عثمان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور (دوسروں کو) سکھایا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُكُمْ من تعلم الْقُرْآن وَعلمه» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے جبکہ ہم صفہ میں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ وہ ہر روز صبح کے وقت وادی بطحان یا وادی عقیق جائے اور کسی گناہ اور قطع رحمی کا ارتکاب کیے بغیر وہاں سے بڑی کوہان والی دو اونٹنیاں لے آئے ؟‘‘ ہم نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم سب اسے پسند کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی صبح کے وقت مسجد کیوں نہیں آتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے دو آیتیں سیکھے یا پڑھے ، تو یہ اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے اور تین (آیتیں) اس کے لیے تین (اونٹنیوں) سے اور چار ، چار سے بہتر ہیں ، اور وہ جتنی زیادہ ہوں گی ، وہ اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر ہوں گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي الصُّفَّةِ فَقَالَ: «أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ كُلَّ يَوْم إِلَى بطحان أَو إِلَى العقيق فَيَأْتِي مِنْهُ بِنَاقَتَيْنِ كَوْمَاوَيْنِ فِي غَيْرِ إِثْمٍ وَلَا قَطْعِ رحم» فَقُلْنَا يَا رَسُول الله نُحِبُّ ذَلِكَ قَالَ: «أَفَلَا يَغْدُو أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَعْلَمُ أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ الله عز وَجل خير لَهُ من نَاقَة أَو نَاقَتَيْنِ وَثَلَاثٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثٍ وَأَرْبَعٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الْإِبِل» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر جائے تو وہاں تین بڑی موٹی تازی حاملہ اونٹنیاں پائے ؟‘‘ ہم نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں تین آیات پڑھتا ہے تو وہ (تین آیات) اس کے لیے تین موٹی تازی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ» . قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ «فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَأُ بِهِنَّ أَحَدُكُمْ فِي صلَاته خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ» . رَوَاهُ مُسلم
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ماہر قرآن ، اطاعت گزار معزز لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا ، اور جو شخص اٹک اٹک کر قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس پر دشوار ہوتا ہے تو اس کے لیے دہرا اجر ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شاق لَهُ أَجْرَانِ»
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے ، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن (کا علم) عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس (کی تلاوت و عمل) کا اہتمام کرتا ہو ، اور ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس میں سے خرچ کرتا ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حَسَدَ إِلَّا على اثْنَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَار
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ قرآن کی تلاوت کرنے والا مومن نارنگی کی طرح ہے اس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور وہ خوش ذائقہ بھی ہے ، اور قرآن کی تلاوت نہ کرنے والا مومن کھجور کی طرح ہے ، جس کی خوشبو نہیں لیکن اس کا ذائقہ شیریں ہے ، اورر قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال تمے کی طرح ہے جس کی خوشبو نہیں اور اس کا ذائقہ کڑوا ہے جبکہ قرآن پڑھنے والا منافق نازبو کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی ہے اور ذائقہ کڑوا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔ اور ایک روایت میں ہے :’’ قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والا مومن ترنجبین کی مثل ہے جبکہ قرآن نہ پڑھنے والا لیکن اس پر عمل کرنے والا مومن کھجور کی طرح ہے ۔‘‘
وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مثل الْمُؤمن الَّذِي يقْرَأ الْقُرْآن كَمثل الْأُتْرُجَّةِ رِيحُهَا طِيبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يقْرَأ الْقُرْآن كَمثل التمرة لَا ريح لَهَا وطعمها حلوومثل الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ لَيْسَ لَهَا رِيحٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يقْرَأ الْقُرْآن مثل الريحانة رِيحهَا طيب وَطَعْمُهَا مَرٌّ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ: «الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَعْمَلُ بِهِ كَالْأُتْرُجَّةِ وَالْمُؤْمِنُ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَعْمَلُ بِهِ كَالتَّمْرَةِ»
عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ بے شک اللہ ، اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو رفعت عطا فرماتا ہے اور کچھ لوگوں کو پستی کا شکار کر دیتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن الله يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ اُسید بن حضیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ رات کے وقت سورۂ بقرہ تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس بندھا ہوا تھا کہ گھوڑا اچانک اچھلنے لگا ، وہ خاموش ہو گئے تو وہ (گھوڑا) بھی ٹھہر گیا ، انہوں نے پھر پڑھا تو گھوڑا پھر اچھلنے لگا وہ خاموش ہو گئے تو وہ (گھوڑا) بھی ٹھہر گیا ۔ انہوں نے پھر پڑھا تو گھوڑا پھر اچھلنے لگا ، وہ فارغ ہوئے ، اور ان کا بیٹا یحیی اس (گھوڑے) کے قریب ہی تھا ، لہذا انہیں اندیشہ ہوا کہ وہ اسے نقصان نہ پہنچائے اور جب انہوں نے اسے دور کیا ، اور آسمان کی طرف سر اٹھایا تو سائبان سا دکھائی دیا جس میں چراغوں کی طرح روشنی تھی ، جب صبح ہوئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ابن حضیر ! پڑھ ، ابن حضیر ! تم پڑھتے رہتے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا اللہ کے رسول ! مجھے اندیشہ ہوا کہ (اگر میں پڑھتا رہتا تو) وہ یحیی کو روند ڈالتا ، کیونکہ وہ اس کے قریب تھا ، لہذا میں اس کی طرف متوجہ ہو گیا ، میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو (اوپر) سائبان کی طرح کوئی چیز تھی اور اس میں چراغوں جیسی کوئی چیز تھی ، میں باہر نکلا حتیٰ کہ میں نے اس (روشنی) کو نہ دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تم جانتے ہو وہ کیا تھا ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، نہیں ، فرمایا :’’ وہ فرشتے تھے جو تمہاری آواز کے قریب آ گئے تھے ، اگر تم پڑھتے رہتے تو وہ وہیں رہتے اور لوگ انہیں دیکھ لیتے اور وہ ان سے مخفی نہ رہتے ۔‘‘ متفق علیہ ۔ اور یہ الفاظ حدیث بخاری کے ہیں ، اور صحیح مسلم میں ہے :’’ میں باہر نکلا ‘‘ صیغہ متکلم کے بدل لفظ :’’ وہ فضا میں بلند ہو گئے ‘‘ استعمال ہوا ہے ۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ أُسَيْدَ بنَ حُضَيْرٍ قَالَ: بَيْنَمَا هُوَ يَقْرَأُ مِنَ اللَّيْلِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَفَرَسُهُ مَرْبُوطَةٌ عِنْدَهُ إِذْ جَالَتِ الْفرس فَسكت فَسَكَتَتْ فَقَرَأَ فجالت الْفرس فَسكت فَسَكَتَتْ الْفرس ثُمَّ قَرَأَ فَجَالَتِ الْفَرَسُ فَانْصَرَفَ وَكَانَ ابْنُهُ يحيى قَرِيبا مِنْهَا فأشفق أَن تصيبه فَلَمَّا أَخَّرَهُ رَفْعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا مِثْلُ الظُّلَّةِ فِيهَا أَمْثَالُ الْمَصَابِيحِ فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ» . قَالَ فَأَشْفَقْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَطَأَ يحيى وَكَانَ مِنْهَا قَرِيبا فَرفعت رَأْسِي فَانْصَرَفْتُ إِلَيْهِ وَرَفَعْتُ رَأْسِي إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا مِثْلُ الظُّلَّةِ فِيهَا أَمْثَالُ الْمَصَابِيحِ فَخَرَجَتْ حَتَّى لَا أَرَاهَا قَالَ: «وَتَدْرِي مَا ذَاكَ؟» قَالَ لَا قَالَ: «تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهَا لَا تَتَوَارَى مِنْهُمْ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ وَفِي مُسْلِمٍ: «عرجت فِي الجو» بدل: «خرجت على صِيغَة الْمُتَكَلّم»
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں ایک آدمی سورۂ کہف پڑھ رہا تھا ، اور اس کے ایک جانب ایک گھوڑا دو مضبوط رسیوں سے بندھا ہوا تھا ، پس بادل کے ٹکڑے نے اس (آدمی) کو ڈھانپ لیا اور وہ اس کے قریب سے قریب تر ہونے لگا ، جبکہ اس کا گھوڑا بدکنے لگا ، جب صبح ہوئی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ سکینت تھی جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی تھی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ يَقْرَأُ سُورَةَ الْكَهْفِ وَإِلَى جَانِبِهِ حِصَانٌ مَرْبُوطٌ بِشَطَنَيْنِ فَتَغَشَّتْهُ سَحَابَةٌ فَجَعَلَتْ تَدْنُو وَتَدْنُو وَجَعَلَ فَرَسُهُ يَنْفِرُ فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «تِلْكَ السكينَة تنزلت بِالْقُرْآنِ»
ابوسعید بن معلی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلایا ، میں نے آپ کی آواز پر لبیک کہی ، پھر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نماز پڑھ رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا اللہ نے نہیں فرمایا ! جب اللہ اور اس کا رسول تمہیں بلائیں تو تم ان کی اطاعت کرو ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا میں ، اس سے پہلے کہ تم مسجد سے باہر نکلو ، تمہیں قرآن کی عظیم سورت نہ سکھاؤں ؟