درد سے یادوں سے اشکوں سے شناسائی ہے کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے خار تو خار ہیں کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے میرے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے ان کا دیدار تقیؔ کیسا قیامت ہوگا جب فقط اُن کے تصور میں یہ رعنائی ہے