The first man who discussed qadr (Divine Decree) in Basra was Ma'bad al-Juhani. I along with Humaid bin 'Abdur-Rahman Himyari set out for pilgrimage or for 'Umrah and said: Should it so happen that we come into contact with one of the Companions of the Messenger of Allah (peace be upon him) we shall ask him about what is talked about taqdir (Divine Decree). Accidentally we came across Abdullah ibn Umar ibn al-Khattab رضی اللہ عنہ , while he was entering the mosque. My companion and I surrounded him. One of us (stood) on his right and the other stood on his left. I expected that my companion would authorize me to speak. I therefore said: Abu Abdur Rahman! There have appeared some people in our land who recite the Qur'an and pursue knowledge. And then after talking about their affairs, added: They (such people) claim that there is no such thing as Divine Decree and events are not predestined. He (Abdullah Ibn Umar) said: When you happen to meet such people tell them that I have nothing to do with them and they have nothing to do with me. And verily they are in no way responsible for my (belief). Abdullah Ibn Umar رضی اللہ عنہ swore by Him (the Lord) (and said): If any one of them (who does not believe in the Divine Decree) had with him gold equal to the bulk of (the mountain) Uhud and spent it (in the way of Allah), Allah would not accept it unless he affirmed his faith in Divine Decree. He further said: My father, Umar Ibn al-Khattab, told me: One day we were sitting in the company of Allah's Apostle (peace be upon him) when there appeared before us a man dressed in pure white clothes, his hair extraordinarily black. There were no signs of travel on him. None amongst us recognized him. At last he sat with the Apostle (peace be upon him) He knelt before him placed his palms on his thighs and said: Muhammad, inform me about al-Islam. The Messenger of Allah (peace be upon him) said: Al-Islam implies that you testify that there is no god but Allah and that Muhammad is the messenger of Allah, and you establish prayer, pay Zakat, observe the fast of Ramadan, and perform pilgrimage to the (House) if you are solvent enough (to bear the expense of) the journey. He (the inquirer) said: You have told the truth. He (Umar ibn al-Khattab) said: It amazed us that he would put the question and then he would himself verify the truth. He (the inquirer) said: Inform me about Iman (faith). He (the Holy Prophet ﷺ) replied: That you affirm your faith in Allah, in His angels, in His Books, in His Apostles, in the Day of Judgment, and you affirm your faith in the Divine Decree about good and evil. He (the inquirer) said: You have told the truth. He (the inquirer) again said: Inform me about al-Ihsan (performance of good deeds). He (the Holy Prophet ﷺ) said: That you worship Allah as if you are seeing Him, for though you don't see Him, He, verily, sees you. He (the enquirer) again said: Inform me about the hour (of the Doom). He (the Holy Prophet ﷺ) remarked: One who is asked knows no more than the one who is inquiring (about it). He (the inquirer) said: Tell me some of its indications. He (the Holy Prophet ﷺ) said: That the slave-girl will give birth to her mistress and master, that you will find barefooted, destitute goat-herds vying with one another in the construction of magnificent buildings. He (the narrator, Umar Ibn al-Khattab رضی اللہ عنہ ) said: Then he (the inquirer) went on his way but I stayed with him (the Holy Prophet ﷺ) for a long while. He then, said to me: Umar رضی اللہ عنہ , do you know who this inquirer was? I replied: Allah and His Apostle knows best. He (the Holy Prophet ﷺ) remarked: He was Gabriel (the angel). He came to you in order to instruct you in matters of religion.
سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر ( سے انکار ) کی بات کی ، معبد جہنی تھا میں ( یحیی ) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے ، ہم نے ( آپس میں ) کہا : کاش! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان ( آج کل کے ) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں ۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے ۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کے درمیان میں لے لیا ، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف ۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو ( کامعاملہ ) میرے سپرد کرے گا ، چنانچہ میں نے عرض کی : اے ابو عبدالرحمن ! ( یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے ) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں ( اور ان کے حالات بیان کیے ) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں ، ( ہر ) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے ( پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے ، نہ اللہ کا اس کاعلم ہے ۔ ) ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔ اس ( ذات ) کی قسم جس ( کے نام ) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے ! اگر ان میں سے کسی کو پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ ( بھی ) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے ، پھر کہا : مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا : ایک دن ہم رسول ا للہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا ۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے ۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے ، اور اپنے ہاتھ آپﷺ کی را نوں پر رکھ دیے ، اور کہا : اے محمد ( ﷺ ) ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں ، نماز کا اہتمام کرو ، زکاۃ ادا کرو ، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ ( طے کرنے ) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ۔ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور ( خود ہی ) آپ کی تصدیق کرتا ہے ۔ اس نے کہا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’یہ کہ تم اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور آخری دن ( یوم قیامت ) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے درست فرمایا ۔ ( پھر ) اس نے کہا : مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : تومجھے قیات کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’جس سے اس ( قیامت ) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے ، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ ( علامات یہ ہیں کہ ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، محتاج ، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ‘ ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےکہا : پھر وہ سائل چلا گیا ، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا : ’’اے عمر !تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’وہ جبرئیل تھے ، تمہارے پاس آئے تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے ۔ ‘ ‘
حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ - وَهَذَا حَدِيثُهُ - حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ قَالَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ - أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ - فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ، فَوُفِّقَ لَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ دَاخِلًا الْمَسْجِدَ، فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي أَحَدُنَا عَنْ يَمِينِهِ، وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِهِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ [ص:37]: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ، وَذَكَرَ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَأَنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ، وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ، قَالَ: «فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ، وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي»، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ «لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ» ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ»، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟» قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ»
When Ma'bad discussed the problem pertaining to Divine Decree, we refuted that. He (the narrator) said I and Humaid b. Abdur-Rahman Himyari argued. And they carried on the conversation about the purport of the hadith related by Kahmas and its chain of transmission too, and there is some variation of words.
