئًا فَقَامَ الرَّجُلُ فَانْطَلَقَ فَأَتْبَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا فَدَعَاهُ وتلا عَلَيْهِ هَذِه الْآيَة (أقِم الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَات يذْهبن السَّيِّئَات ذَلِك ذكرى لِلذَّاكِرِينَ) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَذَا لَهُ خَاصَّة قَالَ: «بل للنَّاس كَافَّة» . رَوَاهُ مُسلم

576

ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موسم خزاں میں باہر تشریف لائے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو شاخوں کو پکڑا ، راوی نے بیان کیا کہ پتے گرنے لگے اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلمؑ نے فرمایا :’’ اے ابوذر ! میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! حاضر ہوں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ بے شک مسلمان بندہ اللہ کی رضا کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس سے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے اس درخت سے پتے گرتے ہیں ۔‘‘ ضعیف ۔

وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ يَتَهَافَتُ فَأَخَذَ بِغُصْنَيْنِ مِنْ شَجَرَةٍ قَالَ فَجَعَلَ ذَلِكَ الْوَرَقُ يَتَهَافَتُ قَالَ فَقَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ» قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «إِنَّ العَبْد الْمُسلم ليصل الصَّلَاة يُرِيد بهَا وَجه الله فتهافت عَنهُ ذنُوبه كَمَا يتهافت هَذَا الْوَرَقُ عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ

577

زید بن خالد الجہنی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص حضور قلب سے دو رکعتیں پڑھتا ہے تو اللہ اس کے سابقہ گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد ۔

وَعَن زيد بن خَالِد الْجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى سَجْدَتَيْنِ لَا يَسْهُو فِيهِمَا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ

578

عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک روز نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :’’ جس نے نماز کی حفاظت و پابندی کی تو وہ اس شخص کے لیے روز قیامت نور ، دلیل اور نجات ہو گی ، اور جس نے اس کی حفاظت و پابندی نہ کی تو روز قیامت اس کے لیے نور ، دلیل اور نجات نہیں ہو گی اور وہ قارون ، فرعون ، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد و الدارمی و البیھقی فی شعب الایمان ۔

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ ذَكَرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا فَقَالَ: «مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا وَبُرْهَانًا وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمن لم يحافظ عَلَيْهَا لم يكن لَهُ نور وَلَا برهَان وَلَا نجاة وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَأُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ

579

عبداللہ بن شقیق ؒ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ اعمال میں صرف ترک نماز کو کفر تصور کیا کرتے تھے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔

وَعَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَركه كفر غير الصَّلَاة. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

580

ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، میرے خلیل (نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) نے مجھے وصیت فرمائی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا خواہ تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اور خواہ تمہیں جلا دیا جائے ، اور جان بوجھ کر فرض نماز ترک نہ کرنا ، جس نے عمداً اسے ترک کر دیا تو اس سے ذمہ اٹھ گیا ، اور شراب نہ پینا کیونکہ وہ تمام برائیوں کی چابی ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ ابن ماجہ ۔

وَعَن أبي الدَّرْدَاء قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي أَنْ لَا تُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ وَلَا تَتْرُكْ صَلَاةً مَكْتُوبَة مُتَعَمدا فَمن تَركهَا مُتَعَمدا فقد بَرِئت مِنْهُ الذِّمَّةُ وَلَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كل شَرّ. رَوَاهُ ابْن مَاجَه

581

عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ نماز ظہر کا وقت ، زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جانے اور عصر کا وقت نہ ہونے تک رہتا ہے ، اور عصر کا وقت سورج کے زرد ہو جانے سے پہلے تک رہتا ہے ، اور مغرب کا وقت شفق (غروب آفتاب کے بعد افق پر جو سرخی ہوتی ہے) کے رہنے تک رہتا ہے ، اور عشاء کا وقت نصف شب تک رہتا ہے جبکہ نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب سے پہلے تک رہتا ہے ، اور جب سورج طلوع ہونے لگے تو پھر نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ شیطان کے سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

