ابوموسی ٰ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ بھوکے کو کھانا کھلاؤ ، مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو رہائی دلاؤ ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَعُودُوا الْمَرِيض وفكوا العاني» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں : سلام کا جواب دینا ، مریض کی عیادت کرنا ، جنازہ کے ساتھ جانا ، دعوت قبول کرنا اور چھینکنے والے کا (یرحمک اللہ کہہ کر اسے) جواب دینا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّلَامِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ وَإِجَابَةُ الدعْوَة وتشميت الْعَاطِس
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں ۔‘‘ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب تو اس سے ملاقات کرے تو اسے سلام کر ، جب وہ تمہیں دعوت دے تو اسے قبول کر ، جب وہ تم سے نصیحت چاہے تو اسے نصیحت کر ، جب وہ چھینک مار کر (الحمد للہ) کہے تو تو اسے (یرحمک اللہ) کہہ کر جواب دے ، جب بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کر اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ شریک ہو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ» . قِيلَ: مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ» . رَوَاهُ مُسلم
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم فرمایا اور سات چیزوں سے ہمیں منع فرمایا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مریض کی عیادت کرنے ، جنازوں کے ساتھ شریک ہونے ، چھینک مارنے والے کا جواب دینے ، سلام کا جواب دینے ، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے ، قسم اٹھانے والے کی قسم پوری کرنے اور مظلوم کی مدد کرنے کا ہمیں حکم فرمایا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی ، ریشم ، موٹے ریشم ، باریک ریشم ، سرخ زین پوش ، قسی کپڑے سے اور چاندی کے برتن سے ہمیں منع فرمایا ، اور ایک روایت میں ہے : چاندی کے برتن میں پینے سے (منع فرمایا) کیونکہ جس نے اس میں دنیا میں پیا وہ آخرت میں نہیں پیئے گا ۔ متفق علیہ ۔
وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ أَمَرَنَا: بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَرَدِّ السَّلَامِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِي وَإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَنَهَانَا عَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ وَعَنِ الْحَرِيرِ والْإِسْتَبْرَقِ وَالدِّيبَاجِ وَالْمِيثَرَةِ الْحَمْرَاءِ وَالْقَسِّيِّ وَآنِيَةِ الْفِضَّةِ وَفِي رِوَايَةٍ وَعَنِ الشُّرْبِ فِي الْفِضَّةِ فَإِنَّهُ مَنْ شَرِبَ فِيهَا فِي الدُّنْيَا لم يشرب فِيهَا فِي الْآخِرَة
ثوبان ؓبیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ واپس آنے تک جنت کے میوے کھانے میں مصروف رہتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسلم لم يزل فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ روز قیامت فرمائے گا : ابن آدم ! میں بیمار ہوا اور تم نے میری عیادت نہیں کی ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! میں آپ کی کیسے عیادت کرتا جبکہ آپ تو ربّ العالمین ہیں ۔ اللہ فرمائے : کیا تجھے علم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا اور تو نے اس کی عیادت نہ کی ، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا ، ابن آدم ! میں نے تم سے کھانا طلب کیا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ دیا ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! میں تمہیں کیسے دیتا ، جبکہ تو رب العالمین ہے ، اللہ فرمائے گا : کیا تجھے علم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا ، کیا تجھے علم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس (کے ثواب) کو میرے پاس پاتا ، ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا ، وہ عرض کرے گا رب جی ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جبکہ تو تمام جہانوں کا رب ہے ، اللہ فرمائے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا ، اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اس (کے ثواب) کو میرے پاس پاتا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِن الله عز وَجل يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَّا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أُطْعِمُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ أما إِنَّك لَو سقيته لوجدت ذَلِك عِنْدِي . رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ، جب آپ کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو یوں فرماتے :’’ کوئی بات نہیں ، اگر اللہ نے چاہا تو (یہ بیماری گناہوں سے) پاکیزگی کا باعث ہو گی ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بھی یہی فرمایا :’’ کوئی بات نہیں ، اگر اللہ نے چاہا ‘ تو (یہ بیماری گناہوں سے) پاکیزگی کا باعث ہو گی ۔‘‘ اس اعرابی نے کہا : ہرگز نہیں ، بلکہ بخار ایک بوڑھے شخص پر جوش مار رہا ہے ، یہ تو قبروں تک پہنچا کر رہے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس کی یہ بات سن کر) فرمایا :’’ ہاں ! یہ ایسے ہی ہو گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ قَالَ: «لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» فَقَالَ لَهُ: «لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» . قَالَ: كَلَّا بَلْ حُمَّى تَفُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تزيره الْقُبُور. فَقَالَ: «فَنعم إِذن» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب ہم میں سے کوئی بیمار ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے پھر یہ دعا پڑھتے :’’ لوگوں کے پروردگار ! بیماری دور کر دے ، شفا عطا فرما ، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ، تو شفا دینے والا ہے ، اور ایسی شفا عطا فرما جو کسی بیماری کو باقی نہ چھوڑے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى مِنَّا إِنْسَانٌ مَسَحَهُ بِيَمِينِهِ ثُمَّ قَالَ: «أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءٌ لَا يُغَادِرُ سَقَمًا»