جب معبد ( جہنی ) نے تقدیر کے بارے میں وہ ( سب ) کہا جو کہا ، تو ہم نے اسے سخت ناپسند کیا ( یحییٰ نے کہا ) میں اور حمید بن عبد الرحمٰن حمیری نے حج کیا .... اس کے بعد انہوں نے کہمس کے واسطے سے بیان کردہ حدیث کے مطابق حدیث بیان کی ، البتہ الفاظ میں کچھ کمی بیشی ہے
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ، وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: لَمَّا تَكَلَّمَ مَعْبَدٌ بِمَا تَكَلَّمَ بِهِ فِي شَأْنِ الْقَدَرِ أَنْكَرْنَا ذَلِكَ، قَالَ: فَحَجَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَجَّةً، وَسَاقُوا الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ كَهْمَسٍ وَإِسْنَادِهِ، وَفِيهِ بَعْضُ زِيَادَةٍ وَنُقْصَانُ أَحْرُفٍ.
We met Abdullah bin 'Umar رضی اللہ عنہ and we discussed about the Divine Decree, and what they talked about it and he narrated the hadith that has been transmitted by 'Umar رضی اللہ عنہ from the Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ). There is a slight variation in that.
ہم عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملے اور ہم سے تقدیر کی بات کی اور وہ لوگ ( منکرین تقدیر ) جو کچھ کہتے ہیں ، اس کا ذکر کیا ۔ اس کے بعد ( عثمان بن غیاث نے ) سابقہ راویوں کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ۔ اس روایت میں کچھ الفاظ زیادہ ہیں اور کچھ انہوں نے کم کیے ہیں ۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَا: لَقِينَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، فَذَكَرْنَا الْقَدَرَ، وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ، فَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ كَنَحْوِ حَدِيثِهِمْ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِ شَيْءٌ مِنْ زِيَادَةٍ وَقَدْ نَقَصَ مِنْهُ شَيْئًا.
A similar Hadith was narrator from Yahya bin Ya'mar, from Ibn 'Umar رضی اللہ عنہ , from the prophet ﷺ.
معتمر کے والد ( سلیمان بن طرخان ) نے یحییٰ بن یعمر سے ، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کی جس طرح مذکورہ اساتذہ نے روایت کی ۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ.
Abu Huraira reported: One day the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) appeared before the public that a man came to him and said: Prophet of Allah, (tell me) what is Iman. Upon this he (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, His angels, His Books, His meeting, His Messengers and that you affirm your faith in the Resurrection hereafter. He (again) said: Messenger of Allah, (tell me) what does al-Islam signify. He (the Holy Prophet) replied: Al-Islam signifies that you worship Allah and do not associate anything with Him and you establish obligatory prayer and you pay the obligatory poor-rate (Zakat) and you observe the fast of Ramadan. He (the inquirer) again said: Messenger of Allah, what does al-Ihsan imply? He (the Holy Prophet) replied: That you worship Allah as if you are seeing Him, and in case you fail to see Him, then observe prayer (with this idea in your mind) that (at least) He is seeing you. He (the inquirer ) again said: Messenger of Allah, when would there be the hour (of Doom)? He (the Holy Prophet) replied: The one who is asked about it is no better informed than the inquirer. I, however, narrate some of its signs (and these are): when the slave-girl will give birth to he master, when the naked, barefooted would become the chiefs of the people - these are some of the signs of (Doom). (Moreover) when the shepherds of the black (camels) would exult themselves in buildings, this is one of the signs of (Doom). (Doom) is one of the five (happenings wrapped in the unseen) which no one knows but Allah. Then he (the Messenger of Allah) recited (the verse): Verily Allah! with Him alone is the knowledge of the hour and He it is Who sends (down the rain) and knows that which is in the wombs and no person knows whatsoever he shall earn tomorrow, and a person knows not in whatsoever land he shall die. Verily Allah is Knowing, Aware. He (the narrator, Abu Huraira) said: Then the person turned back and went away. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Bring that man back to me. They (the Companions of the Prophet present there) went to bring him back, but they saw nothing there. Upon this the Messenger of Allah remarked: he was Gabriel, who came to teach the people their religion
اسماعیل بن ابراہیم ( ابن علیہ ) نے ابو حیان سے ، انہوں نے ابو زرعہ بن عمرو بن جریر سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں کے سامنے ( تشریف فرما ) تھے ، ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’تم اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتاب ، ( قیامت کے روز ) اس سے ملاقات ( اس کے سامنے حاضری ) اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور آخری ( بار زندہ ہو کر ) اٹھنے پر ( بھی ) ایمان لے آؤ ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اسلام کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ ، لکھی ( فرض کی ) گئی نمازوں کی پابندی کرو ، فرض کی گئی زکاۃ ادا کرو ۔ اور رمضان کے روزے رکھو ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! احسان کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! قیامت کب ( قائم ) ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ ا س کے بارے میں پوچھنے والے سےزیادہ آگاہ نہیں ۔ لیکن میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتائے دیتا ہوں : جب لونڈی اپنا مالک جنے گی تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے ، اور جب ننگے بدن اور ننگے پاؤں والے لوگوں کے سردار بن جائیں گے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے ، اور جب بھیڑ بکریاں چرانے والے ، اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے تو یہ اس کی علامات میں سے ہے ۔ ( قیامت کے وقت کا علم ) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے ‘ ‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام ( ماؤں کے پیٹوں ) میں کیا ہے ، کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا ، نہ کسی متنفس کویہ معلوم ہے کہ وہ زمین کے کس حصے میں فوت ہو گا ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ علم والا خبردار ہے ۔ ‘ ‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ) کہا : پھر وہ آدمی واپس چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اس آ دمی کو میرے پاس واپس لاؤ ۔ ‘ ‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے واپس لانے کے لیے بھاک دوڑ کرنےلگے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا ، رسول اللہ نے فرمایا : ’’یہ جبریل علیہ السلام تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے ۔ ‘ ‘
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولُ اللهِ، مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: «الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ، وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ» قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهَ، مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ رَبَّهَا، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا كَانَتِ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللهُ، ثُمَّ تَلَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {إِنَّ اللهِ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} [لقمان: 34] قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ»، فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ، فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ
This hadith is narrated to us on the authority of Muhammad bin 'Abdullah bin Numair, on the authority of Muhammad bin Bishr, on the authority of Abd Hayyan al-Taymi with the exception that in this narration (instead of the words (Iza Waladat al'amah rabbaha), the words are (Iza Waladat al'amah Ba'laha), i, e, when slave-girl gives birth to her master.