عَن عبد اللَّهِ ابْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبِ الشَّفَقُ وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ الْأَوْسَطِ وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَأَمْسِكْ عَنِ الصَّلَاة فَإِنَّهَا تطلع بَين قَرْني شَيْطَان» . رَوَاهُ مُسلم

582

بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، کسی آدمی نے نمازوں کے اوقات کے بارے میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا :’’ تم دو دن ہمارے ساتھ نماز پڑھو ۔‘‘ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے بلال کو حکم فرمایا تو انہوں نے اذان دی ، پھر آپ نے حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی ، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے عصر کے لیے اقامت کہی جبکہ سورج بلند صاف چمک دار تھا ، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے سورج غروب ہو جانے پر مغرب کے لیے اقامت کہی ، اور پھر جب شفق غائب ہو گئی تو آپ نے انہیں نماز عشاء کے لیے اقامت کہنے کا حکم فرمایا ، پھر جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ نے انہیں نماز فجر کے لیے اقامت کہنے کا حکم فرمایا ، دوسرے روز آپ نے انہیں ظہر کو ٹھنڈا کرنے کا حکم فرمایا تو انہوں نے اسے خوب مؤخر کیا ، آپ نے عصر پڑھی جبکہ سورج بلند تھا ، آپ نے گزشتہ روز سے اسے مؤخر کیا ، آپ نے شفق غائب ہو جانے سے پہلے مغرب پڑھی اور تہائی رات گزر جانے کے بعد عشاء پڑھی ، اور فجر ، طلوع فجر کے روشن ہو جانے پر پڑھی ، پھر فرمایا :’’ نمازوں کے اوقات معلوم کرنے والا شخص کہاں ہے ؟‘‘ تو اس آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تمہاری نمازوں کا وقت ان اوقات کے مابین ہے جس کا تم ملاحظہ کر چکے ہو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

وَعَن بُرَيْدَة قَالَ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ لَهُ: «صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ» يَعْنِي الْيَوْمَيْنِ فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الظُّهْرَ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلَمَّا أَنْ كَانَ الْيَوْمُ الثَّانِي أَمَرَهُ فَأَبْرَدَ بِالظُّهْرِ فَأَبْرَدَ بِهَا فَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ بِهَا وَصَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ أَخَّرَهَا فَوْقَ الَّذِي كَانَ وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ بَعْدَمَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ وَصَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا ثُمَّ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «وَقْتُ صَلَاتكُمْ بَين مَا رَأَيْتُمْ» . رَوَاهُ مُسلم

583

ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جبریل ؑ نے بیت اللہ کے قریب مجھے دو مرتبہ نماز پڑھائی (ایک مرتبہ) جب سورج تسمہ کے برابر ڈھل گیا تو انہوں نے مجھے ظہر پڑھائی ، اور جب ہر چیز کا سایہ اس (چیز) کے مثل ہو گیا تو انہوں نے مجھے عصر پڑھائی ، جس وقت روزہ دار افطار کرتا ہے اس وقت مجھے مغرب پڑھائی ، اور شفق ختم ہو جانے پر مجھے عشاء پڑھائی ، اور جس وقت روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اس وقت مجھے فجر پڑھائی ۔ پس اگلا روز ہوا تو انہوں نے مجھے ظہر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس (چیز) کے مثل ہو گیا ، اور جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو گیا تو مجھے عصر پڑھائی ، اور جس وقت روزہ دار افطار کرتا ہے اس وقت مجھے مغرب پڑھائی ، اور تہائی رات گزرنے پر مجھے عشاء پڑھائی ، اور صبح روشن ہو جانے پر نماز فجر پڑھائی ، پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : محمد ! صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ آپ سے پہلے انبیا علیہم السلام کا وقت ہے اور نمازوں کا وقت انہی دو اوقات کے مابین ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّنِي جِبْرِيلُ عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ فَصَلَّى بِيَ الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاكِ وَصَلَّى بِيَ الْعَصْرَ حِين كَانَ ظلّ كل شَيْء مثله وَصلى بِي يَعْنِي الْمغرب حِين أفطر الصَّائِم وَصلى بِي الْعشَاء حِينَ غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّى بِيَ الْفَجْرَ حِينَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَى الصَّائِمِ فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ صَلَّى بِيَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ وَصَلَّى بِيَ الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَيْهِ وَصَلَّى بِيَ الْمَغْرِبَ حِينَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ وَصَلَّى بِيَ الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ وَصَلَّى بِيَ الْفَجْرَ فَأَسَفَرَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذَا وَقْتُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ وَالْوَقْتُ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ

584

ابن شہاب (زہریؒ) سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے نماز عصر میں کچھ تاخیر کی تو عروہ (بن زبیر ؒ) نے انہیں کہا : آگاہ رہو کہ جبریل ؑ تشریف لائے تو انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آگے نماز پڑھی ، تو عمر ؒ نے فرمایا : عروہ ! تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ تم کیا کر رہے ہو ، انہوں نے کہا : میں نے بشیر بن ابی مسعود ؒ کو بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے کہا میں نے ابومسعود ؓ سے سنا وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جبریل ؑ تشریف لائے تو انہوں نے میری امامت کرائی ، تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ (دوسری) نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ۔‘‘ یوں پانچ دفعہ اپنی انگلیوں پر شمار کیا ۔ متفق علیہ۔

وَعَن ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ: أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ قَدْ نَزَلَ فَصَلَّى أَمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ فَقَالَ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «نَزَلَ جِبْرِيلُ فَأَمَّنِي فَصَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ» يحْسب بأصابعه خمس صلوَات

585

عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے امراء کے نام خط لکھا کہ میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم کام نماز ہے ، جس نے اس کی حفاظت و پابندی کی اس نے اپنے دین کی حفاظت کی ، اور جس نے اسے ضائع کیا تو پھر وہ اس کے علاوہ دیگر امور دین کو زیادہ ضائع کرنے والا ہے ، پھر آپ نے لکھا کہ نماز ظہر کا وقت یہ ہے کہ سایہ ایک ہاتھ ہو اور یہ اس وقت تک رہتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کا سایہ اس (آدمی) کے سائے کے برابر ہو جائے ، اور نماز عصر کا وقت یہ ہے کہ سورج بلند ، سفید اور چمک دار ہو اور اتنا وقت ہو کہ سوار غروب آفتاب سے پہلے دو یا تین فرسخ (تقریباً دس یا پندرہ کلو میٹر) کا فاصلہ طے کر سکے ، اور نماز مغرب کا وقت وہ ہے جب سورج غروب ہو جائے ، اور نماز عشاء کا وقت شفق ختم ہونے سے شروع ہوتا ہے اور تہائی رات تک رہتا ہے ، پس جو شخص سو جائے تو (اللہ کرے) اس کی آنکھ کو آرام حاصل نہ ہو ، جو شخص سو جائے تو اس کی آنکھ کو آرام حاصل نہ ہو ، جو سو جائے تو (اللہ کرے) اس کی آنکھ کو آرام حاصل نہ ہو اور صبح کا وقت وہ ہے کہ جب صبح صادق ہو جائے لیکن ستارے ابھی نمایاں ہوں ۔ صحیح ، رواہ مالک ۔

وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ إِنَّ أَهَمَّ أُمُورِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاة فَمن حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا حَفِظَ دِينَهُ وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ ثُمَّ كَتَبَ أَنْ صلوا الظّهْر إِذا كَانَ الْفَيْءُ ذِرَاعًا إِلَى أَنْ يَكُونَ ظِلُّ أَحَدِكُمْ مِثْلَهُ وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ قَدْرَ مَا يَسِيرُ الرَّاكِبُ فَرْسَخَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً قبل مغيب الشَّمْس وَالْمغْرب إِذا غربت الشَّمْسُ وَالْعِشَاءَ إِذَا غَابَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ وَالصُّبْحَ وَالنُّجُومُ بَادِيَةٌ مُشْتَبِكَةٌ. رَوَاهُ مَالك