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب انسان کے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی یا اسے کوئی پھوڑا ہوتا یا کوئی زخم ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرماتے :’’ اللہ کے نام (کی برکت) سے ، ہماری زمین کی مٹی ، ہمارے بعض کی تھوک کے ساتھ اللہ کے حکم سے ہمارے بیمار کو شفا بخشی جائے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ إِذَا اشْتَكَى الْإِنْسَانُ الشَّيْءَ مِنْهُ أَوْ كَانَتْ بِهِ قَرْحَةٌ أَوْ جُرْحٌ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُصْبُعِهِ: «بِسْمِ اللَّهِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا لِيُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذن رَبنَا»
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوتے تو آپ معوذات پڑھ کر اپنے آپ پر دم کرتے اور اپنے جسم پر اپنا ہاتھ پھیرتے ، جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو پھر میں آپ کو معوذات پڑھ کر دم کیا کرتی تھی جو کہ آپ اپنے آپ کو دم کیا کرتے تھے لیکن میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی تھی ۔ اور مسلم کی روایت میں ہے ، فرماتی ہیں : جب آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی شخص مریض ہوتا تو آپ معوذات پڑھ کر اس پر دم کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى نَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ كُنْتُ أَنْفِثُ عَلَيْهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ قَالَتْ: كَانَ إِذَا مَرِضَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ نَفَثَ عَلَيْهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ
عثمان بن ابی العاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے جسم کی تکلیف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا :’’ اپنے جسم کے تکلیف والے حصے پر اپنا ہاتھ رکھو ، اور تین مرتبہ بسم اللہ پڑھ کر سات مرتبہ یہ دعا پڑھو :((اعوذ بعزۃ اللہ و قدرتہ من شر ما اجد و احاذر)) میں ہر اس شر سے جو میں پاتا ہوں اور جس سے میں غم زدہ ہوں اللہ کے غلبے اور اس کی قدرت کی پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، میں نے ایسے کیا تو اللہ نے میری وہ تکلیف دور کر دی ۔ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعًا يَجِدُهُ فِي جَسَدِهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ضَعْ يَدَكَ عَلَى الَّذِي يَأْلَمُ مِنْ جَسَدِكَ وَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ ثَلَاثًا وَقُلْ سَبْعَ مَرَّاتٍ: أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ . قَالَ: فَفَعَلْتُ فَأَذْهَبَ اللَّهُ مَا كَانَ بِي. رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ جبریل ؑ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا : محمد ! آپ بیمار ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ! ‘‘ تو انہوں نے یوں دم کیا : میں آپ کو تکلیف دینے والی ہر چیز سے ، ہر نفس کے شر سے یا حاسد کی نظر سے اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں ، اللہ آپ کو شفا عطا فرمائے ، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں ۔ رواہ مسلم ۔
وَعَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ أَن جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَشْتَكَيْتَ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ» . قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شرك كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِسم الله أرقيك. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن و حسین ؓ کو ان کلمات کے ساتھ اللہ کی پناہ میں دیتے تھے :’’ میں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر شیطان ، زہریلے جانور اور ہر ضرر رساں نظر کے شر سے تمہیں بچاتا ہوں ۔‘‘ اور آپ فرمایا کرتے تھے :’’ تمہارے باپ (ابراہیم ؑ) ان کلمات کے ذریعے اسماعیل ؑ و اسحاق ؑ کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے ۔‘‘ بخاری ، مصابیح کے اکثر نسخوں میں تثنیہ کا صیغہ [بھما] ہے ۔ رواہ مسلم ۔
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يعوذ الْحسن وَالْحسن: «أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ» وَيَقُولُ: «إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ يعوذ بهما إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَفِي أَكْثَرِ نُسَخِ المصابيح: «بهما» على لفظ التَّثْنِيَة
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کسی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ ؓ اور ابوسعید ؓ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مسلمان کو جو پریشانی ، غم ، رنج ، تکلیف اور دکھ پہنچتا ہے حتیٰ کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ اس (تکلیف) کی وجہ سے اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَن أبي هُرَيْرَة وَأبي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ وَلَا أَذًى وَلَا غَمٍّ حَتَّى الشَّوْكَةُ يُشَاكُهَا إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بهَا من خطاياه»