( ابن علیہ کے بجائے ) محمد بن بشر نےکہا : ہمیں ابو حیان نے سابقہ سند سے وہی حدیث بیان کی ، البتہ ان کی روایت میں : إذا ولدت الأمة بعلها ’’ جب لونڈی اپنا مالک جنے گی ‘ ‘ ( رب کی جگہ بعل ، یعنی مالک ) کے الفاظ ہیں ۔ ( أمة سے مملوکہ ) لونڈیاں مراد ہیں ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي رِوَايَتِهِ: «إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ بَعْلَهَا» يَعْنِي السَّرَارِيَّ.
It is narrated on the authority of Abu Huraira that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Ask me (about matters pertaining to religion), but they (the Companions of the Holy Prophet) were too much overawed out of profound respect for him to ask him (anything). In the meanwhile a man came there, and sat near his knees and said: Messenger of Allah, what al-lslam is? -to which he (the Holy Prophet) replied: You must not associate anything with Allah, and establish prayer, pay the poor-rate (Zakat) and observe (the fasts) of Ramadan. He said: You (have) told the truth. He (again) said: Messenger of Allah, what al-Iman (the faith) is? He (the Holy Prophet) said: That you affirm your faith in Allah, His angels, His Books, His meeting, His Apostles, and that you believe in Resurrection and that you believe in Qadr (Divine Decree) in all its entirety, He (the inquirer) said: You (have) told the truth. He (again) said: Messenger of Allah, what al-Ihsan is? Upon this he (the Holy Prophet) said: (Al-Ihsan implies) that you fear Allah as if you are seeing Him, and though you see Him not, verily He is seeing you. He (the inquirer) said: You (have) told the truth. He (the inquirer) said: When there would be the hour (of Doom)? (Upon this) he (the HolyProphet said: The one who is being asked about it is no better informed than the inquirer himself. I, however, narrate some of its signs (and these are): when you see a slave (woman) giving birth to her master - that is one of the signs of (Doom) ; when you see barefooted, naked, deaf and dumb (ignorant and foolish persons) as the rulers of the earth - that is one of the signs of the Doom. And when you see the shepherds of black camels exult in buildings - that is one of the signs of Doom. The (Doom) is one of the five things (wrapped) in the unseen. No one knows them except Allah. Then (the Holy Prophet) recited (the folowing verse): Verily Allah! with Him alone is the knowledge of the hour and He it is Who sends down the rain and knows that which is in the wombs and no person knows whatsoever he shall earn on morrow and a person knows not in whatsoever land he shall die. Verily Allah is Knowing, Aware. He (the narrator, Abu Huraira) said: Then the person stood up an (made his way). The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Bring him back to me. He was searched for, but they (the Companions of the Holy Prophet) could not find him. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) thereupon said: He was Gabriel and he wanted to teach you (things pertaining to religion) when you did not ask (them yourselves).
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’مجھ سے ( دین کے بارے میں ) پوچھ لو ۔ ‘ ‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے اتنے مرعوب ہوئے کہ سوال نہ کر سکے ، تب ایک آدمی آیا اور آپ ﷺ کے دونوں گھٹنوں کے قریب بیٹھ گیا ، پھر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! اسلام کیا ؟ آپ نے فرمایا : ’’ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز کا اہتمام کرو ، زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ۔ ( پھر ) پوچھا : اے اللہ کے رسول ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’یہ کہ تم اللہ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتاب ، ( قیات کے روز ) اس سے ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ ، مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان لاؤ اور ہر ( امر کی ) تقدیر پر ایمان لاؤ ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے درست فرمایا ۔ ( پھر ) کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! احسان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’تم اللہ تعالیٰ سےاس طرح ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، پھر اگر تم اسے نہیں رہے تو وہ یقینا ً تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : آپ نے صحیح فرمایا : ( پھر ) پوچھا : اے اللہ کے رسول ! قیامت کب قائم ہو گی ؟ آپ نے جواب دیا : ’’جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے ، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ میں تمہیں اس کی علامات بتائے دیتا ہوں : جب دیکھو کہ عورت اپنے آقا کو جنم دیتی ہے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے اور جب دیکھو کہ ننگے پاؤں اور ننگے بدن والے ، گونگے اور بہرے زمین کے بادشاہ ہیں تو یہ اس کی علامات میں سے ہے اور جب دیکھو کہ بھیڑ بکریوں کے چروا ہے اونچی سے اونچی عمارات بنانے میں باہم مقابلہ کر رہے ہیں تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے ۔ یہ ( قیامت کا وقوع ) غیب کی ان پانچ چیزوں میں سے ہے ۔ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ‘ ‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام ( ماؤں کے پیٹوں ) میں کیا ہےاور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ آنے والے کل میں کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ ( کہاں ) کس زمین میں فوت ہو گا ...... ‘ ‘ سورت کے آخر تک ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : پھر وہ آدمی کھڑا ہو گیا ( اور چلا گیا ) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اسے میرے پاس واپس لاؤ ۔ ‘ ‘ اسے تلاش کیا گیا تو وہ انہیں ( صحابہ کرام کو ) نہ ملا ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ جبریل تھے ، انہوں نے چاہا کہ تم نہیں پوچھ رہے تو تم ( دین ) سیکھ لو ( انہوں نے آکر تمہاری طرف سے سوال کیا
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ وَهُوَ ابْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَلُونِي»، فَهَابُوهُ أَنْ يَسْأَلُوهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَجَلَسَ عِنْدَ رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: «لَا تُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: «أَنْ تَخْشَى اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: صَدَقْتَ. قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا رَأَيْتَ الْمَرْأَةَ تَلِدُ رَبَّهَا، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكْمَ مُلُوكَ الْأَرْضِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا رَأَيْتَ رِعَاءَ الْبَهْمِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ مِنَ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللهُ ، ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللهِ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} [لقمان: 34] قَالَ: ثُمَّ قَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُدُّوهُ عَلَيَّ»، فَالْتُمِسَ، فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا جِبْرِيلُ، أَرَادَ أَنْ تَعَلَّمُوا إِذْ لَمْ تَسْأَلُوا
It is reported on the authority of Talha b. 'Ubaidullah that a person with dishevelled hair, one of the people of Nejd, came to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ). We heard the humming of his voice but could not fully discern what he had been saying, till he came nigh to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ). It was then (disclosed to us) that he was asking questions pertaining to Islam. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Five prayers during the day and the night. (Upon this he said: Am I obliged to say any other (prayer) besides these? He (the Holy Prophet, ) said: No, but whatever you observe voluntarily, out of your own free will, and the fasts of Ramadan. The inquirer said: Am I obliged to do anything else besides this? He (the Holy Prophet) said: No, but whatever you do out of your own free will. And the Messenger of Allah told him about the Zakat (poor-rate). The inquirer said: Am I obliged to pay anything else besides this? He (the Holy Prophet) said: No, but whatever you pay voluntarily out of your own free will. The man turned back and was saying: I would neither make any addition to this, nor will decrease anything out of it. The Prophet remarked: He is successful, if he is true to what he affirms.