‘‘ آپ نے مجھے ہاتھ سے پکڑ لیا ، جب ہم نے مسجد سے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا تھا کہ میں تمہیں قرآن کی عظیم تر سورت سکھاؤں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ (الحمد للہ رب العالمین) ’’ سورۂ فاتحہ ‘‘ وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ بْنِ الْمُعَلَّى قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فَلم أجبه حَتَّى صليت ثُمَّ أَتَيْتُهُ. فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كنت أُصَلِّي فَقَالَ أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ (اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دعَاكُمْ) ثمَّ قَالَ لي: «أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ» . فَأَخَذَ بِيَدِي فَلَمَّا أَرَادَ أَن يخرج قلت لَهُ ألم تقل لأعلمنك سُورَة هِيَ أعظم سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ: (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتهُ . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ، کیونکہ جس گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَجْعَلُوا بِيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ من الْبَيْت الَّذِي يقْرَأ فِيهِ سُورَة الْبَقَرَة» . رَوَاهُ مُسلم
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ،’’ قرآن پڑھا کرو ، کیونکہ وہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا ، سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران دو چمکتی ہوئی روشن سورتوں کو پڑھو ، کیونکہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئیں گی گویا کہ وہ دو بادل ہیں یا دو سائبان ہیں یا پرندوں کے غول ہیں جو صفیں باندھے ہوئے اپنے پڑھنے والوں کے حق میں بحث و مباحثہ کریں گے ، سورۂ بقرہ پڑھا کرو ، کیونکہ اسے حاصل کر لینا باعث برکت اور اسے ترک کر دینا باعث حسرت ہے ، اور جادوگر اسے حاصل نہیں کر سکتے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَو فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تستطيعها البطلة» . رَوَاهُ مُسلم
نواس بن سمعان ؓ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ قرآن اور اس پر عمل کرنے والوں کو روز قیامت لایا جائے گا ، سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران اس (قرآن کی سورتوں) کے آگے ہوں گی گویا وہ سیاہ بادل ہیں یا دو سائبان ہیں ان کے درمیان روشنی ہے ، یا وہ پرندوں کے دو غول ہیں جو صفیں باندھے ہوئے اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَن النواس بن سمْعَان قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تحاجان عَن صَاحبهمَا» . رَوَاهُ مُسلم
ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ابومنذر ! کیا تم جانتے ہو کہ تمہیں قرآن کریم کی کون سی سب سے عظیم آیت یاد ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا :’’ ابومنذر ! کیا تم جانتے ہو کہ تمہیں قرآن کریم کی کون سی سب سے عظیم آیت یاد ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : (اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم) ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا :’’ ابومنذر ! تمہیں علم مبارک ہو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا الْمُنْذِرِ أَتَدْرِي أَيُّ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَعَك أعظم؟» . قَالَ: قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: «يَا أَبَا الْمُنْذِرِ أَتَدْرِي أَيُّ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَعَك أعظم؟» . قَالَ: قُلْتُ (اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ القيوم) قَالَ فَضرب فِي صَدْرِي وَقَالَ: «وَالله لِيَهنك الْعلم أَبَا الْمُنْذر» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت کرنے پر مامور فرمایا ، پس ایک شخص میرے پاس آیا اور غلے سے لپیں بھرنے لگا ، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا : میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے کر جاؤں گا ، اس نے کہا : میں محتاج ہوں ، میرے بچے ہیں اور میں بہت ضرورت مند ہوں ، راوی بیان کرتے ہیں ، میں نے اسے چھوڑ دیا ، صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ابوہریرہ ! گزشتہ رات تیرے قیدی نے کیا کیا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس نے سخت ضرورت اور بچوں کی شکایت کی تو مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس نے تمہارے ساتھ غلط بیانی کی اور وہ پھر آئے گا ۔‘‘ میں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ پھر آئے گا لہذا میں اس کی تاک میں بیٹھ گیا ، وہ آیا اور غلہ بھرنے لگا تو میں نے اسے پکڑ لیا ، اور میں نے کہا : میں تمہیں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا ۔ اس نے کہا : میں ضرورت مند اور عیال دار ہوں ، میں پھر نہیں آؤں گا ۔ میں نے اس پر ترس کھاتے ہوئے اسے چھوڑ دیا ، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا :’’ ابوہریرہ ! تمہارے قیدی کا کیا ہوا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس نے سخت ضرورت اور بچوں کی شکایت کی تو میں نے اس پر رحم کھاتے ہوئے اسے چھوڑ دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس نے تو تم سے غلط بیانی کی اور وہ پھر آئے گا ۔‘‘ میں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ ضرور آئے گا ۔ میں اس کی تاک میں بیٹھ گیا ، وہ آیا اور غلہ بھرنے لگا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا : میں تمہیں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا اور یہ تیسری اور آخری مرتبہ ہے ، تم کہتے ہو میں پھر نہیں آؤں گا لیکن پھر آ جاتے ہو ، اس نے کہا مجھے چھوڑ دو ، میں تمہیں چند کلمات سکھاؤں گا جن کے ذریعے اللہ تمہیں فائدہ پہنچائے گا ۔ جب تم سونے کے لیے اپنے بستر پر آؤ تو مکمل آیت الکرسی پڑھو ، اس طرح اللہ کی طرف سے تم پر ایک محافظ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا حتیٰ کہ صبح ہو جائے گی ، میں نے اسے چھوڑ دیا ، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا :’’ تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اس نے کہا کہ وہ مجھے چند کلمات سکھائے گا جن کے ذریعے اللہ مجھے فائدہ پہنچائے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اس نے تم سے سچ کہا حالانکہ وہ جھوٹا ہے ، کیا تم جانتے ہو کہ تم تین روز سے کس کے ساتھ باتیں کرتے رہے ہو ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ شیطان تھا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو من الطَّعَام فَأَخَذته وَقلت وَالله لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ وَلِي حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ قَالَ فَخَلَّيْتُ عَنْهُ فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَة مَا فعل أسيرك البارحة» . قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ» . فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ لِقَوْلِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ سيعود» . فَرَصَدْتُهُ فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ لَا أَعُودُ فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ؟» قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذبك وَسَيَعُودُ» . فرصدته الثَّالِثَة فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ فَقُلْتُ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُول الله وَهَذَا آخِرُ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ إِنَّكَ تَزْعُمُ لَا تَعُودُ ثُمَّ تَعُودُ قَالَ دَعْنِي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ ينفعك الله بهَا قلت مَا هُوَ قَالَ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ (اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ) حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ من الله حَافظ وَلَا يقربنك شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ؟» قُلْتُ: زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَات يَنْفَعنِي الله بهَا فخليت سبيلهقال النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: «أما إِنَّه قد صدقك وَهُوَ كذوب تعلم من تخاطب مُنْذُ ثَلَاث لَيَال» . يَا أَبَا هُرَيْرَة قَالَ لَا قَالَ: «ذَاك شَيْطَان» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، اس دوران کے جبریل ؑ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے سر کے اوپر سے زور دار آواز سنی تو انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا :’’ یہ آسمان سے پہلی مرتبہ ایک دروازہ کھلا اور اس سے ایک فرشتہ نازل ہوا ہے ، جبریل ؑ نے فرمایا : یہ جو فرشتہ زمین کی طرف نازل ہوا ہے ، اس سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا ہے ، اس نے سلام عرض کیا ، تو کہا : آپ کو دو نوروں کی خوشخبری ہو ، وہ آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں ، آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے ، سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری (تین) آیات ، آپ (اور آپ کے متبعین) ان دونوں میں سے جو حرف (دعا) پڑھیں گے وہ آپ کو عطا کر دیا جائے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَن ابْن عَبَّاس قَالَ: بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: «هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ فَقَالَ هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَسَلَّمَ وَقَالَ أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أَعْطيته» . رَوَاهُ مُسلم
ابومسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں ایسی ہیں کہ جو شخص رات کے وقت انہیں پڑھ لے تو وہ اس کے لیے کافی ہو جاتی ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْآيَتَانِ مِنْ آخَرِ سُورَة الْبَقَرَة من قَرَأَ بهما فِي لَيْلَة كفتاه»
