کہوں بھی تو کیسے عبادت ہوئی
ابرار کاشف
کہوں بھی تو کیسے عبادت ہوئی
حقیقت ہوئی جیسے مجھ پر عیاں
قلم بن گیا ہے خدا کی زباں
مخاطب ہے بندے سے پرور دگار
تو حسنِ چمن ہے تو ہی رنگ ِ بہار
تو معراجِ فن تو ہی رنگ کا سنگھار
مصور ہوں میں تو میرا شاہکار
یہ صبحیں یہ شامیں یہ دن اور رات
یہ رنگیں دلکش حسیں کائنات
کہ حور و ملائک جنات میں
کیا تجھ کو اشرف المخلوقات
میری عظمتوں کا حوالہ ہے تو
تو ہی روشنی ہے اجالا ہے تو
فرشتوں سے سجدہ بھی کروا دیا
کہ تیرے لیے میں نے کیا نہ کیا
یہ دنیا جہاں بزم آرائیاں
یہ محفل یہ میلے یہ تنہائیاں
فلک کا تجھے شامیانہ دیا
زمیں پر تجھے آب و دانہ دیا
ملے آبشاروں سے بھی تجھے حوصلے
پہاڑوں میں بھی تجھے دیے راستے
یہ پانی ہوا اور شمس و قمر
یہ موجیں رواں یہ کنارہ بھور
یہ شاخوں پہ غنچے چٹخٹۓ ہوئے
یہ فلک پر ستارے چمکتے ہوئے
یہ سبزے یہ پھولوں بھری کیاریاں
یہ پنچھی یہ اڑتی ہوئی تتلیاں
یہ شولہ یہ شبنم یہ تتلی یہ رنگ
یہ جھرنوں کے جلتے ہوئے جل ترنگ
یہ جھیلوں میں ہنستے ہوئے سے کنول
یہ دھرتی پہ موسم کی لکھی ہوئی غزل
یہ سردی یہ گرمی یہ بارش یہ دھوپ
یہ چہرہ یہ قد اور یہ رنگ و روپ
درندوں چرندوں پہ قابو دیا
تجھے بھائی دے کر کے بازو دیا
بہن دی تجھے اور شریکِ سفر
یہ رشتے یہ ناتے یہ گھرانہ یہ گھر
اولاد بھی دی دیے والدین
الف لام میم کاف اور این غین
یہ عقل و ذہانت یہ شعور و نظر
یہ بستی یہ صحرا یہ خشکی یہ تر
اور اس پر کتابِ ہدایت بھی دی
نبی بھی اُتارے شرعیت بھی دی
غرض کہ سبھی کچھ ہے تیرے لیے
بتا کیا کیا تو نے میرا لیے؟