مالک بن انس نے ابو سہیل سے ، اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ، انہوں نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سےسنا ، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اہل نجد میں سے ایک آدمی آیا ، اس کے بال پراگندہ تھے ، ہم اس کی ہلکی سی آواز سن رہے تھے لیکن جوکچھ وہ کہہ رہا تھا ہم اس کو سمجھ نہیں رہے تھے حتی کہ وہ رسو ل اللہ ﷺ کے قریب آ گیا ، وہ آپ سے اسلام کے بارے میں پوچھ رہا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’دن اور رات میں پانچ نمازیں ( فرض ) ہیں ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : کیا ان کے علاوہ ( اور نمازیں ) بھی میرے ذمے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ’’نہیں : الا یہ کہ تم نفلی نماز پڑھو اور ماہ رمضان کے روزے ہیں ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : کیا میرے ذمے اس کے علاوہ بھی ( روزے ) ہیں ؟ فرمایا : ’’نہیں ، الا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو ۔ ‘ ‘ پھر رسول اللہ ﷺ اسے زکاۃ کے بارے میں بتایا تو اس نے سوال کیا : کیا میرے ذمے اس کےسوا بھی کچھ ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’نہیں ، سوائے اس کے کہ تم اپنی مرضی سے ( نفلی صدقہ ) دو ۔ ‘ ‘ ( حضرت طلحہ نے ) کہا : پھر وہ آدمی واپس ہوا تو کہہ رہا تھا : اللہ کی قسم ! میں نے اس پر کوئی اضافہ کروں گا نہ اس میں کوئی کمی کروں گا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’یہ فلاح پا گیا اگر اس نے سچ کر دکھایا ۔ ‘ ‘
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جَمِيلِ بْنِ طَرِيفِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللهِ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرُ الرَّأْسِ، نَسْمَعُ دَوِيَّ صَوْتِهِ، وَلَا نَفْقَهُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ، وَاللَّيْلَةِ» فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ قَالَ: «لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ»، فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ فَقَالَ: «لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ»، وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ، فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: «لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ»، قَالَ: فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ، وَهُوَ يَقُولُ: وَاللهِ، لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ
The Prophet remarked: By his father, he shall succeed if he were true (to what he professed), or By his father, he would enter heaven if he were true (to what he professed).
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’کامیاب ہوا ، اس کے باپ کی قسم ! اگر اس نے سچ کر دکھایا ِ ‘ ‘ یا ( فرمایا ) ’’جنت میں داخل ہو گا ، اس کے باپ کی قسم ! اگر اس نے سچ کر دکھایا ۔ ‘ ‘
حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفْلَحَ، وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ.
We were forbidden that we should ask anything (without the genuine need) from the Holy Prophet ﷺ. It, therefore, pleased us that an intelligent person from the dwellers of the desert should come and asked him (the Holy Prophet ﷺ) and we should listen to it. A man from the dwellers of the desert came (to the Holy Prophet ﷺ) and said: Muhammad, your messenger came to us and told us your assertion that verily Allah had sent you (as a prophet ﷺ). He (the Holy Prophet ﷺ) remarked: He told the truth. He (the bedouin) said: Who created the heaven? He (the Holy Prophet ﷺ) replied: Allah. He (the bedouin again) said: Who created the earth? He (the Holy Prophet ﷺ) replied: Allah. He (the bedouin again) said: Who raised these mountains and who created in them whatever is created there? He (the Holy Prophet ﷺ) replied: Allah. Upon this he (the bedouin) remarked: By Him Who created the heaven and created the earth and raised mountains thereupon, has Allah (in fact) sent you? He (the Holy Prophet ﷺ) said: Yes. He (the bedouin) said: Your messenger also told us that five prayers (had been made) obligatory for us during the day and the night. He (the Holy Prophet ﷺ) remarked: He told you the truth. He (the bedouin) said: By Him Who sent you, is it Allah Who ordered you about this (i. e. prayers)? He (the Holy Prophet ﷺ) said: Yes. He (the bedouin) said: Your messenger told us that Zakat had been made obligatory in our riches. He (the Holy Prophet ﷺ) said. He has told the truth. He (the bedouin) said: By Him Who sent you (as a prophet ﷺ), is it Allah Who ordered you about it (Zakat)? He (the Holy Prophet ﷺ) said: Yes. He (the bedouin) said: Your messenger told us that it had been made obligatory for us to fast every year during the month of Ramadan. He (the Holy Prophet ﷺ) said: He has told the truth. He (the bedouin) said: By Him Who sent you (as a prophet ﷺ), is it Allah Who ordered you about it (the fasts of Ramadan)? He (the Holy Prophet ﷺ) said: Yes. He (the bedouin) said: Your messenger also told us that pilgrimage (Hajj) to the House (of Ka'bah) had been made obligatory for him who is able to undertake the journey to it. He (the Holy Prophet ﷺ) said: Yes. The narrator said that he (the bedouin) set off (at the conclusion of this answer, but at the time of his departure) remarked: 'By Him Who sent you with the Truth, I would neither make any addition to them nor would I diminish anything out of them. Upon this the Prophet ﷺ remarked: If he were true (to what he said) he must enter Paradise.
ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ( غیر ضروری طور پر ) کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ کوئی سمجھ دار بادیہ نشیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال کرے اور ہم ( بھی جواب ) سنیں ، چنانچہ ایک بدوی آیا اور کہنے لگا ، اے محمد ( ﷺ ) ! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا تھا ، اس نے ہم سے کہا کہ آپ نے فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اس نے سچ کہا ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا : آسمان کس نے بنایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ اللہ نے ۔ ‘ ‘ اس نےکہا : زمین کس نےبنائی ؟ آپ نے فرمایا : ’’اللہ نے ۔ ‘ ‘ اس نے سوال کیا : یہ پہاڑ کس نے گاڑے ہیں اور ان میں جو کچھ رکھا ہے کس نے رکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ اللہ نے ۔ ‘ ‘ بدوی نے کہا : اس ذات کی قسم ہے جس نے آسمان بنایا ، زمین بنائی اور یہ پہاڑ نصب کیے ! کیا اللہ ہی نے آپ کو ( رسول بنا کر ) بھیجا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ ہاں! ‘ ‘ اس نے کہا : آپ کے قاصد نے بتایا ہے کہ ہمارے دن او رات میں پانچ نمازیں ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’اس نے درست کہا ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے ! کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ہاں ! ‘ ‘ اس نے کہا : آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے ذمے ہمارے مالوں کی زکاۃ ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اس نے سچ کہا ۔ ‘ ‘ بدوی نے کہا : ا س ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا یا ! کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : ’’ہاں ! ‘ ‘ اعرابی نے کہا : آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے سال میں ہمارے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ اس نے صحیح کہا ۔ ‘ ‘ اس نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے ! کیا للہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں ! ‘ ‘ وہ کہنے لگا : آپ کے بھیجے ہوئے ( قاصد ) کا خیال ہے کہ ہم پر بیت اللہ کا حج فرض ہے ، اس شخص پر جو اس کے راستے ( کو طے کرنے ) کی استطاعت رکھتا ہو ۔ آپ نے فرمایا ، ’’ اس نے سچ کہا ۔ ‘ ‘ ( حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : ) پھر وہ واپس چل پڑا اور ( چلتے چلتے ) کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں ان پر کوئی اضافہ کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’اگر اس نے سچ کر دکھایا تو یقیناً جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ، وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ الْأَرْضَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، وَجَعَلَ فِيهَا مَا جَعَلَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَبِالَّذِي خَلَقَ السَّمَاءَ، وَخَلَقَ الْأَرْضَ، وَنَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِنَا، وَلَيْلَتِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا زَكَاةً فِي أَمْوَالِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي سَنَتِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا حَجَّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى، قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَئِنْ صَدَقَ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ
'We were forbidden in the Quran to ask the messenger of Allah ﷺ about anything (needlessly), "and he quoted a similar Hadith (as no. 102).
ہمیں قرآن مجید میں اس بات سے منع کر دیا گیا کہ ( بلاضرورت ) کسی چیز کے بارے میں آپ سے سوال کریں .... اس کے بعد ( بہزنے ) اسی کی مانند حدیث بیان کی ۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ هَاشِمٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: كُنَّا نُهِينَا فِي الْقُرْآنِ أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ <قرآن> </قرآن>
Once during the journey of the Prophet ﷺ a bedouin appeared before him and caught hold of the nosestring of his she-camel and then said, Messenger of Allah (or Muhammad), inform me about that which takes me near to Paradise and draws me away from the Fire (of Hell). He (the narrator) said: The Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) stopped for a while and cast a glance upon his companions and then said: He was afforded a good opportunity (or he had been guided well). He (the Holy Prophet ﷺ) addressing the bedouin said: (Repeat) whatever you have uttered. He (the bedouin) repeated that. Upon this the Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) remarked: The deed which can draw you near to Paradise and take you away from Hell is, that you worship Allah and associate none with Him, and you establish prayer and pay Zakat, and do good to your kin. After having uttered these words, the Prophet ﷺ asked the bedouin to release the nosestring of his she-camel.
رسول ا للہ ﷺ ایک سفر میں تھے جب ایک اعرابی ( دیہاتی ) آپ کے سامنے آ کھڑا ہوا ، اس نے آپ کی اونٹنی کی مہار یانکیل پکڑ لی ، پھر کہا : اے اللہ کے رسول ! ( یا اے محمد! ) مجھے وہ بات بتائیے جو مجھے جنت کے قریب اور آگ سے دور کر دے ۔ ابو ایوب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ رک گئے ، پھر اپنے ساتھیوں پر نظر دوڑائی ، پھر فرمایا ، ’’اس کو توفیق ملی ) ( یا ہدایت ملی ) ‘ ‘ پھر بدوی نے پوچھا : ’’تم نے کیا بات کی ؟ ‘ ‘ اس نے اپنی بات دہرائی تو نبی ا کرمﷺ نے فرمایا : ’’تم اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز قائم کرو ، زکاۃ ادا کرو اورصلہ رحمی کرو ۔ ( اب ) اونٹنی کو چھوڑ دو ۔ ‘ ‘
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ طَلْحَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ أَنَّ أَعْرَابِيًّا عَرَضَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي سَفَرٍ، فَأَخَذَ بِخِطَامِ نَاقَتِهِ - أَوْ بِزِمَامِهَا ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ - أَوْ يَا مُحَمَّدُ - أَخْبِرْنِي بِمَا يُقَرِّبُنِي مِنَ الْجَنَّةِ، وَمَا يُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَكَفَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَظَرَ فِي أَصْحَابِهِ، ثُمَّ قَالَ: «لَقَدْ وُفِّقَ، أَوْ لَقَدْ هُدِيَ»، قَالَ: كَيْفَ قُلْتَ؟ قَالَ: فَأَعَادَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ، دَعِ النَّاقَةَ
A similar Hadith (as no. 104) was reported by Musa bin Talha who narrated it from Abu Ayyub رضی اللہ عنہ , from the prophet ﷺ.
محمد بن عثمان بن عبد اللہ بن موہب اور ان کے والد عثمان دونوں موسیٰ بن طلحہ سے سنا وہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے سابقہ حدیث کی مانند بیان کرتے تھے ۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَوْهَبٍ، وَأَبُوهُ عُثْمَانَ، أَنَّهُمَا سَمِعَا مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ هَذَا الْحَدِيثِ.