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص سورۂ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کر لے تو اسے (فتنہ) دجال سے بچا لیا جائے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَفِظَ عشر آيَات من أول سُورَة الْكَهْف عصم من فتْنَة الدَّجَّال» . رَوَاهُ مُسلم
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا تم میں سے کوئی رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، تہائی قرآن کیسے پڑھا جا سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ سورۂ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيَعْجَزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ فِي لَيْلَةٍ ثُلُثَ الْقُرْآنِ؟» قَالُوا: وَكَيْفَ يَقْرَأُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: «قُلْ هُوَ الله أحد» يعدل ثلث الْقُرْآن . رَوَاهُ مُسلم
امام بخاری ؒ نے اسے ابوسعید ؓ سے روایت کیا ہے ۔ رواہ البخاری ۔
وَرَوَاهُ البُخَارِيّ عَن أبي سعيد
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو کسی لشکر کا امیر بنا کر بھیجا ، وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتا تو قراءت کے آخر میں سورۂ اخلاص پڑھتا ، جب وہ واپس آئے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا :’’ اس سے پوچھو کے وہ ایسے کیوں کرتا تھا ؟‘‘ انہوں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا : کیونکہ وہ رحمان کی صفت ہے ، اور میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ اسے بتا دو کہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا عَلَى سَرِيَّةٍ وَكَانَ يَقْرَأُ لأَصْحَابه فِي صلَاتهم فيختم ب (قل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) فَلَمَّا رَجَعُوا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «سَلُوهُ لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذَلِكَ» فَسَأَلُوهُ فَقَالَ لِأَنَّهَا صفة الرَّحْمَن وَأَنا أحب أَن أَقرَأ بِهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْبِرُوهُ أَن الله يُحِبهُ»
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سورۂ اخلاص سے محبت کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا :’’ بے شک تمہاری اس سے محبت ہی تمہیں جنت میں لے جائے گی ۔‘‘ ترمذی ۔ اور امام بخاری نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے ۔ رواہ البخاری و الترمذی ۔
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُحِبُّ هَذِهِ السُّورَةَ: (قُلْ هُوَ الله أحد) قَالَ: إِنَّ حُبَّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وروى البُخَارِيّ مَعْنَاهُ
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج رات ایسی آیات نازل ہوئیں کہ ان جیسی پہلے نہیں دیکھی گئیں ، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَمْ تَرَ آيَاتٍ أُنْزِلَتِ اللَّيْلَةَ لَمْ يُرَ مِثْلُهُنَّ قَطُّ (قل أعوذ بِرَبّ الفلق) و (قل أعوذ بِرَبّ النَّاس) رَوَاهُ مُسلم
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر آرام کرتے تو آپ ہر رات اپنے دونوں ہاتھ اکٹھے کرتے ، پھر سورۂ اخلاص ، سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک مارتے ، پھر جہاں تک ممکن ہوتا انہیں اپنے جسم پر پھیرتے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سر ، چہرے اور اپنے جسم کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیرتے اور آپ تین مرتبہ ایسا کرتے ۔ متفق علیہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معراج سے متعلق ابن مسعود ؓ سے مروی حدیث ، ہم ان شاء اللہ تعالیٰ باب المعراج میں ذکر کریں گے ۔
وَعَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا فَقَرَأَ فيهمَا (قل هُوَ الله أحد) و (قل أعوذ بِرَبّ الفلق) و (قل أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ) ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاث مَرَّات وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ ابْنِ مَسْعُودٍ: لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَابِ الْمِعْرَاج إِن شَاءَ الله تَعَالَى
عبدالرحمن بن عوف ؓ ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تین چیزیں روز قیامت عرش کے نیچے ہوں گی ، قرآن بندوں کی طرف سے جھگڑا کرے گا ، اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ، اور امانت بھی ، جبکہ رحم آواز دے گا ، سن لو ! جس نے مجھے ملایا ، اللہ اسے ملائے اور جس نے مجھے قطع کیا اللہ اسے قطع کرے ۔‘‘ امام بغوی ؒ نے اسے شرح السنہ میں روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثَةٌ تَحْتَ الْعَرْشِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْقُرْآنُ يُحَاجُّ الْعِبَادَ لَهُ ظَهْرٌ وَبَطْنٌ وَالْأَمَانَةُ وَالرَّحِمُ تُنَادِي: أَلَا مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللَّهُ . رَوَاهُ فِي شرح السّنة