حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سمیر عابد
حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کےلیےحاضر غلام ہو جائے
میں صرف دیکھ لوں اک بار صبح طیبہ کو
بلا سےپھر مری دنیا میں شام ہو جائے
تجلیات سےبھر لوں میں کاسئہ دل و جاں
کبھی جو اُن کی گلی میں قیام ہو جائے
حضور آپ جو سن لیں تو بات بن جائے
حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے
حضور آپ جو چاہیں تو کچھ نہیں مشکل
سمٹ کےفاصلہ یہ چند گام ہو جائے
ملےمجھےبھی زبان بوصیری و جامی
مرا کلام بھی مقبول عام ہو جائے
مزا تو جب ہےفرشتےیہ قبر میں کہہ دیں
صبیح! مدحتِ خیر الانام ہو جائے
صلی اللہ علیہ وسلم