A man came to the Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said: Direct me to a deed which draws me near to Paradise and takes me away from the Fire (of Hell). Upon this he (the Holy Prophet ﷺ) said: You worship Allah and never associate anything with Him, establish prayer, and pay Zakat, and do good to your kin. When he turned his back, the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) remarked: If he adheres to what he has been ordered to do, he would enter Paradise.
ایک آدمی نبی ﷺ کےپاس آیا اور پوچھا : مجھے کوئی ایسا کام بتائیے جس پر میں عمل کروں تو وہ مجھے جنت کے قریب اور آگ سے دور کر دے ۔ آپ نے فرمایا : ’’ یہ کہ تو اللہ کی بندگی کرے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ، نماز کی پابندی کرے ، زکاۃ ادا کرے اور اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے ۔ ‘ ‘ جب وہ پیٹھ پھیر کر چل دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اگر اس نے ان چیزوں کی پابندی کی جن کا اسے حکم دیا گیا ہے تو جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘ ‘ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے ، ’’اگر اس نے اس کی پابندی کی ( تو جنت میں داخل ہو گا ۔ ) ‘ ‘
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ أَعْمَلُهُ يُدْنِينِي مِنَ الْجَنَّةِ وَيُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ . قَالَ " تَعْبُدُ اللَّهَ لاَ تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصِلُ ذَا رَحِمِكَ " فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنْ تَمَسَّكَ بِمَا أُمِرَ بِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ " . وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ " إِنْ تَمَسَّكَ بِهِ " .
It is reported on the authority of Abu Huraira that a bedouin came to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said: Messenger of Allah, direct me to a deed by which I may be entitled to enter Paradise. Upon this he (the Holy Prophet) remarked: You worship Allah and never associate anything with Him, establish the obligatory prayer, and pay the Zakat which is incumbent upon you, and observe the fast of Ramadan. He (the bedouin) said: By Him in Whose hand is my life, I will never add anything to it, nor will I diminish anything from it. When he (the bedouin) turned his back, the Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: He who is pleased to see a man from the dwellers of Paradise should catch a glimpse of him.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ آپ نے فرمایا : ’’تم اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز قائم کرو جو تم پر لکھ دی گئی ہے ، فرض زکاۃ ادا کرو او ررمضان کے روزے رکھو ۔ ‘ ‘ وہ کہنے لکا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں نہ کبھی اس پر کسی چیز کا اضافہ کروں گا اور نہ اس میں گمی کروں گا ۔ جب وہ واپس جانے لگا تو نبی اکریم ﷺ نے فرمایا : ’’جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ ایک جنتی آدمی دیکھے تو وہ اسے دیکھ لے ۔ ‘ ‘
وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ . قَالَ " تَعْبُدُ اللَّهَ لاَ تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ " . قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ أَزِيدُ عَلَى هَذَا شَيْئًا أَبَدًا وَلاَ أَنْقُصُ مِنْهُ . فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا " .
Nu'man bin Qawqal رضی اللہ عنہ came to the Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said: Would I enter Paradise if I say the obligatory prayers and deny myself that which is forbidden and treat that as lawful what has been made permissible (by the Shari'ah)? The Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) replied in the affirmative.
رسول اللہ ﷺ کے پاس نعمان بن قوقل رضی اللہ عنہ آئے اور کہا اے اللہ کے رسول ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ جب میں فرض نماز ادا کروں ، حرام کو حرام اور حلال کو حلال سمجھوں تو کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ہاں! ‘ ‘
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النُّعْمَانُ بْنُ قَوْقَلٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَيْتَ إِذَا صَلَّيْتُ الْمَكْتُوبَةَ، وَحَرَّمْتُ الْحَرَامَ، وَأَحْلَلْتُ الْحَلَالَ، أَأَدْخُلُ الْجَنَّةَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ».
A similar hadith is narrated on Jabir's authority in which the following words are added: I will do nothing more.
شیبان نے اعمش سے ، انہوں نے ابو صالح اور ابو سفیان سے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : نعمان بن قوقل رضی اللہ عنہ نے عرض کی : اے اللہ کےرسول !..... پھر اس سابقہ روایت کی طرح ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا : اور اس پر کسی چیز کا اضافہ نہ کروں گا ۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، وَالْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَأَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ النُّعْمَانُ بْنُ قَوْقَلٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، بِمِثْلِهِ، وَزَادَا فِيهِ، وَلَمْ أَزِدْ عَلَى ذَلِكَ شَيْئًا
A man once said to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ): Shall I enter Paradise in case I say the obligatory prayers, observe the (fasts) of Ramadan and treat that as lawful which has been made permissible (by the Shari'ah) and deny myself that what is forbidden, and make no addition to it? He (the Holy Prophet) replied in the affirmative. He (the inquirer) said: By Allah, I would add nothing to it.
ایک شخص نے رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اگر میں فرض نماز پڑھتا رہوں اور رمضان كے روزے ركھوں اور حلال کو حلال سمجھوں اور حرام كو حرام ، اس سے زیادہ كچھ نہ كروں تو آپﷺ کی کیا رائے ہے کہ کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤ نگا؟تو آپﷺ نے فرمایا ہاں!اس شخص نے عرض کیا اللہ کی قسم میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرونگا ۔
وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِذَا صَلَّيْتُ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ، وَصُمْتُ رَمَضَانَ، وَأَحْلَلْتُ الْحَلَالَ، وَحَرَّمْتُ الْحَرَامَ، وَلَمْ أَزِدْ عَلَى ذَلِكَ شَيْئًا، أَأَدْخُلُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَاللهِ لَا أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ شَيْئًا.
The Prophet (ﷺ) said: (The superstructure of) al-Islam is raised on five (pillars), i. e. the oneness of Allah, the establishment of prayer, payment of Zakat, the, fast of Ramadan, Pilgrimage (to Mecca). A person said (to 'Abdullah b. Umar the narrator): Which of the two precedes the other-Pilgrimage or the fasts of Rarnadan? Upon this he (the narrator) replied: No (it is not the Pilgrimage first) but the fasts of Ramadan precede the Pilgrimage.
آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : اللہ کو یکتا قرار دینے ، نمازقائم کرنے ، زکوٰۃ ادا کرنے ، رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر ۔ ‘ ‘ ایک شخص نے کہا : حج کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے پر ؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں !پہلے رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات اسی طرح ( اسی ترتیب سے ) سنی تھی ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَيَّانَ الْأَحْمَرَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسَةٍ، عَلَى أَنْ يُوَحَّدَ اللهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَصِيَامِ رَمَضَانَ، وَالْحَجِّ»، فَقَالَ رَجُلٌ: الْحَجُّ، وَصِيَامُ رَمَضَانَ، قَالَ: «لَا، صِيَامُ رَمَضَانَ، وَالْحَجُّ» هَكَذَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
The Prophet (ﷺ) said: (The superstructure of) al-Islam is raised on five (pillars), i. e. Allah (alone) should be worshipped, and (all other gods) beside Him should be (categorically) denied. Establishment of prayer, the payment of Zakat, Pilgrimage to the House, and the fast of Ramadan (are the other obligatory acts besides the belief in the oneness of Allah and denial of all other gods).
نبیﷺ نے فرمایا : ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس پر کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا ہر کسی کی عبادت سے انکار کیا جائے ، نماز قائم کرنے ، زکاۃ دینے ، بیت اللہ کاحج کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے پر.
وحَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ الْعَسْكَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ طَارِقٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ عُبَيْدَةَ السُّلَمِيُّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، عَلَى أَنْ يُعْبَدَ اللهُ، وَيُكْفَرَ بِمَا دُونَهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ».
The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: (The superstructure of) al-Islam is raised on five (pillars), testifying (the fact) that there is no god but Allah, that Muhammad is His bondsman and messenger, and the establishment of prayer, payment of Zakat, Pilgrimage to the House (Ka'ba) and the fast of Ramadan.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اسلام کی بنیاد پانچ ( رکنوں ) پر رکھی گئی ہے : اس حقیقت کی ( دل ، زبان اور بعد میں ذکر کیے گئے بنیادی اعمال کے ذریعے سے ) گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کےسوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکاۃ ادا کرنا ، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔ ‘ ‘
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ»
A man said to 'Abdullah son of 'Umar (رضی اللہ عنہ), Why don't you carry out a military expedition? Upon which he replied: I heard the messenger of Allah (ﷺ) say: Verily, al-Islam is founded on five (pillars): testifying the fact that there is no god but Allah, establishment of prayer, payment of Zakat, fast of Ramadan and Pilgrimage to the House.
ایک آدمی نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : کیا آپ جہاد میں حصہ نہیں لیتے ؟ انہوں نےجواب دیا : بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرما رہے تھے ، ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : ( اس حقیقت کی ) گواہی دینے پر کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، نماز قائم کرنے ، زکوٰۃادا کرنے ، رمضان کے روزے رکھنے اور بیت اللہ کاحج کرنے پر ۔ ‘ ‘
وَحَدَّثَنِي ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ، قَالَ سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ بْنَ خَالِدٍ، يُحَدِّثُ طَاوُسًا أَنَّ رَجُلاً، قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَلاَ تَغْزُو فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " إِنَّ الإِسْلاَمَ بُنِيَ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَإِقَامِ الصَّلاَةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَحَجِّ الْبَيْتِ " .
A delegation of Abdul Qais came to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said: Messenger of Allah, verily ours is a tribe of Rabi'a and there stand between you and us the unbelievers of Mudar and we find no freedom to come to you except in the sacred month. Direct us to an act which we should ourselves perform and invite those who live beside us. Upon this the Prophet remarked: I command you to do four things and prohibit you against four acts. (The four deeds which you are commanded to do are): Faith in Allah, and then he explained it for them and said: Testifying the fact. that there is no god but Allah, that Muhammad is the messenger of Allah, performance of prayer, payment of Zakat, that you pay Khums (one-fifth) of the booty fallen to your lot, and I prohibit you to use round gourd, wine jars, wooden pots or skins for wine. Khalaf b. Hisham has made this addition in his narration: Testifying the fact that there is no god but Allah, and then he with his finger pointed out the oneness of the Lord.
رسول اللہﷺ کی خدمت میں عبدالقیس کا وفد آیا ۔ وہ ( لوگ ) کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! ہم لوگ ( یعنی ) بنو ربیعہ کا یہ قبیلہ ہے ۔ ہمارے اور آپ کے درمیان ( قبیلہ ) مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم حرمت والے مہینے کے سوا بحفاظت آپ تک نہیں پہنچ سکتے ، لہٰذا آپ ہمیں وہ حکم دیجیے جس پر خود بھی عمل کریں اور جو پیچھے ہیں ان کو بھی اس کی دعوت دیں ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں : ( جن کا حکم دیتا ہوں وہ ہیں : ) ’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ‘ ‘ پھر آپ نے ان کے سامنے ایمان باللہ کی وضاحت کی ، فرمایا : ’’ اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ بالیقین اللہ کے رسول ہیں ۔ نماز قائم کرنا ، زکاۃ ادا کرنا اور جومال غنیمت تمہیں حاصل ہو ، اس میں سے خمس ( پانچواں حصہ ) ادا کرنا ۔ اور میں تمہیں روکتا ہوں کدو کے برتن ، سبز گھڑے ، لکڑی کے اندر سے کھود کر ( بنائے ہوئے ) برتن اور ا یسے برتنوں کے استعمال سے جن پر تارکول ملا گیا ہو ۔ ‘ ‘ خلف نےاپنی روایت میں یہ اضافہ کیا : ’’ اس ( سچائی ) کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ ‘ ‘ اسے انہوں نےانگلی کے اشارے سے ایک شمار کیا ۔
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى - وَاللَّفْظُ لَهُ - أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ، وَقَدْ حَالَتْ بَيْنَنَا، وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ، فَلَا نَخْلُصُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي شَهْرِ الْحَرَامِ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نَعْمَلُ بِهِ، وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا، قَالَ: آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: الْإِيمَانِ بِاللهِ ، ثُمَّ فَسَّرَهَا لَهُمْ، فَقَالَ: «شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَأَنَّ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْمُقَيَّرِ» زَادَ خَلَفٌ فِي رِوَايَتِهِ: «شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ»، وَعَقَدَ وَاحِدَةً.