586

ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موسم گرما میں نماز ظہر اس وقت پڑھتے تھے جب آدمی کا سایہ تین قدم سے پانچ قدم تک ہوتا جبکہ موسم سرما میں سایہ پانچ سے سات قدم تک ہوتا ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَ قَدْرُ صَلَاةِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الظّهْر فِي الصَّيْفِ ثَلَاثَةَ أَقْدَامٍ إِلَى خَمْسَةِ أَقْدَامٍ وَفِي الشِّتَاءِ خَمْسَةَ أَقْدَامٍ إِلَى سَبْعَةِ أَقْدَامٍ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ

587

سیار بن سلامہ ؒ بیان کرتے ہیں، میں اور میرے والد ابوبرزہ اسلمی ؓ کے پاس گئے تو میرے والد نے ان سے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی فرض نماز کی کیفیت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا : آپ نماز ظہر ، جسے تم پہلی نماز کہتے ہو ، اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج ڈھل جاتا ، آپ نماز عصر پڑھتے تو پھر ہم میں سے کوئی مدینہ کے آخری کنارے واقع اپنی رہائش گاہ پر واپس جاتا تو سورج بالکل سفید اور چمک دار ہوتا تھا ، راوی بیان کرتے ہیں ، میں مغرب کے بارے میں بھول گیا کہ انہوں نے کیا کہا تھا ، اور جب آپ نماز عشاء جسے تم ((عَتَمَہ)) کہتے ہو ، کو تاخیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے ، آپ اس (نماز عشاء) سے پہلے سو جانا اور اس کے بعد باتیں کرنا ، نا پسند فرماتے تھے ، اور آپ نماز فجر میں سلام پھیر کر نمازیوں کی طرف رخ فرماتے تو اس وقت ہر نمازی اپنے ساتھ والے نمازی کو پہچان لیتا تھا ، اور آپ ساٹھ سے سو آیات تک تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ اور ایک روایت میں ہے : آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلمؑ نماز عشاء کو تہائی رات تک بغیر کسی پرواہ کے مؤخر کر دیا کرتے تھے ۔ اور آپ نماز عشاء سے پہلے سونا اور اس کے بعد باتیں کرنے کو نا پسند کیا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔

عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ فَقَالَ لَهُ أَبِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ فَقَالَ كَانَ يُصَلِّي الْهَجِيرَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْأُولَى حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ وَيُصلي الْعَصْر ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمغرب وَكَانَ يسْتَحبّ أَن يُؤَخر الْعشَاء الَّتِي تَدْعُونَهَا الْعَتَمَةَ وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا والْحَدِيث بعْدهَا وَكَانَ يَنْفَتِل مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ وَيَقْرَأُ بِالسِتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ. وَفِي رِوَايَةٍ: وَلَا يُبَالِي بِتَأْخِيرِ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ وَلَا يُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا

588

محمد بن عمرو بن حسن بن علی ؒ بیان کرتے ہیں ، ہم نے جابر ؓ سے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نمازوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا : آپ نماز ظہر زوال آفتاب کے فوراً بعد جبکہ عصر اس وقت پڑھتے جب سورج خوب روشن اور چمک دار ہوتا ، اور مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج غروب ہو جاتا ، جبکہ عشاء کے بارے میں ایسے تھا کہ جب لوگ زیادہ اکٹھے ہو جاتے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جلدی پڑھ لیتے اور جب نمازی کم ہوتے تو اسے تاخیر سے پڑھتے اور فجر کی نماز تاریکی میں پڑھا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔

وَعَن مُحَمَّد بن عَمْرو هُوَ ابْن الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ وَالْمَغْرِبَ إِذَا وَجَبَتْ وَالْعِشَاءَ إِذَا كَثُرَ النَّاسُ عَجَّلَ وَإِذَا قَلُّوا أَخَّرَ وَالصُّبْح بِغَلَس