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بخار میں مبتلا تھے ، میں نے آپ کو اپنا ہاتھ لگایا تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ تو بہت سخت بخار میں مبتلا ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں ، مجھے تمہارے دو آدمیوں جیسا بخار ہوتا ہے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں : میں نے عرض کیا ، یہ اس لیے کہ آپ کے لیے دو گنا اجر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ہاں !‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب مسلمان کو کسی مرض یا کسی اور وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ اس وجہ سے اس کے گناہ اس طرح گرا دیتا ہے جس طرح (موسم خزاں میں) درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ فَمَسِسْتُهُ بِيَدِي فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَجَلْ إِنِّي أُوعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانِ مِنْكُمْ» . قَالَ: فَقُلْتُ: ذَلِكَ لِأَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ؟ فَقَالَ: «أَجَلْ» . ثُمَّ قَالَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى مِنْ مَرَضٍ فَمَا سِوَاهُ إِلَّا حَطَّ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا»
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھا ۔ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا الْوَجَعُ عَلَيْهِ أَشَدُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو آپ کا سر مبارک میری تھوڑی اور سینے کے درمیان تھا ، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی موت کی سختی) کے بعد میں کسی پر موت کی سختی کو کبھی برا نہیں سمجھتی ۔ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ حَاقِنَتِي وَذَاقِنَتِي فَلَا أَكْرَهُ شِدَّةَ الْمَوْتِ لِأَحَدٍ أَبَدًا بَعْدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مومن کی مثال کھیتی کی نرم و نازک شاخ کی طرح ہے جسے ہوائیں جھکاتی ہیں ۔ کبھی اسے نیچے گرا دیتی ہیں اور کبھی سیدھا کر دیتی ہیں ، حتیٰ کہ اس کی اجل آ جاتی ہے ، جبکہ منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے ، جس پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ ایک ہی مرتبہ ٹوٹ جاتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ تُفَيِّئُهَا الرِّيَاح تصرعها مرّة وتعدلها أُخْرَى حَتَّى يَأْتِيهِ أَجَلُهُ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الْأَرْزَةِ الْمُجْذِيَةِ الَّتِي لَا يُصِيبُهَا شَيْءٌ حَتَّى يَكُونَ انْجِعَافُهَا مَرَّةً وَاحِدَة»
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ مومن کی مثال کھیتی کی سی ہے جسے ہوا جھکا دیتی ہے ، اور مومن کو مصائب آتے رہتے ہیں ، جبکہ منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے وہ حرکت نہیں کرتا حتیٰ کہ اسے کاٹ دیا جاتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الزَّرْعِ لَا تزَال لاريح تميله وَلَا يزَال الْمُؤمن يصبيه الْبَلَاءُ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ شَجَرَةِ الْأَرْزَةِ لَا تهتز حَتَّى تستحصد»
جابر بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام سائب ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو فرمایا :’’ آپ کیوں کانپ رہی ہیں ؟‘‘ انہوں نے بتایا : بخار ہے ، اللہ اسے برکت نہ دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ بخار کو برا بھلا نہ کہو ، کیونکہ وہ بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل دور کر دیتی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: دَخَلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمِّ السَّائِبِ فَقَالَ: «مَالك تُزَفْزِفِينَ؟» . قَالَتِ: الْحُمَّى لَا بَارَكَ اللَّهُ فِيهَا فَقَالَ: «لَا تَسُبِّي الْحُمَّى فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ كَمَا يُذْهِبُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب بندہ بیمار ہو جائے یا وہ سفر پر ہو تو اس کے لیے اتنا ہی عمل (ثواب) لکھ دیا جاتا ہے جتنا وہ حالت قیام اور حالت صحت میں کیا کرتا تھا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا مَرِضَ الْعَبْدُ أَوْ سَافَرَ كُتِبَ لَهُ بِمِثْلِ مَا كَانَ يعْمل مُقيما صَحِيحا» رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ طاعون مسلمان کی شہادت ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الطَّاعُونُ شَهَادَةٌ لكل مُسلم»
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ شہداء پانچ قسم کے ہیں ، طاعون کے مرض سے ، پیٹ کے مرض سے ، ڈوب جانے سے فوت ہونے والا ، کسی دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مر جانے والا اور اللہ کی راہ میں شہید ہو جانے والا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِيقُ وَصَاحب الْهدم والشهيد فِي سَبِيل الله»
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طاعون کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ تو ایک طرح کا عذاب ہے ، اللہ جس پر چاہتا ہے اسے مسلط کر دیتا ہے ، اور اللہ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت بنایا ہے ، جو شخص طاعون کی وبا آ جانے پر صبر اور ثواب کی امید کرتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ اللہ نے جو اس کے متعلق لکھ دیا ہے وہ اسے پہنچ کر رہے گا ، اپنے شہر میں ٹھہر جاتا ہے تو اس کے لیے شہید کے مثل اجر و ثواب ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ فَأَخْبَرَنِي: «أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