I was an interpreter between Ibn Abbas and the people, that a woman happened to come there and asked about nabidh or the pitcher of wine. He replied: A delegation of the people of 'Abdul-Qais came to the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ). He (the Holy Prophet) asked the delegation or the people (of the delegation about their identity). They replied that they belonged to the tribe of Rabi'a. He (the Holy Prophet) welcomed the people or the delegation which were neither humiliated nor put to shame. They (the members of the delegation) said: Messenger of Allah, we come to you from a far-off distance and there lives between you and us a tribe of the unbelievers of Mudar and, therefore, it is not possible for us to come to you except in the sacred months. Thus direct us to a clear command, about which we should inform people beside us and by which we may enter heaven. He (the Holy Prophet) replied: I command you to do four deeds and forbid you to do four (acts), and added: I direct you to affirm belief in Allah alone, and then asked them: Do you know what belief in Allah really implies? They said: Allah and His Messenger know best. The Prophet said: It implies testimony to the fact that there is no god but Allah, and that Muhammad is the messenger of Allah, establishment of prayer, payment of Zakat, fast of Ramadan, that you pay one-fifth of the booty (fallen to your lot) and I forbid you to use gourd, wine jar, or a receptacle for wine. Shu'ba sometimes narrated the word naqir (wooden pot) and sometimes narrated it as muqayyar. The Prophet also said: Keep it in your mind and inform those who have been left behind.
میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ( دوسرے ) لوگوں کے درمیان ترجمان تھا ، ان کے پاس ایک عورت آئی ، وہ ان سے گھڑے کی نبیذ کے بارے میں سوال کر رہی تھی توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عبد القیس کا وفد آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : ’’یہ کون سا وفد ہے ؟ ( یا فرمایا : یہ کو ن لوگ ہیں ؟ ) ‘ ‘ انہوں نے کہا : ربیعہ ( قبیلہ سے ہیں ۔ ) فرمایا : ’’ اس قوم ( یا وفد ) کو خوش آمدید جو رسوا ہوئے نہ نادم ۔ ‘ ‘ ( ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ) کہا ، ان لوگوں نے عرض کی : اے اللہ کےرسول ! ہم لوگ آپ کے پاس بہت دور سے آتے ہیں ، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا یہ قبیلہ ( حائل ) ہے ، ہم ( کسی ) حرمت والے مہینے کے سوا آپ کے پاس نہیں آ سکتے ، آپ ہمیں فیصلہ کن بات بتائیے جو ہم اپنے ( گھروں میں ) پیچھے لوگوں کو ( بھی ) بتائیں اور اس کے ذریعے سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا : آپ نے ان چار باتوں کا حکم دیا اور چار چیزیں سے روکا ۔ آپ نے ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا کا حکم دیا اور پوچھا : ’’جانتے ہو ، صرف اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ ‘ ‘ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکاۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے اس کا پانچواں حصہ ادا کرو ۔ ‘ ‘ اور انہیں خشک کدو سے بنائے ہوئے برتن ، سبز مٹکے اور تارکول ملے ہوئے برتن ( استعمال کرنے ) سے منع کیا ( شعبہ نے کہا : ) ابو جمرہ نے شاید نقیر ( لکڑی میں کھدائی کر کے بنایا ہوا برتن کہا یا شاید مقیر ( تارکول ملا ہوا برتن ) کہا ۔ اور آپ نے فرمایا : ’’ان کو خوب یاد رکھو اور اپنے پیچھے ( والوں کو ) بتا دو ۔ ‘ ‘ ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں ( من ورائکم کے بجائے ) من وراءکم ( ان کو ( بتاؤ ) جو تمہارے پیچھے ہیں ) کے الفاظ ہیں اور ان کی روایت میں مقیر کا ذکر نہیں ( بلکہ نقیر کا ہے ۔ )
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، قَالَ أَبُو بَكْرِ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ يَدَيِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَبَيْنَ النَّاسِ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، تَسْأَلُهُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ الْوَفْدُ؟ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ؟»، قَالُوا: رَبِيعَةُ، قَالَ: «مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ، أَوْ بِالْوَفْدِ، غَيْرَ خَزَايَا، وَلَا النَّدَامَى»، قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ، وَإِنَّ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيَّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، وَإِنَّا لَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيكَ إِلَّا فِي شَهْرِ الْحَرَامِ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ، وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، قَالَ: «أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللهِ وَحْدَهُ»، وَقَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللهِ؟» قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَأَنَّ تُؤَدُّوا خُمُسًا مِنَ الْمَغْنَمِ»، وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ - قَالَ شُعْبَةُ: وَرُبَّمَا قَالَ - النَّقِيرِ، قَالَ شُعْبَةُ: وَرُبَّمَا قَالَ: الْمُقَيَّرِ، وَقَالَ: «احْفَظُوهُ، وَأَخْبِرُوا بِهِ مِنْ وَرَائِكُمْ» وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِوَايَتِهِ: «مَنْ وَرَاءَكُمْ»، وَلَيْسَ فِي رِوَايَتِهِ الْمُقَيَّرُ.
in which the Prophet ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: I forbid you to prepare nabidh in a gourd, hollowed block of wood, a varnished jar or receptacle. Ibn Mu'adh made this addition on the authority of his father that the Messenger of Allah said to Ashajj, of the tribe of 'Abdul-Qais: You possess two qualities which are liked by Allah: insight and deliberateness.
رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میں تمہیں اس نبیذ سے منع کرتا ہوں جو خشک کدو کے برتن ، لکڑی سے تراشیدہ برتن ، سبز مٹکے اور تارکول ملے برتن میں تیار کی جائے ( اس میں زیادہ خمیر اٹھنے کا خدشہ ہے جس سے نبیذ شراب میں بدل جاتی ہے ۔ ) ‘ ‘ ابن معاذ نے اپنے والد کی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبد القیس کے پیشانی پر زخم والے شخص ( اشج ) سے کہا : ’’تم میں دو خوبیاں ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے : عقل اور تحمل ۔ ‘ ‘
وَحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي ح، وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي قَالاَ، جَمِيعًا حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِهَذَا الْحَدِيثِ نَحْوَ حَدِيثِ شُعْبَةَ . وَقَالَ " أَنْهَاكُمْ عَمَّا يُنْبَذُ فِي الدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ " . وَزَادَ ابْنُ مُعَاذٍ فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِلأَشَجِّ أَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ " إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ " .